انتھک اور بضد عمران خان

عمران خان نے 13 اگست کے جلسے کے لیے قبل از وقت اپنے اعلانات کو ظاہر نہ کرکے اسرار اور سسپنس قائم کر رکھا ہے


Tanveer Qaisar Shahid August 12, 2022
[email protected]

عمران خان کے حریف اور حلیف، سبھی،ان کی سیاسی توانائیوں اور سیاسی تحرک پر حیران بھی ہیں اور کسی قدر پریشان بھی۔اقتدار سے بوجوہ محروم کیے جانے کے باوجود حریفوں کے خلاف ان کی للکار ماند اور مدہم نہیں پڑی ہے۔

اس اعتبار سے عمران خان کو اپنے حریفوں اور اپنے مخالفین پر تفوق حاصل ہے۔ اس برتری اور تفوق کا احساس عمران خان کو بھی ہے۔ محاورے کے مطابق: خان صاحب مگر آجکل گرم پانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ان گرم اور گہرے پانیوں سے جلد نکلنا سہل اور آسان نہیں ہے۔ایک تو الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے نے انھیں پریشان کررکھا ہے۔

لا تعداد وساوس اور خدشات کے طوفانوں نے خان صاحب کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔یہ گھیراؤ خاصا وسیع، متنوع اور گمبھیر ہے۔ان کے خلاف ریفرنس بھی دائر ہو چکے ہیں جن کے مقاصد بظاہر یہ ہیں کہ عمران خان کو مبینہ قانونی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر سیاست اور پارٹی سے آوٹ کیا جائے،ایسا کرنا مگر آسان نہیں ہے ۔

ماضی قریب میں بھی طاقتوروں اور ہمہ مقتدرین نے کئی سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو سیاست اور اقتدار سے رخصت کرنا چاہا۔اس ہدف کے حصول کی خاطر ان جماعتوں اور ان کے سربراہوں کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے اور ان الزامات کی بکثرت تکرار بھی کی گئی۔

پیپلز پارٹی اورنون لیگ کو بیخ و بُن سے اکھاڑنے اور انھیں معدوم کرنے کی کیا کیا کوششیں بروئے کار نہیں لائی گئیں؟ نواز شریف، شہباز شریف،محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کیا کچھ بھد اور گرد نہیں اڑائی گئی؟وقتی طور پر یہ جماعتیں اور ان کے سربراہ پس پردہ بھی چلے گئے اور ان کا رسوخ بھی کم ہوتا نظر آیا لیکن آج ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو دونوں جماعتیں پھر سے تمام طاقت و توانائی کے ساتھ میدان سیاست میں ہیں۔نواز شریف کی مقبولیت کم کی جا سکی ہے نہ آصف علی زرداری کی اہمیت۔یوں سوال کیا جا سکتا ہے کہ کہاں گئیں ان قوتوں کی کوششیں جو انھیں معدوم کرنا اور مٹانا چاہتی تھیں؟

سبق اور درس یہ ہے کہ اگر تمام تر حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوصف نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے تو پی ٹی آئی کو بھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔پی ٹی آئی سے یقینی طور پر کئی غلطیاں سر زد ہوئی ہیں۔ ان غلطیوں کی جڑ میں یہ احساس کارفرما تھا کہ ہم کسی کے خاص محبوب اور لاڈلے ہیں، اور ہم ہی اکلوتا آپشن ہیں۔

وقت نے مگر ثابت کیا کہ کوئی کسی کا مستقل لاڈلا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقل محبوب۔ یہ وقت اور سیاسی و معاشی جبر ہیں جو کبھی کسی کو اور کبھی کسی کو کسی کا محبوب اور لاڈلا بناتا ہے مگر یہ وقت ہی ہے جو اس بت کو پاش پاش بھی کرتا ہے اور کبر ونخوت کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ بعض لوگوں کا واہمہ اورخیال تھاکہ عمران خان اقتدار سے فارغ ہو کر بکھر جائے گا اور اس کی توانائیاں کمزوریوں میں بدل جائیں گی کہ ان کے سہارے اور بیساکھیاں توڑ دی گئی تھیں۔

اقتدار سے محرومی کے وقت، اپنی بے پناہ غلطیوں کے سبب، عمران خان ملک بھر میں نامقبولیت اور ناپسندیدگی کے پاتال میں گرے پڑے تھے۔ اقتدار سے محرومی نے ان کے لیے وہ کام کیا جو کسی کبڑے کی کمر پر لات رسید کرنے سے کبڑا پن ختم ہو گیا تھا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد خان صاحب ایک نئے ولولے سے اٹھے ہیں اور اپنے حریفوں کے حواس پر چھا گئے ہیں۔ان کے آئے روز کے جلسے جلوس اور پریس کانفرنسیں دیکھ اور سن کر ان کے حریفوں کے اعصاب اور عضلات میں اینٹھن شروع ہو جاتی ہے۔آج جب کہ سارا ملک 14اگست کے حوالے سے یوم آزادی کے جشن منانے کی پُر جوش تیاریاں کررہا ہے، عمران خان نے کل 13 اگست کو لاہور کے ہاکی اسٹیڈیم میں پی ٹی آئی کا اجتماع رکھ دیا ہے۔

عمران خان کو آجکل اپنے چیف آف اسٹاف، ڈاکٹر شہباز گل، کی گرفتاری کے کارن بڑی پریشانی ہے۔شہباز گل کی گرفتاری بوجوہ عمل میں آئی ہے۔ عمران خان اس حراست پر غصے میں بھی ہیں لیکن انھوں نے گل صاحب کی مبینہ گفتگو کی مذمت نہیں کی۔جو کچھ ہوا ہے، ایسا ہونا ہی تھا کہ شہباز گل مبینہ طور پر کئی سنگین غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بلکہ وزیر داخلہ،رانا ثناء اللہ کے بقول،اس بار گھوڑے نے بم کو لات مار دی ہے۔خان صاحب کے معتمد خاص شہباز گل کا ہاتھ اگرچہ بیلنے میں آچکا ہے مگر خان صاحب اپنے ہدف پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں۔

انھوں نے جلسہ ملتوی کیا ہے نہ موخر۔ اجتماع یا جلسے کا مقام بس تبدیل کیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یو ٹرن لینا ایک بڑے لیڈر کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔خان صاحب لاہور کے ہاکی اسٹیڈیم میں کل 13 اگست کو جلسہ کرکے دراصل جشن آزادی کے دو دن مسلسل عوام اور میڈیا کی پوری توجہ اپنی طرف منتقل اور منعطف کرنا چاہتے ہیں۔ اس منظر سے شاید درجن بھر اتحادی جماعتیں دیکھتی ہی رہ جائیں۔ لاریب خان صاحب ایک بڑے اسٹرٹیجسٹ بھی ہیں۔ ان کے مخالفین اسٹرٹیجی بنانے میں ان کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔

خان صاحب لاہور میں ایک بار پھر بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں گے کہ اس بار اس جلسے کے انعقاد میں وزیر اعلیٰ پنجاب، چوہدری پرویز الہی،کا دستِ تعاون بھی پوری طرح کار فرما اور بروئے کار ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کل پی ٹی آئی کا یہ جلسہ خان صاحب کے حریفوں کو عمران مخالف اسٹرٹیجی تشکیل دینے پر پھر مجبور کر دے گا۔واقعہ یہ ہے کہ یہ جلسہ اور اجتماع بھی عمران خان کے انتھک اور بضد ہونے کا ثبوت ہے۔ انھوں نے اس جلسے سے قبل اوپر تلے جو پریس کانفرنسیں کی ہیں، جس سے اُن کے عزائم اور اہداف عیاں ہیں۔

خاص طور پر 10 اگست کو ان کی نیوز کانفرنس ہمہ مقتدرین کے لیے خاصی جارحانہ تھی۔ ان پریس کانفرنسوں میں عمران خان نے حسب معمول کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ پرانی باتوں کو پھر سے دہرایا ہے۔یہ بھی ان کی خاص حکمت عملی ہے کہ اپنی پرانی باتوں کو بار بار دہرایا جائے اور اپنے عشاق سامعین کے ذہنوں میں انھیں راسخ کر دیا جائے۔مخالفین کہتے ہیں کہ عمران خان بار بار جھوٹ بولنے اور بے بنیاد باتیں دہرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔تسلیم کرنا چاہیے کہ عمران خان نے اس اسلوب سے بھی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ان کے مبینہ جھوٹ کا بھی مخالفین کے پاس توڑ کم کم ہے۔

عمران خان نے 13 اگست کے جلسے کے لیے قبل از وقت اپنے اعلانات کو ظاہر نہ کرکے اسرار اور سسپنس قائم کر رکھا ہے۔ یہ سسپنس ان کے سیاسی حریفوں کو دو دن تک مسلسل کرب میں مبتلا کیے رکھے گا۔ یہی خان صاحب کی کامیابی ہے۔اس جلسے سے قبل اتحادی جماعتوں کے مقتدرین نے بھی باری باری پریس کانفرنسیں کی ہیں تاکہ خان صاحب کے اثر اور سحر کو مدہم کیا جا سکے۔

یہ تیر مگر ہدف پر نہیں بیٹھے۔ عمران خان نے مخالفین کے خلاف اپنی سوچی سمجھی اسٹرٹیجی میں مذہب کا رنگ بھرنے کے نئے اور موثر اقدامات کیے ہیں۔ بہت سے لوگ ان اقدامات سے بھی پریشان ہیں۔ اگر مذہب کا نام لے کر جنرل ضیاء الحق، جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن و دیگر مذہب پسند اقتدار واختیار پر قبضہ جمانے کی کوشش کر سکتے ہیں تو '' حضرت مولانا'' عمران خان کیوں نہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں