طالبان کی واپسی
ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے نرمی اور رعایت نہیں ہونی چاہیے
ISLAMABAD:
کے پی کے میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی واپسی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ سوات، دیر، شمالی وزیر ستان، جنوبی وزیر ستان سمیت کئی قبائلی علاقوں میں طالبان کی واپسی کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔ ضلع دیر میں تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی پر حملے اور ان کے قتل نے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
سوات میں ایک ڈی ایس پی اور اہلکاروں کے اغوا نے بھی تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ ان لوگوں کی واپسی کیسے ہوئی ہے؟ کیا ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ ہو گیا ہے؟ کیا واپسی کسی انڈر اسٹینڈنگ کے تحت ہو رہی ہے؟ حکومت اور متعلقہ حلقوں کی مسلسل خاموشی نے معاملے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
ادھر افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم کمانڈر خراسانی کی ہلاکت کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ خراسانی پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات میں مطلوب تھا۔ اس کی ہلاکت ٹی ٹی پی کو یقیناً کمزور کرے گی۔
لیکن ایک طرف خراسانی کی ہلاکت دوسری طرف ٹی ٹی پی کے لوگوں کی واپسی کیا کی خبریں بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے، کیا ٹی ٹی پی کے کچھ کو واپسی کی اجازت دی گئی ہے؟ بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ ٹی ٹی پی کی شرائط مان لی گئی ہوں۔ کیا افغان طالبان بھی مان گئے ہیں کہ وہ افغانستان میں مقیم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے جب کہ پر امن لوگوں کو واپس لے لیا جائے۔ یہ بھی ناممکن ، افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کریں گے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن انھوں نے طالبان سے کہا ہے کہ ماضی میں وہ ان لوگوں کے خلاف کے پی میں کارروائیاں کرتے رہے ہیں جو امریکا کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان کی جماعت تو امریکا کے خلاف ہے۔ ہم نے تو امریکا کا کوئی ساتھ نہیں دیا۔ پھر ان کی جماعت کے لوگوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ عجیب منطق ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ طالبان کو ان کی جماعت کے لوگوں کو کچھ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ وہ تو طالبان کے حمایتی رہے ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کے لوگوں کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے۔ شاید عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت برسر اقتدار ہے۔
ان کا وزیراعلیٰ ہے، وزیر مشیر ہیں، پورا صوبائی انتظامی ڈھانچہ پی ٹی آئی کے کنٹرول میں ہے ، اس لیے طالبان کی لڑائی صوبائی حکومت سے ہی ہوگی۔ وہ اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے حکومتی جماعت کو ہی نشانہ بنائیں گے، اس لیے ایسے لوگوںکو معافی کیسے مل سکتی ہے۔
کابل جانے والے جرگوں سے بھی کوئی اچھی خبریں نہیں آئی ہیں۔ یہ بس سیر وتفریح کی مشق کے سوا کچھ نہیں ہے ۔کوئی ایسا معاہدہ سامنے نہیں آسکا جس کو حکومت اور پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ طالبان کے حمایتی بھی خاموش ہیں کیونکہ شنید یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جو شرائط سامنے آئی ہیں، وہ آئین وقانون کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے ان کو سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا جا سکا۔ موجودہ حکومت نے افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
قومی اسمبلی کی سیکیورٹی کی ایک کمیٹی بلائی گئی تھی، جہاں بریفنگ لی گئی۔ تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا اور ایک پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی گئی۔ یہ درست ہے کہ اس پارلیمانی کمیٹی کو کچھ علم نہیں لیکن توثیق کے لیے اس کے سامنے کچھ پیش بھی نہیں کیا گیا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ پس پردہ یہ طے ہوا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردی میں ملوث نہیں رہے، وہ پر امن رہنے کی یقین دہانی پر اپنے علاقوں میں واپس آسکتے ہیں اور اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں، اس لیے ہمیں کچھ علاقوں میں ایسے افراد کی واپسی نظر آرہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پرامن لوگ ہی واپس آئے ہیں تو بھتہ لینے کی باتیں کیوں سامنے آرہی ہیں؟ کیا یہ جواز قابل قبول ہوسکتا ہے کہ بھتہ لینا قبائلی علاقوں میں ایک روایت ہے، جرم نہیں سمجھاجاتا۔ یہ لوگ واپس آرہے ہیں اور اپنا نقصان پورا کر رہے ہیں، ایسا ایک آدھا واقعہ ہوگیا ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ یہ جواز کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا۔کسی پرامن شہری سے ڈرا دھمکا کر بھتہ لینا سنگین جرم ہے، قانون میں اس جرم کی سزا موجود ہے۔
کیا اسلحہ بند لوگوں کا دفاع یہ کہہ کر کیا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس اسلحہ ہے تو قبائلی علاقوں میں سب کے پاس اسلحہ ہے۔ وہاں ذاتی اسلحہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے اگر واپس آنے والے طالبان کے پاس اسلحہ ہے تو کونسی عجیب بات ہے۔
ابھی تک کسی بڑے کمانڈر کی واپسی سامنے نہیں آئی ہے۔ چھوٹے سطح کے لوگ واپس آئے ہیں، کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ تحریک طالبان کے لوگوں نے واپس آکر کسی علاقے پر کوئی قبضہ کر لیا ہے یا کہیں کوئی اپنی حکومت قائم کر لی ہے۔ یہ دلیل اس لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ کے پی ٹارگٹ کلنک کی وارداتیں ہو رہی ہیں، بھتہ وصولی کی باتیں ہورہی ہیں، مشکوک لوگوں کی نقل وحرکت کی باتیں ہورہی ہیں، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے ، واقعات کا تسلسل بتا رہا ہے کہ مرکزی اور خیبرپختونخوا کی حکومت میٹھی نیند سوتی رہی تو کل کوئی بڑا سانحہ ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ وہ سب کچھ کر بھی سکتے ہیں جس کا ہمیں خدشہ ہے۔
ہم نے بہت مشکل سے ایسے عناصر کو ان علاقوں سے نکالا تھا۔ کیا اب دوبارہ پرانے حالات پیدا ہونے جارہے ہیں ۔ اگر انھوں نے دوبارہ خود کو منظم کر لیا اور پرانی روش پر آگئے تو کیا کیا جائے گا؟ کیا ہمیں دوبارہ ان کے خلاف آپریشن کرنا پڑے گا۔ پھر سب کچھ وہی ہوگا۔ کیا پاکستان اس کا دوبارہ متحمل ہو سکتا ہے۔
ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ خاموش انڈراسٹینڈنگ بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ جب یہ انڈراسٹینڈنگ ختم ہوجاتی ہے تو قیمت پوری قوم کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں یہ قیمت ہزاروں جانیں قربان کرکے چکائی ہے لیکن ہم نے ماضی سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ جو پاکستان کے آئین وقانون کو نہیں مانتا،اس کی اس ملک میں واپسی یا رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں آج ہونے والا ایک آدھا خونی واقعہ کل کے بڑے حادثے کی نوید سنا رہا ہے۔
ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے نرمی اور رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ جو بھی بات ہوئی ہے یا ہورہی ہے یا ہوگی،اس کا پوری قوم کو پتہ ہونا چاہیے۔ مقامی لوگ ان کی واپسی پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کا ماضی ایسا نہیں ہے کہ ان پر اندھا اعتبار کیا جا سکے، مقامی لوگ کے خدشات غلط نہیں ہیں۔