آن لائن ہراسانی اور پیکا آرڈیننس کی بے عملی

ہراسانی کی بہت سی درخواستیں ایف آئی اے کے دفتر میں فائلوں میں بند پڑی اپنی بے بسی کا ماتم منا رہی ہیں


سعدیہ مظہر August 12, 2022
کئی سوشل میڈیا صارفین آن لائن ہراسانی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سہہ رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لاہور: فرض کیجیے آدھی رات کو آپ کو اپنی چھت پر قدموں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے۔ خوف محسوس ہونے کے فوراً بعد خود کی حفاظت کےلیے سب سے پہلے آپ کون سا اقدام کریں گے؟ یقیناً آپ پولیس کو بلانے سے اجتناب ہی کریں گے؟ مگر کیوں؟

اچھا آپ کی آدھی رات کو اچانک طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ تب کیا کریں گے؟ اسپتال سے بھی ہر ممکن دور رہنے کی کوشش کریں گے؟ مگر کیوں؟

یہ کیوں اور اس جیسے کئی کیوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے، جیسے جیسے ہم اداروں اور ان کی کارکردگی کی بات کرتے ہیں۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا آنے کے بعد پاکستان میں بھی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانا آسان ہوگیا ہے۔ انٹرنیٹ بنیادی ضرورت بن گیا ہے۔ دنیا سمٹ کر انسان کی مٹھی میں ہے۔ کیسی کیسی نامور شخصیات جن سے ملنا کبھی خواب ہوا کرتا تھا، اب سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ ہماری مہمان بنی ہوتی ہیں۔

پاکستان میں اس وقت تقریباً 83 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا تک رسائی 73 لاکھ لوگوں کو ہے، جن میں 22 فیصد خواتین جبکہ 78 فیصد مرد شامل ہیں۔ صنفی برابری کے حوالے سے پاکستان اس وقت بھی بین الاقوامی سطح پر بہت پیچھے ہے اور اس کی واضح دلیل سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ہے۔

بہت سی وجوہ میں سے ایک بہت بڑی وجہ جو خواتین کو سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بک سے دور رکھتی ہے، اسے بے پردگی سے جوڑا جاتا ہے۔ یعنی ایسا ماننے والے ہیں کہ سوشل میڈیا پر آنے والی خواتین اپنی ذاتی زندگی اور معلومات کو عام کردیتی ہیں۔ دوسری بہت اہم وجہ آن لائن ہراسانی ہے۔

پاکستان میں گزرے سال سے اب تک آن لائن ہراسانی نے نامور خواتین کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا، جن میں عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی اور فردوس عاشق اعوان شامل ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بدلتے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیکا کا قانون متعارف کروایا گیا۔ یہ قانون بالخصوص آن لائن ہراسانی کے مسائل و مقدمات سے نمٹنے کےلیے بنایا گیا تھا مگر خواتین کی جانب سے ہراسانی کی بڑھتی شکایات اور ایف آئی اے کی خاموشی نے تب ذہن کو مزید الجھا دیا جب ایک خاتون صحافی کی جانب سے ان کی تصاویر کو ان کی مرضی کے بنا استعمال کرنے کی درخواست دینے کے باوجود ایف آئی اے نے کچھ نہ کیا۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد ایف ائی اے سے اسی درخواست اور پیکا کے قانون کے تحت موصول ہونے والی تمام درخواستوں اور ان پر ہونے والی کارروائی کی تفصیل، معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مانگی گئی۔ ایف ائی اے تب بھی آٹھ ماہ مسلسل خاموش رہا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن کے بار بار بلانے پر بھی کوئی جواب نہ دے سکا۔ یہ مجرمانہ خاموشی آج بھی قائم ہے۔

ہراسانی کی ایسی ہی بہت سی درخواستیں آج بھی ایف آئی اے کے دفتر میں فائلوں میں بند پڑی اپنی بے بسی کا ماتم منا رہی ہیں اور درخواست گزار مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی معاشرتی رویوں کے نشتر سہہ رہی ہیں۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے ان کی درج کرائی گئی درخواستوں پر کیا کام ہوا، کیا فیصلہ ہوا اور کون مجرم پکڑا گیا؟

انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اب وقت کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایف آئی اے کا عملہ جو پیکا کے تحت دائر درخواستوں کو نمٹانے کےلیے تنخواہیں تو لے رہا ہے مگر کارکردگی کیوں نہیں دکھا پارہا؟ کیا حکومت کی جانب سے ادا کی گئی یہ تنخواہیں پھر خزانے پر بوجھ تو نہیں؟ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت عام شہری کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کیا اتنے بے معنی ہیں؟

سوشل میڈیا صارفین اس ہراسانی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سہہ رہے ہیں مگر اب سوچ میں پڑ چکے کہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کےلیے کون سا در کھٹکھٹائیں، کیونکہ ایف آئی اے تو سو رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں