حقیقی آزادی یا غلامی کے 75 سال

ہم خود کو آزاد تصور کرکے خوش ضرور ہوتے ہیں مگر اصل میں ہم بدترین غلامی کا شکار ہیں


محمد عارف میمن August 13, 2022
آزادی کا نعرہ تو محض دل کو بہلانے کےلیے ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: فیصل آباد میں غربت کے مارے ایک باپ نے دو بیٹیوں کے گلے پر چھری پھیرکر خودکشی کرلی۔ بلدیہ ٹاؤن میں ایک باپ زائد بل آنے پر ہارٹ اٹیک سے دنیا سے کوچ کرگیا، جاتے جاتے اپنے چار بچے یتیم اور بیوہ کو غلاموں کے پاس چھوڑ گیا۔ یہ واقعات اب معمول بنتے جارہے ہیں۔ پہلے جب اس طرح کی خبریں آتی تھیں تو حکومت پر لعن طعن کی جاتی تھی، مگر اب ہر جگہ خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ وجہ بڑھتی مہنگائی اور اس کا کنٹرول نہ ہونا ہے۔

پاکستان کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے۔ پاکستان تو آزاد ہوگیا، مگر پاکستانی آج بھی غلام بنے ہوئے ہیں۔ آزادی سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام رہے اور آزادی کے بعد انگریزوں کے غلاموں کے غلام بن گئے۔ ہمارے سیاستدان آج بھی انگریزوں کے وفادار ہیں۔ یہ لوگ آج بھی پاکستان سے زیادہ امریکا اور برطانیہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری قسمت کے تالے کی چابی ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس پر مہر بھی ثبت کردی کہ آئی ایم ایف کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ آئی ایم ایف جو کہے گا ہم وہیں کریں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت تو ہے مگر یہ حکومت پاکستان کےلیے نہیں بلکہ انگریزوں کی غلامی کےلیے ہے۔ آزادی کا نعرہ تو محض دل کو بہلانے کےلیے ہے۔ درحقیقت ہم کل بھی غلام تھے، ہم آج بھی غلام ہیں اور خدانخواستہ اگر حالات یہی رہے تو ہم کل بھی غلام رہیں گے۔

پٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں تو بڑھ جائیں، آٹا غریب کی پہنچ سے دور ہوتا ہے تو ہوجائے، عوام غربت کے باعث مرتے ہیں تو مرجائیں۔ کرنا ہم نے وہی ہے جو ہمارے آقا چاہیں گے۔ اور آج کل آقا کا موڈ اچھا نہیں، اس لیے آئی ایم ایف نے بھی منہ پھیر لیا ہے۔ جس کا ثبوت آرمی چیف کا پہلے امریکا اور بعد میں سعودیہ عرب سے درخواست کرنا ثابت کرتا ہے کہ امریکا ہمارے سیاستدانوں سے قطعی خوش نہیں۔ لیکن ہم تو غلام ہیں، اس لیے ہمیں ہر حال میں آقا کو منانا ہے۔ یہ کام ہمارے سیاستدان کررہے ہیں اور اب اس فہرست میں ایک اور بھی شامل ہوگیا ہے۔

مجھ سے چند دن قبل ایک بچے نے سوال کیا کہ آزادی کیا ہے اور 14 اگست کیوں اتنے دھوم دھام سے مناتے ہیں؟ سوال سن کر میں کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بس اتنا کہا کہ ہماری غلامی کے 75 سال مکمل ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔ 14 اگست کو انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ لوگوں کی غلامی میں آگئے۔ بچہ میری بات نہیں سمجھ سکا، بس اتنا کہا کہ مطلب ہم غلام ہیں۔ میں نے جواب دیا بے شک ہم آج بھی غلام ہیں۔

ہمارے ملک میں تمام سہولیات میسر ہیں، مگر یہ سہولتیں ہمارے سیاستدانوں اور طاقتوروں کےلیے ہیں۔ عوام کےلیے آج بھی روکھی سوکھی روٹی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی ہے۔ جسے روشنیوں کا شہر کہتے ہیں وہ ایک عرصے سے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن بجلی سپلائی کرنے والی پرائیوٹ کمپنی کے الیکٹرک سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ اوور بلنگ ہو یا کمپیوٹر کی خرابی، لیکن جو بل آگیا وہ ادا کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں غلامی۔ آپ بجلی سرکاری نرخ پر استعمال کرتے ہیں، مگر کب استعمال کرنی ہے یہ فیصلہ کمپنی کرتی ہے۔ آپ کو بل ہزار روپے کا بھیجنا ہے یا لاکھ روپے کا، یہ بھی کمپنی طے کرے گی۔ بل کب ادا کرنا ہے یہ بھی کمپنی طے کرے گی۔ اگر ایک دن بھی دیر سے بل ادا کیا تو پھر جرمانہ بھی کمپنی اپنی مرضی سے طے کرے گی۔ یہ بھی ایک غلامی ہے۔

شہر میں پانی کی کوئی قلت نہیں۔ ہر سال بارشوں سے حب ڈیم بھر جاتا ہے، جس کا پانی شہر قائد کےلیے تین سال تک کافی ہے، لیکن اس کے باوجود ٹینکر مافیا کی چاندی کرنے کےلیے ہمیں لائنوں کے بجائے ٹینکر کے ذریعے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ یہ بھی غلامی ہے۔ ہمارے پاس گندم کی کوئی قلت نہیں، لیکن یہ گندم سرکاری گوداموں میں سڑ جاتی ہے، لیکن عوام کو مہیا نہیں کی جاتی۔ لوگ بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں، لیکن عوام کو گندم دینا تو دور انہیں بھنک بھی نہیں لگنے دینا، یہ بھی غلامی ہے۔

ہمارے پاس ہر طرح کے وسائل ہیں، ہمارے پاس افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں، اس کے باوجود ہمارے پاس مسائل کے انبار اور افرادی قوت کی قلت کا رونا بھی غلامی ہے۔ کراچی کی سڑکیں ہر سال بارشوں کی نذر ہوجاتی ہیں، سڑکوں کی جگہ گڑھے جگہ لے لیتے ہیں، مگر محکمہ ورکس سے کوئی یہ تک نہیں پوچھتا کہ پچھلے سال جو سڑک بنانے کےلیے بجٹ دیا وہ کہاں گیا۔ یہ بھی غلامی کے زمرے میں آتا ہے۔

ہر گلی میں کریانہ اور بیکریاں موجود ہیں، جن کے اپنے اپنے نرخ ہیں۔ جس ادارے کا کام ہے ان نرخوں کو چیک کرنا وہ ہماری محنت کی کمائی سے تنخواہ لے کر اپنے بچوں کی کفالت میں لگے ہوئے ہیں، ان کی زندگیاں بہتر بنانے میں مصروف ہیں، مگر ہمارے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ یہ بھی غلامی ہے۔

تعلیم کے نام پر سرکار کی طرف سے بڑی بڑی عمارتیں تو مہیا کردی گئی ہیں مگر وہاں تعلیم کے بجائے گھوڑوں کی خرید وفروخت کا کاروبار ہوتا ہے۔ جہاں عمارتیں خستہ ہیں وہاں چند بچے بٹھا کر ڈھیروں اساتذہ کو گھر بیٹھے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تعلیم کے نام پر پرائیوٹ اسکولوں نے کاروبار کھول لیے۔ یہ بھی غلامی ہے۔ ہماری آدھی سے زائد تنخواہ پرائیوٹ تعلیم کے نام پر ہم سے بٹور لی جاتی ہے اور باقی ہم پر ٹیکس لگا کر لے لیے جاتے ہیں۔ مطلب یوں کہ جو سہولت آپ لے ہی نہیں رہے آپ کو اس کا بھی ٹیکس ادا کرنا ہے۔ اور جو سہولت آپ لے رہے ہیں اس کا لازم ٹیکس ادا کرنا ہے۔ یہ بھی غلامی ہے۔

آپ اپنی محنت سے گاڑی خریدیں اور اس کا ٹیکس ادا کریں۔ لیکن اس کے باجود آپ کو ٹریفک پولیس کو چالان کی صورت میں روزانہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے، پارکنگ کے نام پر بھتہ لازم دینا ہے، اس کے بعد سالانہ ٹیکس الگ سے ادا کرنا ہے۔ یہ بھی ایک غلامی ہے۔ دن دیہاڑے کوئی آپ کو بندوق دکھا کر آپ سے سب کچھ لے لے، یہ بھی غلامی ہے۔ ان میں اور حکومت میں بس اتنا فرق ہے کہ یہ لوگ بندوق دکھا کر عوام کو لوٹتے ہیں اور حکومت آپ کو بنا کوئی سہولت دیے ٹیکس کی صورت میں لوٹتی ہے۔ یہ بھی غلامی ہے۔

ہم خو د کو آزاد تصور کرکے خوش ضرور ہوتے ہیں مگر اصل میں ہم بدترین غلامی کا شکار ہیں۔ 14 اگست پر پرچم بلند سے بلند کرنے سے ہم آزاد نہیں ہوتے، بلکہ دنیا کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم سب سے بڑے غلام ہیں۔ دنیا 14 اگست کو ہم پر ہنس رہی ہوتی ہے اور ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہماری خوشی میں خوش ہورہے ہیں۔ کبھی موقع ملے تو 14 اگست کو کسی انگریز کے چہرے کی طنزیہ مسکراہٹ کا بغور جائزہ لیجیے گا۔ آپ کو اپنی غلامی کی پہچان ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔