1947 کی یادیں

یہ ملک بہت قربانیوں سے حاصل ہوا ہے، ہمیں اس کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کےلیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا


آصف محمود August 14, 2022
اس آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: 1947 میں تقسیم کا اعلان ہونے سے پہلے ہی جب ریفرنڈم ہوا تو ہمارا علاقہ میاؤلی ضلع گڑگاواں انڈیا میں شامل ہوگیا تھا اور ہمیں معلوم تھا کہ اب ہمیں ہجرت کرنا پڑے گی۔

سکھوں اورہندوؤں کے جتھے مسلمانوں کے محلوں اور آبادیوں پر حملے کرتے، خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں، جسم کے نازک حصے کاٹ دیے جاتے، سیکڑوں خواتین نے اپنی عزت بچانے کےلیے کنوؤں میں کود کر زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے پاکستان پہنچے تو یہاں ہیضے کی وبا سے بچوں سمیت کئی افراد کی موت ہوگئی۔ انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والا شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہوگا جس کا کوئی فرد راستے میں شہید نہ کردیا گیا ہو۔

1947 کی کہانی سناتے ہوئے لاہور کے سرحدی علاقہ نروڑ کے رہائشی بزرگ شیر محمد آبدیدہ ہوگئے تھے۔ ایکسپریس نیوز کے ساتھ قیام پاکستان کی یادیں شیئر کرتے ہوئے شیر محمد کا کہنا تھا ان کے علاقے سے مسلم لیگ کے امیدوار مولانا جان محمد کامیاب ہوئے تھے، لیکن جب علاقوں کی تقسیم ہوئی تو ان کا ضلع گڑگاواں ہندوستان میں شامل ہوگیا۔

شیر محمد کے مطابق وہ اس وقت دس، گیارہ برس کے تھے جو محلے کے دیگر بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر نعرے لگایا کرتے تھے ''لے کر رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ''۔



سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی اقلیتی آبادیوں اور محلوں پر حملے کرنا شروع کردیے تھے۔ وہ لوگ جتھوں کی شکل میں حملے کرتے تھے۔ مسلمان عورتوں کی آبروریزی کی جاتی، نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے۔ ملٹری والے بھی ہندوؤں کے جتھوں کی حمایت کرتے تھے۔ ان کے گاؤں کے قریبی ایک گاؤں میں تمام مسلمانوں کو یہ کہہ کر ایک بڑی حویلی میں اکٹھا کیا گیا کہ انہیں پاکستان بھیجا جائے گا۔ رات کے وقت مسلمان مردوں کو حویلی کے ایک حصے میں جبکہ خواتین کو دوسرے حصے میں رکھا گیا۔ آدھی رات کو ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کردیا۔ خواتین کی آبروریزی کی کوشش کی گئی۔ درجنوں خواتین عزت بچانے کےلیے حویلی کے بڑے کنویں میں کود گئیں اور اپنی جانیں قربان کردیں۔

شیر محمد کہتے ہیں ان کے گاؤں سے تین قافلے پاکستان کےلیے روانہ ہوئے تھے۔ پہلا قافلہ 17 اگست اور دوسرا 21 اگست کو روانہ ہوا۔ خواتین، بچوں اور بزرگوں کو ٹرین میں بٹھادیا گیا تھا، وہ بھی ٹرین میں ہی سوار ہوئے تھے، باقی لوگ بیل گاڑیوں پر تھے۔ راستے میں بھٹنڈہ ریلوے اسٹیشن پر سکھوں اور ہندوؤں نے ٹرین پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن انگریز افسر نے فوج کی مدد سے یہ کوشش ناکام بنادی تھی۔ وہ لوگ ٹرین سے فاضلکا بنگلا پہنچے، پھر وہاں سے ملتان اور قصور پہنچے۔ قصور میں ہیضہ کی وبا پھیلنے سے ان کے بچوں سمیت کئی افراد کی موت ہوگئی تھی۔ قصور کے بعد لاہور میں کئی ہفتوں تک کیمپوں میں قیام کرنا پڑا، جہاں انہیں راشن ملتا تھا۔ مقامی لوگ بھی مدد کرتے تھے اور بالآخر ان کے بزرگوں کو لاہور کے سرحدی علاقے نروڑ، ساہنکے، واہگہ، بھانوچک، تھے پورہ، کھڑک، چنڈیر کے علاقوں میں جگہ الاٹ ہوئیں۔

شیر محمد نے بتایا ان کے خاندان اور گاؤں کے کئی لوگ کچھ عرصہ یہاں رہے لیکن پھر سندھ کے بارڈر کے راستے واپس انڈیا چلے گئے۔ آج بھی ہندوستان کے اس گاؤں میں جہاں سے وہ لوگ ہجرت کرکے آئے تھے ان کے خاندان آباد ہیں۔ وہ خود بھی 1984 میں ایک بار واپس وہاں گئے تھے۔

نروڑ گاؤں واہگہ سرحد کے قریب ہے۔ قیام پاکستان سے قبل نروڑ سمیت بارڈر ایریا کے زیادہ تر دیہات میں سکھ اور ہندو آباد تھے، آج بھی سکھوں اور ہندوؤں کی پرانی حویلیوں، گوردواروں اور عبادت گاہوں کے آثار یہاں موجود ہیں۔ بھارت سے اکثر اوقات سکھ فیملیاں اپنا آبائی گاؤں اور گھر دیکھنے یہاں آتی ہیں۔



نروڑ گاؤں کے ہی رہائشی ایک اور بزرگ روشن دین نے بتایا ان کے والد کے چار بھائی تھے۔ ان کا خاندان بیل گاڑی پر اور پیدل ہجرت کرکے یہاں پہنچا تھا۔ ان کے چاچا سمیت خاندان کے کئی افراد راستے میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے والد جیسے ہی پاکستان کی سرزمین پر پہنچے ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ جو لوگ واہگہ بارڈر کے راستے امرتسر اور دہلی سے لاہور میں داخل ہوئے تھے ان کے ساتھ زیادہ ظلم و ستم ہوا۔ امرتسر کے قریب مسلمان مہاجروں سے بھری تین ٹرینوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔ ہندوستان سے پاکستان آنے والا ریلوے ٹریک یہاں قریب سے ہی گزرتا ہے۔ کٹے پھٹے انسانوں کو لے کر جب یہ ٹرین اٹاری سے واہگہ کے علاقے میں داخل ہوئیں تو یہاں کہرام مچ گیا۔ پھر ردعمل کے طور پر یہاں گجرات، سیالکوٹ، جہلم، لاہور، شیخوپورہ سے جو سکھوں اور ہندوؤں کے قافلے انڈیا جارہے تھے مسلمانوں نے ان کو نقصان پہنچایا۔ دونوں طرف خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔

روشن دین کہتے ہیں اس آزادی کی ہمیں بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ آج بھی جب وہ منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنی نئی نسل کو یہ کہانیاں سناتے ہیں تاکہ انہیں احساس ہوسکے کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے حاصل ہوا اور ہمیں اس کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کےلیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔