بلوچستان پکار رہا ہے…
بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں صحت کا نظام ناقص ہے۔ بارش کے فورا بعد وبائی امراض پھیلنا شروع ہوگئے ہیں
PARIS:
اوران ڈوب رہا تھا، غریب موت کے دھانے پر تھے۔پہاڑوں سے آنے والا سیلابی ریلہ گھروں، کھیتوں اور سڑکوں کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کررہا تھا۔ کچھ لوگ اس سیلاب کی تباہ کاری کے منظر کو سوشل میڈیا کے ذریعہ وائرل کررہے تھے مگر صوبائی حکومت معمول کی کارروائیوں پر توجہ دے رہی تھی۔
ایک جوان عورت سوشل میڈیا پر چیخ چیخ کر آوازیں دے رہی تھی کہ بلوچستان میں غریب لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر دستیاب نہیں ہے۔ بلوچستان کو برابری کی حیثیت دینے کے دعوے کرنے والے حکمرانوں سے یہ عورت سوال کررہی تھی کہ اس علاقہ کے لوگوں کے لیے صرف موت کا ہی انتظام ہے؟ یہ اوران اور اطراف کے علاقوں میں معاملہ دہشت گردی کی صورت میں ہو یا قدرتی آفات کی بناء پر، بلوچوں کی قسمت میں شاید لکھ دیا گیا ہے۔
ان کا مقدر موت، پسماندگی، غربت اور بیماریوں کا ہے۔ اور یہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کا آبائی علاقہ ہے اوریہ کبھی ان نوجوانوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا جو بندوق کے ذریعہ بلوچستان کی آزادی کو تمام مسائل کا حل جانتے تھے۔ یہ علاقہ سرمچاروں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کا مرکز تھا۔ زلزلہ کے جھٹکوں نے اس علاقہ میں تباہی مچائی۔ زلزلہ سے مرنے والوں کی تعداد تو کم تھی مگر کچے مکانات اور دیگر عمارتوں کے تباہ ہونے کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور کا کہنا تھا کہ اوران میں 90 فیصد مکانات کچے ہیں، یوں ہلاکتوں کی تعداد کم ہوتی تھی مگر اب بارش کے سیلابی پانی نے اوران اور اس کے مضافاتی علاقوں کو پانی کے سمندر میں تبدیل کیا۔ اس نے آٹا، چاول ، گندم اور دیگر فصلوں کو تو تباہ کیا مگر پانی کے کنوؤں میں گندا پانی بھی مل گیا۔
جن لوگوں نے پانی پیا ،وہ پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ اس پانی کے استعمال سے بچے اور عورتیں زیادہ متاثر ہوئیں۔ کوئٹہ کی حکومت کی عدم توجہ کی بناء پر بیوروکریسی کو من مانی کرنے کا موقع ملا۔ صوبائی اور وفاقی ایجنسیوں نے امدادی سامان بھیجا تو وہ سیلاب کے متاثرین میں تقسیم نہ ہوا ،اوران اور اس سے ملحقہ علاقوں کو جانے والی سڑکیں سیلابی پانی نے تباہ کردیں اور یہ علاقہ کوئٹہ اور کراچی سے مکمل طور پر کٹ گیا اور اس کے مضافاتی علاقہ جھاؤ کے لوگ کھانے کی اشیاء کے ساتھ پینے کے پانی اور ادویات سے بھی محروم ہوئے۔
ان لوگوں کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔ جھاؤ کے لوگوں نے کراچی جانے والی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ یہ شاہراہ بارش کے بعد سے ٹریفک کے لیے بند ہے۔ سیلابی پانی نے جھاؤ کے علاقہ میں بھی بڑی تباہی مچائی۔ جھل مگسی اور نصیر آباد کے علاقے بھی بارش سے متاثر ہوئے۔ ان علاقوں میں بارش کا پانی مسلسل جمع ہے۔ عام آدمی کا اس سیلاب میں سب کچھ لٹ گیا ہے۔ یہ لوگ امداد کے منتظر رہے مگر امداد نہیں پہنچی۔ یہ لو گ انتظامیہ کی نااہلی اور اقرباء پروری کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
جولائی میں شروع ہونے والی بارشوں نے اوران کے علاوہ نصیر آباد، خضدار، سبی اور لسبیلہ کے اضلاع کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ایک ٹی وی چینل کا رپورٹر جب نصیر آباد کے دور دراز علاقہ میں پہنچنے میں کامیاب ہوا تو اس کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی امداد اس علاقہ میں پندرہ دن بعد پہنچی۔
کراچی کی حدود جہاں ختم ہوتی ہیں، وہیں سے لسبیلہ ضلع کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ لسبیلہ پر گزشتہ 75برسوں سے جام خاندان کا اقتدار قائم ہے۔ یہاں جام غلام نادر، جام یوسف اور جام کمال کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بننے کے اعزازات حاصل ہوئے مگر ضلع کی پسماندگی کو دور کرنے کو کبھی اہمیت نہ دی گئی۔ بارش سے حب ڈیم بھر گیا۔
اس کے پانی نے لسبیلہ اور کراچی کے مضافاتی علاقوں میں تباہی مچائی۔ لسبیلہ کے قریب کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پانی میں ڈوب گئی۔ اس شاہراہ پر تعمیر ہونے والے پل بہہ گئے۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ جو پل گزشتہ برسوں میں تعمیر ہوئے تھے وہ سب سے پہلے پانی کے ریلہ کا مقابلہ نہ کرسکے۔ لسبیلہ ان بارشوں سے سب سے پہلے متاثر ہوا۔ تباہی کا سلسلہ خضدار، اوران، نصیر آباد اور دیگر علاقوں تک پہنچ گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سب سے پہلے صورتحال کی گہرائی کو محسوس کیا۔ آمنہ بلوچ جو ہمیشہ بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں اور لاپتہ افراد کے مسئلہ پر کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی قیادت میں کراچی کے مختلف علاقوں میں امدادی سامان جمع کرنے کے لیے کیمپ قائم ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض جو ہر جبر کی ہر صورت کے خلاف مزاحمت کو اپنی زندگی کا لازمی جز سمجھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں یونیورسٹی کے اساتذہ نے امدادی فنڈ قائم کیا، دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ریلیف کے کام میں ہاتھ بٹانا شروع کیا۔
فیصل ایدھی کی قیادت میں امدادی ٹیمیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سب سے پہلے پہنچیں۔ ان علاقوں کے انتظامی افسران اس دوران کیا کرتے رہے اس سوال کا جواب صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ بلوچستان کا رقبہ ایک طویل علاقہ پر محیط ہے۔ غیر سرکاری ادارے کتنی ہی کوشش کریں ان کی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں۔ یہ ذمے داری ریاستی اداروں کی ہوتی ہے۔
بلوچستان میں حکومتی اداروں کی کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ جب وزیر اعظم شہباز شریف سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے نصیر آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور انھیں ایک امدادی کیمپ کے معائنہ کے لیے لے جایا گیا تو وہاں موجود لوگوں نے انتظامیہ کی نااہلی کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی۔ وزیر اعظم کے سامنے ان شکایات پر وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے کچھ افسروں کومعطل کرکے اپنا فریضہ انجام دیا مگر مجموعی طور پر صورتحال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس وقت دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 175افرادجاں بحق ہوئے۔ غیرسرکاری طور پر جاں بحق ہونے والے افراد زیادہ ہیں۔
اسی طرح سرکاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 80 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ آفات کے دوران امدادی کام کرنے والے سرکاری ادارہ پی ڈی ایم اے کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ بارشوں سے 6000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 16 پلوں اور 640کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ بلوچستان کے غریب لوگوں کا کل سرمایہ مال مویشی ہوتے ہیں۔ اس ظالم سیلاب نے 23 ہزار سے زائد مویشیوں کو ہلاک کیا۔ سیلابی ریلہ سے 8 ڈیم اور کئی حفاظتی بند متاثر ہوئے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ بارش سے ایک لاکھ 98 ہزار ایکڑ پر کاشت فصلیں تباہ ہوئیں۔ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں حقائق چھپائے گئے ہیں ، مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی طرح مکانات کی تباہی اور مویشیوں کے مرنے کی حقیقی تعداد کو پوشیدہ رکھا گیا ہے۔
بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں صحت کا نظام ناقص ہے۔ بارش کے فورا بعد وبائی امراض پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہیضہ کی بیماری سے اموات کا تناسب بڑھا ہے۔ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں نے ایک نئی مشکل کھڑی کی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھیجی۔ کچھ تنظیمو ں نے بھی طبی سہولتوں کا انتظام کیا مگر یہ سب ناکافی ہے۔
بلوچستان پاکستان کا حساس ترین صوبہ ہے۔ یہ رقبہ کے لحاظ سے تو سب سے بڑا صوبہ ہے مگر غربت اور افلاس کے تناظر میں اس کا تمام صوبوں سے نمبر زیادہ ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اکثریت زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ کچھ لوگ کان کنی کے شعبہ سے منسلک ہیں۔
اسی طرح مختصر لوگ سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ سیلاب نے ہر طرح کی تباہی ان علاقوں میں پھیلائی ہے۔ بلوچستان کے کچھ حساس سیاسی کارکنوں کا یہ تصور ہے کہ اسلام آباد کے پالیسی ساز ادارہ کے ماہرین بلوچستان کو نوآبادی سمجھتے ہیں۔ آفات میں حکومت کی نااہلی ان کے خیالات کو تقویت دیتی ہے۔ اگست کا پورا مہینہ بارشوں کا مہینہ ہے۔ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں متوقع بارش مزید تباہی مچائے گی۔ یہی وقت ہے کہ بلوچستان میں بڑے پیمانہ پر ریلیف آپریشن کیا جائے۔