نظام انصاف اور لارڈ میکالے 1

میں اکثراس نکتہ کاجواب تلاش کرنےکی ناکام کوشش کرتارہتاہوں کہ ہم لوگوں میں جستجو اور سوال کرنے کی اہلیت اتنی کم کیوں ہے


راؤ منظر حیات March 14, 2014
[email protected]

میں اکثر اس نکتہ کا جواب تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ہم لوگوں میں جستجو اور سوال کرنے کی اہلیت اتنی کم کیوں ہے؟ کیا صدیوں کی مسلسل غلامی نے ہمارے ذہنوں کو ہمیشہ کے لیے منجمد کر دیا ہے! کیا ہم صرف تقلید کے قابل رہ گئے ہیں! اگر ہم نے کسی اَمر میں واقعی ترقی کی ہے تو وہ ہے مسلسل جھوٹ بولنا۔ ہم تمام لوگ صرف اور صرف جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ سنتے ہیں اور جھوٹ میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہاں! ایک اور چیز جس میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، وہ ہے سازش کرنا۔ اگر آپ نے ان دونوں چیزوں یعنی جھوٹ اور سازش کی معراج دیکھنی ہے تو سیاست اور سرکاری نوکری آپ کو قطعاً مایوس نہیں کرے گی۔ ہمارے صرف وہ لوگ کامیاب ہیں جو اہلیت کے بجائے وقت کے بادشاہ کے دربار میں چرب زبانی سے حاکم کو خوش رکھتے ہیں۔ اور پھر عوام سے اس کی پوری فیس وصول کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے تمام گناہ معاف ہیں۔

کئی ماہ سے میں ایک جملہ کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ ہے، قانون کی حکمرانی۔ بظاہر تو یہ بہت معقول اور موثر بات نظر آتی ہے اور ہر باشعور شخص اس اصول سے متفق نظر آتا ہے۔ مگر اس کی عملی تصویر اتنی دیدہ زیب نہیں جتنی بتائی یا دکھائی جاتی ہے۔ تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ایک مخصوص زاویہ سے واقعات اور حالات کو دیکھنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ میرے عرض کرنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ میں اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کے تصور کو بہتر نہیں سمجھتا۔ میری دانست میں معاشرے میں اس کے بغیر بد انتظامی اور انار کی آ جائے گی۔ مگر سوچیے، کہ ہمارا قانون کیا ہے، یہ کیسے بنا، یہ ہم تک کیسے پہنچا اور کیا یہ اپنے مقاصد میں جزوی طور پر بھی کامیاب ہوا کہ نہیں! اس وقت المیہ یہ ہے کہ ایک بھر پُور تاثر سچ کا روپ دھار چکا ہے کہ آج کے مروجہ قوانین ہمارے معاشرے کی نفسیات کے بالکل قریب ہیں اور ان پر عمل کرنے سے ہمارے معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ میں اس سے صرف جزوی اتفاق کرتا ہوں۔ ہمارے موجودہ نظام عدل کی عمر صرف ڈیڑھ سو برس ہے اور یہ انگریز نے ایک خاص نقطۂ نظر سے بنایا تھا۔ ہمارا اپنا مقامی نظام عدل شاندار روایات کا حامل تھا۔ آپ سلاطین دہلی سے لے کر مغلیہ دور تک آئیں تو آپ کو صورت حال بہت مختلف نظر آئے گی۔ آج ہم ان روایات کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ مزید بات کرنے سے پہلے میں یہ بھی عرض کرونگا کہ ہمیں بالکل معروضی طریقے سے اپنے موجودہ نظام انصاف کا جائزہ لینا چاہیے۔ دلیل کی طاقت سے اس نظام کی اچھائیاں اور برائیاں سمجھنی چاہیں۔ میں قانونی زبان استعمال کیے بغیر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو انصاف کے حصول کے لیے ہمارے نظام سے حقیقت میں واسطہ پڑ جائے تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے اور آپ شائد ایک زندگی میں انصاف حاصل نہیں کر پائینگے۔ ہمارے نظام عدل کے چار اہم حصے ہیں، پولیس، پروسی کیوشن(Prosecution)، جیل خانہ جات اور عدلیہ۔ لیکن بنیاد وہ قوانین ہیں جو کہ انگریز نے ایک غلام قوم پر جبری طور پر مسلط کیے تھے۔

میرے چند بیوروکریٹ دوستوں کو نوکری میں ایک ناانصافی اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام لوگوں نے مل کر لاہور کے ایک سنجیدہ اور اچھے وکیل کو اپنے لیے چُنا۔ پہلی ملاقات بہت اچھی تھی۔ ان وکیل صاحب سے ملاقات کے لیے بھی کافی تعلق اور واسطوں کا سہارا لیا گیا۔ وکیل صاحب نے بہت شفقت فرما کر اپنی فیس صرف پندرہ لاکھ طلب کی۔ وہ بھی مکمل ایڈوانس۔ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تھا۔ چنانچہ ہر پیشی کے تیس ہزار روپے الگ مقرر کیے گئے۔ فیس کی مکمل وصولی کے بعد وکیل صاحب کے رویہ میں کافی تبدیلی آ گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ جس جج صاحب کے پاس لگا، انھوں نے فرمایا کہ وہ بہت جلد اس کیس کا فیصلہ کر دینگے۔ پیشیوں پر پیشیاں پڑنی شروع ہو گئیں۔ محترم جج صاحب نے ایک دن تمام وکیلوں کو بحث کے لیے بلایا۔ مقدمہ سنا اور فیصلہ زبانی ارشاد فرما دیا۔ اس دوران چار سے پانچ ماہ گزر چکے تھے۔ جج صاحب زبانی فیصلہ سنانے کے بعد اسے قلمبند نہ کر سکے۔ اس اثناء میں ان کا کنٹریکٹ ختم ہو گیا اور انھوں نے دفتر آنا چھوڑ دیا۔ ان کے تمام مقدمات ایک اور جج صاحب کے پاس تبدیل کر دیے گئے۔ وہاں بھی دو چار مہینے گزر گئے۔ اتنی دیر میں تیسری بار تمام مقدمات کو تبدیل کر کے ایک اور جج صاحب کی عدالت میں بھجوا دیا گیا۔ ان کی اپنی (Seniority) کے مسائل کی وجہ سے انھوں نے بھی رخصت لے لی۔ چنانچہ تمام مقدمات پرانے جج صاحب کے پاس منتقل ہو گئے۔ اس اثناء میں وہ جج صاحب جنہوں نے تمام مقدمات کو پہلی بار سنا تھا، بحال ہو کر واپس آ گئے۔ تمام مقدمات پھر ان کی عدالت میں منتقل ہو گئے۔ اس اثناء میں پندرہ مہینے کا وقت گزر چکا تھا۔ وکیل صاحب ہر پیشی پر لاہور سے آنے پر رضا مند نہیں ہوتے تھے۔ اب انھوں نے اپنی فیس کو بڑھانے کا مطالبہ کر دیا۔ مزید یہ کہ ہر پیشی کے لیے تیس ہزار کے بجائے چالیس ہزار روپے دیے جائیں۔ اس اثناء میں موکلین میں سے ایک بلڈ پریشر کا مریض ہو گیا۔ ایک کو ذہنی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن ہو گئی اور ایک شوگر کا مریض بن گیا۔ ان کی یہ حالت وکلاء کے دفاتر، ججوں کی عدالتوں کے چکر، ریڈروں کے تاوان اور مسلسل عزت نفس کے مجروح ہونے سے براہ راست منسلک تھی۔ اب ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ تنگ آ کر ان لوگوں نے تصفیہ کر لیا اور درخواست دی کہ وہ اپنا مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں۔ وکیل صاحب نے یہ کام نہ ہونے دیا۔ تنگ آ کر انھوں نے خود ہی اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔ اس ڈیڑھ سال کی مدت سے وہ اور ان کے خاندان جس اذیت سے گزرے، وہ قصہ بالکل اور ہے۔ یاد رہے کہ یہ میں ان موثر لوگوں کے مقدمہ کا ذکر کر رہا ہوں، جو باحیثیت بھی تھے اور نظام میں اہم عہدوں پر تھے۔ آپ عام آدمی کا تو ذکر ہی نہ کریں۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، وہ آپ کے تصور سے بھی باہر ہے۔

ہمارے معاشرہ میں مکمل ناانصافی ہے۔ آپ دیوانی مقدمات کی طوالت کا اندازہ لگائیے۔ سول کورٹ سے سپریم کورٹ تک بیس سے تیس سال کا عرصہ تو کہیں نہیں گیا۔ آپ ریوینیو کے مقدمات دیکھ لیں۔ تحصیلدار سے ممبر بورڈ آف ریوینیو تک ایک سے دو دہائیاں بالکل عام سی بات ہے۔

اب آپ Criminal مقدمات کی طرف نظر دوڑائیے۔ قتل کے کیس میں پولیس جس طرح لوگوں کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس کی مثالیں روز ہمارے سامنے آتی ہیں۔ آپ یقین فرمائیے ابھی مقتول کی لاش کی تدفین بھی نہیں ہوتی تو پولیس کے اہلکار پیسے مانگنے شروع کر دیتے ہیں۔ مقدمات کو عدالت تک پہنچانے کی ذمے داری حکومت کی ہے۔ وہ اس میں کتنی کامیاب ہے، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ کسی پولیس افسر سے حلف دے کر پوچھے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہماری ہر F.I.R کے اندر ملمع سازی اور بے گناہ لوگوں کو پھنسانے کا رجحان بالکل عام ہے۔ قتل کے بعد قاتل کے بچوں تک کے نام بھی ملزمان میں لکھوا دیے جاتے ہیں۔ جھوٹے گواہ ہر جگہ دستیاب ہیں۔ آپ مناسب پیسے دے کر گواہان سے کوئی بھی بیان دلوا سکتے ہیں۔ مگر گواہی کی نوبت آنے سے پہلے ہمارے مجسٹریٹ اور دیگر کریمینل کورٹس کا پیچیدہ نظام ہے۔ آپ کے مقدمہ کی باری کب آتی ہے۔ کتنا عرصہ آپ عدالتوں میں بھکاریوں کی طرح چکر لگاتے رہینگے۔ کسی کو اس کا علم نہیں۔ عدالتوں کے اہلکار بھی وہ اہم لوگ ہیں جو آپ کے کیس کی پیشی کو آخر میں لگوا کر آپ کا مکمل دن بڑے آرام سے ضایع کر سکتے ہیں۔ یہ دو تین ماہ میں آپکی عزت نفس کا کچومر نکال دیتے ہیں۔ ملزم کو سزا ہونا یا نہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ آپ گواہان کو لانے اور دیگر خدمت کرنے میں اتنے مصروف ہو جائینگے کہ آپ کیس کو بھول جائیں گے۔ پھر ایک عدالت کے اوپر ایک اور عدالت پھر ہائی کورٹ، پھر سپریم کورٹ۔ یہ عدالتیں انسان کی زندگی کے قیمتی ترین سال اس طرح کھاتی ہیں جیسے آگ خشک لکڑی کو منٹوں میں راکھ کر دیتی ہے۔

اب آپ اپنے نظام عدل کے ایک اور ستون یعنی جیل خانہ جات کی جانب دیکھیں۔ آپ D.C یا جج کے طور پر جیل کے معائنہ پر جائیں، آپ کو ہر طرف بہترین صفائی نظر آئے گی۔ چونے کی لکیروں سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ ایک انتہائی نظم و ضبط والی جگہ پر آئے ہیں۔ آپ کو قیدیوں کے معاملات بھی درست نظر آئینگے۔ کھانا بنانے کے لیے کچن بھی صاف ملے گا۔ ملاقاتی یا تو نظر نہیں آئینگے یا پھر بڑے قرینے سے اپنے پیاروں کو مل رہے ہونگے۔ مگر اصل صورت حال بالکل مختلف ہے۔ جیل کی دنیا ایک الگ کائنات ہے جس میں خدا کے بعد جیل کا عملہ ہر کام کرنے پر قادر ہے۔ آپ ششدر رہ جائینگے یا شائد آپ کے بھی علم میں ہو گا کہ ہر جیل کے پھاٹک کی رشوت ہر مہینہ لاکھوں میں وصول کی جاتی ہے۔ میں ایک پڑھے لکھے باشعور نوجوان کو جانتا ہوں جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں تنازعہ کی وجہ سے تقریباً ایک سال لاہور کی ایک جیل میں رہا۔ اُس نے مجھے جو کچھ بتایا وہ اس قدر بھیانک ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ہمارے ملک میں سیاسی بونوں کے بلند بانگ دعوں کے باوجود کیا کچھ ہو رہا ہے! اُس شخص نے ایک سال میں جیل میں بنیادی سہولتوں کو حاصل کرنے کی خاطر دس سے بارہ لاکھ خرچ کیے۔ اُسکی بیوی کا زیور تک اس کی نذر ہو گیا اور اس کی گاڑی بھی بِک چکی ہے۔ ابھی مقدمہ شروع نہیں ہوا۔ میں نے بہت اختصار اور احتیاط سے معاملات کو قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کیوں ہے اور کیسے شروع ہوا، میں اس کا جواب آپ کو آیندہ کالم میں عرض کرونگا۔

(جاری)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں