آزادی کے 75 سال

یہ خوشی کا دن ہوتا ہے، ملک میں آزادی کا جشن منایا جاتا ہے، عمارتوں کو خوب صورتی سے سجایا جاتا ہے


Zahida Hina August 14, 2022
[email protected]

کراچی: دنیا کے بہت بڑے حصے پر صدیوں تک چند نوآبادیاتی طاقتوں کا قبضہ رہا۔ ان کی حکمرانی کے دوران ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے زیادہ تر ملکوں کے عوام نے غلامی کا ایک انتہائی کرب ناک دور گزارا۔ غلام اقوام پر وہ کون سے مظالم تھے جو روا نہ رکھے گئے۔

مقبوضہ ملکوں کا بھیانک استحصال کیا گیا اور ان کے خام مال اور قدرتی وسائل کو بیدردی سے لوٹ کر انھیں کنگال کر دیا گیا۔ نوآبادیاتی لوٹ مار اور استحصال کے موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتوں نے غلام ملکوں کے قیمتی وسائل کا کتنے بڑے پیمانے پر استحصال کیا۔ آج مغرب بالخصوص یورپ کے بعض ملکوں میں جو خوش حالی نظر آتی ہے اس میں مقبوضہ ملکوں سے لوٹی گئی دولت کا بہت بڑا حصہ ہے۔

محکوم اقوام نے نوآبادیاتی غلامی کا طوق اتارنے کے لیے قومی آزادی کی طویل جنگ لڑی جس میں لاکھوں انسانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ان کی آنیوالی نسلیں غلام نہ رہیں اور وہ ایک آزاد و خودمختار ملک میں باوقار زندگی گزاریں۔

ایک وقت تھا کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، کیونکہ دنیا کے ہر براعظم میں اس کی نو آبادیاں موجود تھیں۔ ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا وہ بھی برطانوی قبضے میں تھا۔ دنیا کے دیگر غلام ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی آزادی کی تحریک چلی جس میں آبادی کے ہر طبقے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دوسری جنگ عظیم نے بہت سے یورپی ملکوں کو معاشی طور پر تباہ کردیا تھا، برطانیہ بھی انھی ملکوں میں شامل تھا۔ جنگ عظیم کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کے فوجی افسروں کی تنخواہیں امریکا ادا کیا کرتا تھا۔

اس صورت حال نے برطانیہ کو عجلت میں ہندوستان کو آزاد کرکے رخصت ہونا پڑا۔ اسی جلد بازی کے باعث بعض ایسے مسائل بھی پیدا ہوگئے جو آگے چل کر جنگوں کا سبب بنے اور ان میں سے کئی معاملات اور تنازعات آج تک حل طلب ہیں۔ 1947 میں ہندوستان کو آزادی ملی اور اس کے ساتھ ہی تقسیم کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک ''پاکستان'' نمودار ہوا۔ آج 14 اگست ہے اور ہم پاکستان میں اپنی آزادی کی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ بول چال کی عام اصطلاح میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ آزادی کی گولڈن جوبلی ہے۔ یہ دن ہر سال آتا ہے اور روایتی سرگرمیوں کے بعد گزر جاتا ہے۔

یہ خوشی کا دن ہوتا ہے، ملک میں آزادی کا جشن منایا جاتا ہے، عمارتوں کو خوب صورتی سے سجایا جاتا ہے، حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیدار اور سیاست دان مبارک باد کے پیغامات جاری کرکے ملک کو خوب سے خوب تر بنانے کے عزم کا اعلان کرتے ہیں۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کردیں۔ اگلے دن سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ زندگی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے، اسی طرح ایک سال اور بیت جاتا ہے، سب کچھ وہی رہتا ہے، حالات نہیں بدلتے البتہ چند نئے مسائل ہمیں اپنے نرغے میں گھیر لیتے ہیں۔

1971 تک ہم اپنی آزادی کا جشن اس پاکستان کے لیے مناتے تھے جو 1947 میں تخلیق کیا گیا تھا۔ آج ہم جشن آزادی اس پاکستان میں مناتے ہیں جو نصف صدی پہلے دولخت ہوکر آدھا رہ گیا۔ اس وقت پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازو ہوا کرتے تھے جن کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ حائل تھا۔ آزادی کی 75 ویں سالگرہ مناتے وقت ہمیں یقینا اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار ضرور کرنا چاہیے کیوں کہ آزادی سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہوتی۔ لیکن خوشی کے موقعوں پر ہمیں جیسے وہ بزرگ اور دوست یاد آجاتے ہیں جو ہمارے ساتھ نہیں ہوتے اسی طرح آج کے دن ہمیں اس المیے کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جو اگر 1971 میں رونما نہ ہوتا تو ہم آج نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ براعظم ایشیا کی ایک بہت بڑی معاشی اور سیاسی طاقت ہوتے۔

آج پلٹ کر 75 سال پہلے کے پاکستان پر ایک نظر ضرور ڈال لیں اور اپنے نوجوانوں کو بتائیں کہ جو ملک ہم نے 1947 میں حاصل کیا تھا وہ کس قدر عظیم الشان تھا اور ہم نے اپنی غلطیوں کے باعث اسے کس طرح کھو دیا۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ملک ملا تھا لیکن ہم نے اس کا کیا فائدہ اٹھایا۔ ہمارے ساتھ بلکہ ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ملک جو اتنے زیادہ وسائل کے مالک نہیں تھے، وہ ہم سے کہیں آگے کیوں نکل گئے اور ترقی کی دوڑ میں ہم ان سے پیچھے کیوں رہ گئے؟ جب اس اہم موضوع پر گفتگو کی جائے تو اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ماضی کو بھلا کر آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔

یہ بات بالکل درست ہے، میں اسی میں ایک معمولی سی تبدیلی یہ کروں گی کہ انسان کو ماضی فراموش کرنے کے بجائے اس سے سبق سیکھ کر مستقبل کی جانب سفر کرنا چاہیے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت کا نوآزاد پاکستان بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا تھا تاہم آزادی کے بعد کا ہمارا پاکستان ایک نہیں کئی حوالوں سے بہت بہتر اور منفرد تھا۔ پاکستان زرعی طور پر ایک خودکفیل ملک تھا۔ جس میں دنیا کا بہت بڑا آب پاشی کا نظام موجود تھا۔ مغربی بازو کے پانچ بڑے دریا زمینوں کو سیراب کرتے تھے۔ ملک کا مشرقی بازو یعنی مشرقی پاکستان دریاؤں اور ندیوں کا ملک کہلاتا تھا۔ وہاں 700 چھوٹے بڑے دریا اور ندیاں تھیں اور دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا بھی وہیں موجود تھا۔

چائے کے باغات اور پیداوار کے حوالے سے مشرقی پاکستان دنیا کا سرفہرست ملک تھا، اسی طرح پٹ سن کی پیداوار اور صنعت کے لحاظ سے بھی دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آرٹ، لٹریچر اور فنون لطیفہ کا مرکز بھی مشرقی پاکستان تھا۔ آزادی کے بعد وہاں 700سینما گھر موجود تھے۔ خواندگی کی شرح بھی کہیں زیادہ تھی۔ بنگلہ شاعروں میں نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرل السلام جیسے شاعر پیدا ہوئے۔ بنگال کی سیاسی اور علمی دانش کی دنیا معترف تھی۔ یہ کہاوت عام تھی کہ بنگال جو آج سوچتا ہے ہندوستان وہ سو سال بعد سوچتا ہے۔

1947 میں پاکستان کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی۔ پاکستان کا مشرقی بازو یعنی مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے 5 گنا چھوٹا لیکن آبادی میں 56 فیصد تھا۔ اس پر غور کرنا ہوگا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملک کی اکثریت اقلیت سے علیحدگی اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہوئی اور اس کے عوامل کیا تھے اور کیا ایسا ہونا ناگزیر تھا؟

میرے خیال میں 75 سالہ تاریخ کے دوران دو ادوار ایسے آئے جن میں ہم نے ملک میں مضبوط جمہوری، سیاسی اور معاشی نظام قائم کرنے کے مواقع گنوا دیے۔ پہلا دور 1947 سے 1958کا تھا۔ سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا، اسی دوران سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ 1956 کا آئین بنا لیکن اس کے تحت انتخابات کرانے کے بجائے 1958 میں مارشل لا نافذ کردیا گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان کے عوام میں مایوسی بڑھتی چلی گئی اور بنگلہ دیش پر منتج ہوئی۔ دوسرا دور 1970 سے 1977 کا تھا۔

عام انتخابات کے بعد اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ کو منتقل نہیں کیا گیا اور 1971 میں پاکستان دولخت ہو گیا۔ پہلی منتخب پارلیمنٹ نے باقی ماندہ پاکستان کے لیے جو 1973 میں پہلا آئین بنایا لیکن آئین بنانے والی پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو برطرف کیا گیا اور وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

اسی طرح ہم نے دوسرا قیمتی موقعہ بھی گنوا دیا۔ ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد بحرانوں اور تضادات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ 75 سال کے دوران کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کرسکا۔ آزادی کا 75 واں جشن مناتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ آئین کی عمل داری، قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے بغیر ہمارا ملک کبھی بحران سے نہیں نکل سکے گا۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ پون صدی بعد مزید تجربات کرنے کے بجائے یہ راستہ اختیار کرلیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں