باون گزے ہی باون گزے
یہاں ہر گھر میں باون گزے زیادہ پیدا ہورہے ہیں لیکن صحیح پتہ نہیں لگا پائے
لاہور:
ہم دیکھ رہے ہیں کہ جناب کپتان خان ان دنوں پیش گوئیاں کرنے میں زیادہ مصرورف رہتے ہیں، یہ غالباً حضرت باباجی ڈیموں والی سرکار، کینیڈا والی سرکار اور دوسرے پیروں فقیروں کی ''صحبت صالح'' کا اثر ہے کہ پہلے تبدیلی لائے، پھر نیا پاکستان تعمیرکیا، پھر ریاست مدینہ لانچ کی اور اپنے سارے ہم نواؤں، ہم سفروں کو صادق و امین بنا دیا اور اب پیش گوئی کر رہے ہیں، ویسے تو وہ ہر روز کوئی نہ کوئی نئی پیش گوئی چھوڑ رہے ہیں لیکن ہمیں ابھی ایک حالیہ پیش گوئی اچھی طرح یاد ہے، '' پنجاب میں ضمنی صوبائی الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو وہ عوام کو ''کنٹرول'' نہیں کر سکیں گے''۔
وہ تو اچھا ہوا، پنجاب میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، البتہ کسی حد تک تو ہونے والی تھی لیکن پھر کچھ بزرگوں نے اپنی کرامت دکھاتے ہوئے معاملات درست کردیے ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا کیونکہ جناب کپتان صاف صاف کہہ چکے تھے کہ میں عوام کو کنٹرول نہیں کرسکوں گا، سوچئے اور کون اس ''سیلاب بلا '' کو روکتا۔
آئے ہے بے کسی عشق پر رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
خیر وہ خدا نے خیر کی اور صاحب کرامت بزرگوں نے حالات کو درست کر کے پنجاب میں صاف وشفاف، بااصول اور ایماندار حکومت قائم کر دی ہے لیکن اب ہمیں حضرت کپتان کی ایک اور پیش گوئی یاد آ رہی ہے۔ فرمایا تھاکہ پاکستان سری لنکا بن جائے گا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ سری لنکا میںآج کل ایسا کیا تھاجس سے کپتان صاحب نے خبردار کیا تھا لیکن اب سمجھ میں آگیا ہے کہ سری لنکا کی دوچیزیں مشہور ہیں، ایک گھر کے بھیدی اور دوسرے باون گزے۔ اگر دیکھا جائے تو کپتان صاحب کی یہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے، پاکستان میں جسے دیکھیے یا ناپئے وہ باون گزا ہی ہے بلکہ اب تو باون گز سے بھی بات آگے نکل چکی ہے، چوون گزے اور پچپن گزے بلکہ نامعلوم گزے بھی پیدا ہونے لگے ہیں، خود کپتان صاحب بھی باون گز سے بہت زیادہ ہیں۔
ایک فلمی لطیفہ یاد آ رہا ہے، ایک چینی فلم کے سین میں ایک بڑبولا شخص لوگوں کے درمیان کھڑا ہو کر چیلنج کر رہا ہے کہ ہے کوئی جو میرے سامنے آئے۔ پھر مجمع پر نظر ڈال کر وہ اپنے خیال میں ایک پستہ قد آدمی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اسے کہتا ہے، تم آؤ۔ لیکن وہ پستہ قد نہیں ہوتا ہے بلکہ بیٹھا ہوا شخص ہوتا ہے، جب وہ کھڑا ہو جاتا ہے تو سات فٹ کا پورا دیو ہوتا ہے، اس پر بڑبولا کھسیائے بغیر کہتا ہے، تم نے چیٹنگ کی ہے۔
پچھلے چند مہینوں سے پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، ہر طرف سے ایسے ایسے باون گز سامنے آرہے ہیں جو اب تک بیٹھے ہوئے تھے لیکن اب ''کھڑے'' ہو رہے ہیں، ہمارا اشارہ چوہدریوں کی طرف نہیں ہے، چوہدری اگر گجرات کے بھی ہوں تو وہ تو خاندانی باون گزے ہوتے ہیں لیکن عام حالات میں خود کو ''فولڈ'' کیے رہتے ہیں لیکن موقع آتا ہے تو اچانک کھل کر باون گز کے ہو جاتے ہیں۔ اب اس موقع پر کہانی میں ایک اور ٹوسٹ آجاتا ہے اور وہ ٹوسٹ ہے، افغانی دعا کا۔ بلکہ اس دعا کا جو اصل میں بددعا ہے، ہمیں پکا پکا یقین ہے کہ اگلے وقتوں میں کسی بدخواہ نے پاکستان کو یہ ''دعا نما'' دی ہوئی ہے۔ افغانستان اور کسی حد تک خیبر پختونخوا میں یہ بات مشہور ہے کہ کسی کو سخت ترین بددعا دینی ہو تو یہ کہا جائے کہ دکور مشران دے ڈیرشہ یعنی تمہارے گھر میں ''مشران'' زیادہ ہو جائیں۔ مشران انگریز سرکار کے وفادار بڑے یا بزرگ یا رہنما یا لیڈر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی گھر میں سارے ہی مشران یا باون گزے ہو جائیں تو پھر اس گھر کو ''دشمن'' کی ضروت نہیں رہتی۔
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسمان کیوں ہو
ایک ایسے خاندان میں بڑی منتوں، دعاؤں کے بعد ایک لڑکی کی ولادت ہوئی تو اس کا نام رکھنے کے معاملے میں سارے خاندان کے لوگ بڑے یا باون گزے بن گئے۔ باپ نے لڑکی کا نام ''محشو'' رکھ دیا لیکن ماں کی نظر میں تو تم نام اچھا تھا، دادانے ''بی بی سنبل'' نام رکھا اور دادی نے سالہ سالمہ، نانا نے ''بی بی نادانہ'' نانی نے ''شمس الہدیٰ'' اور ماموں نے ہاشمی۔
یوں اس کا نام بنا۔ محشو، تو تم سالہ سالم بی بی نادانہ شمس الہدی ہاشمی۔ویسے پاکستان بھی اپنے ماموں کے معاملے میں اچھا خاصا مالدار ہے لیکن بات ''باون گزوں'' کی ہو رہی ہے۔
ہمیں تو یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ اگر پاکستان میں باون گزوں یا مشران کی پیدائش کی رفتار یہی رہی تو ہم بچارے دوگزے کہاں جائینگے، ان باون گزوں کے پیروں تلے ہمارا کچلنا تو طے ہے بلکہ بڑی حد تک کچلے بھی جاچکے ہیں۔
ویسے ہم نے اپنی تمام تحقیقی صلاحیتوں اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ پتہ کرنے کی بہت کوشش کی کہ پاکستان کو یہ اعزاز کیسے ملا؟ کہ یہاں ہر گھر میں باون گزے زیادہ پیدا ہورہے ہیں لیکن صحیح پتہ نہیں لگا پائے لیکن ایک واقعہ جو ایک بے مثال بوڑھے نحیف ونزارشخص کی داستان ہے جو ٹی بی کے آخری اسٹیج میں مبتلا جب جاں کنی کی حالت میں تھا اور زیارت کے کنارے فٹ پاتھ پر اس کا اسٹریچر دھوپ میں پڑا رہا، صرف ایک بہن اس پر رورہی تھی لیکن حکومت کو ایمبولینس یا کوئی اور گاڑی دستیاب نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اس کی پارٹی کے ممتاز رہنما اس وقت ہندؤںکی متروکہ املاک، کارخانوں اور دکانوں پر قبضہ کرنے اورسرکاری زمینیں الاٹ کرانے میں مصروف تھے۔ شایداس وقت کے ممتاز رہنماؤں کی بے حسی اور لالچ کی وجہ سے آج پاکستان میں باون گزے ہی باون گزے پیداہورہے ہیں۔