کراچی تاریخ کے آئینے میں
میری کتاب کے پہلے ایڈیشن کے شایع ہونے کے بعد کراچی کی تاریخ پر کتابوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا
KABUL/
PESHAWAR:
گزشتہ 24 اور 31 جولائی کے روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحات پر محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ کے دو قسطوں میں چھپے کالم ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' نظروں سے گزرے۔ کالم کا عنوان خاکسار کی کراچی پر تحقیقی تاریخی کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' پر رکھا گیا تھا۔
ان کے کالم کا عنوان میری کتاب پر ہونے کا مطلب میں ضرور سمجھ گیا کہ چونکہ وہ میری کتاب کا بہت پہلے مطالعہ کرچکی ہوں گی جسے میں ان کی فرمائش پر کافی عرصہ قبل ان کی رہائش گاہ پر انھیں دے کر آیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ میری کتاب کے پہلے ایڈیشن کے 1996 میں شایع ہونے سے قبل صرف ''ملکۂ مشرق'' اور ''گوہر بحیرۂ عرب'' جیسی اردو میں کراچی پر کتابیں دستیاب تھیں جن تک رسائی مشکل نہ تھی مگر ان میں کراچی پر کوئی خاص مواد موجود نہیں تھا، میری کتاب کے پہلے ایڈیشن کے شایع ہونے کے بعد کراچی کی تاریخ پر کتابوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی کی قدیم تاریخ پر جو تحقیقی کام میری کتاب میں موجود ہے اس سے کسی نے اسے آگے بڑھانے کی زحمت نہیں کی بلکہ اسے ہی مختلف زاویوں اور الفاظ کی الٹ پھیر سے پیش کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئی کتابوں میں کراچی کی تاریخ پر مزید تحقیق کی جاتی جس سے کراچی کو صرف دو سو سال پرانی تاریخ کا حامل شہر سمجھا جانے کے بجائے اس کی مزید تاریخی قدامت کو اجاگر کیا جاتا تاکہ مغربی تاریخ دانوں کا یہ تاثر ختم کیا جاتا کہ کراچی کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ میں نے اس موضوع پر دس سال تحقیق کی۔ کراچی کی کوئی لائبریری ایسی نہیں جہاں میں نے کتابوں کو نہ کھنگالا ہو اور وہاں کے لائبریرین حضرات کو پریشان نہ کیا ہو۔ کمشنر کراچی کے آفس میں سندھ اور کراچی سے متعلق پرانے گزیٹرز کو ایک کمرے میں بند رکھا گیا ہے جہاں یہ ریکارڈ انتہائی خستہ حالت میں تھا اب تیس سال گزرنے کے بعد اس کا نہ جانے کیا حال ہوگا۔
میں نے ان گرد آلود گزیٹرز میں سے اپنی ضرورت کے گزیٹرز سے مواد نکالا تھا۔ پھر اس ریکارڈ تک رسائی کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے مجھے اس وقت کے کمشنر کراچی سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنا پڑا تھا۔
بہرحال اس وقت کراچی پر نئی کتابیں جوق در جوق شایع ہو رہی ہیں جس کی مجھے بہت خوشی ہے مگر کراچی آرٹس کونسل میں میری کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' کے دوسرے ایڈیشن کی تقریب اجرا کے موقع پر مشہور مصنفہ اور کالم نگار محترمہ رئیس فاطمہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ'' عثمان صاحب کو چاہیے کہ کراچی پر جتنی بھی کتابیں ان کی کتاب کے بعد شایع ہوئی ہیں ان کے مصنفین پر ''پائریسی'' کا مقدمہ دائر کریں کیونکہ ان کی کتابیں عثمان کی کتابوں کا چربہ ہیں۔''
تاہم اس سے بہت پہلے وہ روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے ایک کالم میں میری کتاب پر بھرپور تبصرہ کرچکی تھیں حالانکہ اس وقت تک نہ وہ مجھے جانتی تھیں اور نہ میں ان سے واقف تھا البتہ میں نے ان کے نامور ادیب شوہر اختر جونا گڑھی کا نام ضرور سن رکھا تھا۔ رئیس فاطمہ نے اپنے کالم میں لکھا تھا ''آج میں ایک ایسی کتاب کا تذکرہ کر رہی ہوں جو 1996 میں شایع ہوئی۔ اس کے مصنف عثمان دموہی ہیں۔ اس منفرد کتاب کا نام ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' ہے۔ اسے موضوع بنانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی شہر پر جس تحقیق اور لگن سے عثمان دموہی نے یہ کتاب لکھی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے اس کا حق ملے۔ یہ کتاب اب نایاب ہے۔ 1996 کے بعد یہ شہر ہر لحاظ سے بہت پھیل چکا ہے ویرانے آباد ہوگئے ہیں اور نئی نئی بستیاں وجود میں آچکی ہیں۔
اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بعد سے بہت سے لوگوں نے کراچی پر لکھا۔ کراچی کی تاریخ کے حوالے سے سیمینارز منعقد ہوئے۔ ہمارا کراچی نامی فیسٹیول منعقد ہوا۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے چھوٹی چھوٹی گائیڈ بکس بھی چھاپیں لیکن کسی نے بھی اس اہم کتاب کا حوالہ نہ دیا بلکہ بعض کتابیں اور گائیڈ بکس میں نے ایسی دیکھی ہیں جن میں اس کتاب کی ہو بہو نقل کی گئی ہے۔
بس اس کے تمام ابواب اور تفصیلات کو مختصر کردیا گیا ہے لیکن کہیں بھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ انھوں نے دراصل کس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔ حیرت ہے کہ عثمان دموہی نے بھی کسی کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کروائی نہ ہی کوئی اعتراض کیا کہ ان کی کتاب سے مواد جوں کا توں نقل کیا گیا ہے اور اس اہم کتاب کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ افسوس ان لوگوں پر ہے جو کسی کی بھی تصنیف کو اپنے نام سے شایع کروانے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ ایک وقت تھا جب اس سلسلے میں اخلاقیات کی پاسداری کی جاتی تھی تو لوگ کسی کی ایک سطر بھی نقل کرتے تھے تو اس کا حوالہ ضرور دیتے تھے لیکن اب ''پائریسی'' کا دور دورہ ہے۔ لوگ بڑی ڈھٹائی سے کسی کی بھی تصنیف میں معمولی سا رد و بدل کرکے اپنے نام سے چھپوا دیتے ہیں۔
تقسیم سے قبل ایک اردو لغت شایع ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ایک معروف اشاعتی ادارے نے اسے جوں کا توں شایع کردیا لیکن اصل مصنف سعید احمد دہلوی کا کہیں بھی حوالہ نہیں دیا گیا۔ ایسا ہی عثمان دموہی کی کتاب کے ساتھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ بس اسی لیے میں نے مناسب جانا کہ اصل کتاب اور اس کے اصل مصنف کو سامنے لایا جاسکے۔''
محترمہ رئیس فاطمہ کے شوہر اختر جوناگڑھی بھی میری کتاب کے بہت معتقد تھے۔ انھوں نے اپنی ایک تصنیف ''چہار باغ'' میں میری کتاب کا فخریہ انداز میں ذکر کیا تھا اور اسے ایک نادر اور مفید کتاب قرار دیا تھا۔ شہر کے تمام ہی پڑھے لکھے لوگ اس کتاب کے مداح ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کتاب کی مدد سے اب تک کئی لوگ کراچی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں ان کے مقالات میں اس کتاب کے بھرپور حوالے دیے گئے ہیں۔ اس کی مثال ڈاکٹر جاوید منظر، ڈاکٹر اوج کمال اور ڈاکٹر رشید جمال کے مقالات سے دی جاسکتی ہے۔
اس کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ اس کا انگریزی ورژن "Karachi in the Mirror of History" کے نام سے بھی شایع ہو چکا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں یہ کتاب کراچی پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک ریفرنس بک کے طور پر تفویض کی گئی ہے۔ اس کتاب پر مجھے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایوارڈ خود ان کے دست مبارک سے مل چکا ہے۔ آخر میں محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ سے درخواست ہے کہ وہ یہ ضرور اظہار کریں کہ انھوں نے ایک دوسری کتاب پر تبصرے کے لیے میری کتاب کا ٹائٹل کیوں استعمال کیا۔