دنیا پر امریکی تسلط کی قیمت
اپنے مفادات کے لیے کروڑوں انسانوں کو قتل کرنے پر امریکی ضمیر کبھی نہیں کانپا
www.facebook.com/shah Naqvi
اگرچہ امریکی صدر جوبائیڈن کو مشرق وسطیٰ کا دورہ کیے کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن اس دورے پر تبصرے جاری ہیں۔ چائینیز میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس دورے کے بعد ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ خطے سے امریکی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور بائیڈن کے مشرق وسطی سے خالی ہاتھ لوٹنے کی وجہ بھی یہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے مشرق وسطی کے ممالک کو متعدد مرتبہ چین اور روس سے لاحق خطرے کی بات بتانے کی وجہ سے پہلے ہی تنازع میں گھرے ہوئے خطے کے ممالک کو احساس ہوا ہے کہ انھیں امریکا سے پہلے سے زیادہ خطرہ در پیش ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا خود تیل کے بحران میں پھنسا ہوا ہے اور ایسے میں مشرق وسطی کے ممالک کو تیل کی پیداوار بڑھانے کے مطالبات سے امریکا کی خود غرضی اور منافقت سامنے آئی ہے۔ چائینیز تجزیہ کاروں کے مطابق بائیڈن کا مشرق وسطی کا دورہ نہ صرف بیکار رہا بلکہ امریکی صدر کو ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کیونکہ ان کی حکومت کے دو سب سے بڑے مقاصد پورے نہیں ہو پائے ان میں سے خطے میں ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنا اور سعودی عرب سے تیل کی پیداوار کو بڑھانا بھی شامل ہے۔
اس ضمن میں بیجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا کوئی کام پورا نہیں ہوا۔ شنگھائی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ امریکا تنازعہ کا شکار خطے میں مسائل حل کرنے کی نیت نہیں رکھتا بلکہ نفاق پھیلانے کا خواہاں ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا کو ایشیاء پیسفک ریجن کی طرح مشرق وسطی میں بھی چین کے خلاف اتحادی ڈھونڈنے میں بڑی مشکل کا سامنا رہے گا۔ کیونکہ مشرق وسطی میں چین کا کوئی ملک دشمن نہیں ہے۔ ہم نے سب کے ساتھ باہمی فائدے کی بنیاد پر تعلقات بنائے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ہم نے مشرق وسطی میں کسی ملک کو کبھی اپنی خواہشات کے مطابق کام کرنے کی ترغیب نہیں دی۔ نہ ان سے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔
کیا پالیسیاں اختیار کرنا چاہیں۔ ہم نے کبھی کسی پر پابندیاں بھی عائد نہیں کیں۔ دوسری طرف امریکی خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق سعودی عرب کو امریکا کا اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس نے امریکی امیدوں اور امریکی سوچ پر پانی پھیر دیا کہ خطے کے رہنماؤں کے اہم اجلاس میں علاقائی سیکیورٹی الائنس بشمول اسرائیل کی مدد سے ایرانی خطرات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
جس وقت امریکی صدر بائیڈن اپنے دورے کے دوران اور اس کے بعد چین اور روس کے خلاف بیانات دے رہے تھے اس وقت سعودی وزیر خارجہ نے سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکا اور چین میں سے کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے۔ مشرق وسطی میں صورتحال کس طرح بدل رہی ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ متحدہ عرب امارات کے سفارتی امور کے مشیر انور قرقاش نے امریکی میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور اقتصادی امور میں باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں اسی لیے ایران میں اپنا سفیر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایران کے خلاف کسی بھی اتحاد کی تشکیل کے حق میں نہیں ہیں۔ غور فرمائیں یہی موقف سعودی عرب کا بھی ہے۔
چین کا ہوا کس طرح امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سر پر سوار ہے۔ اس کا اندازہ آپ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے اس بیان سے لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے چین کو مغربی ممالک کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے۔ بلیئر نے تمام مغربی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا کی دوسری سپر پاور کے طور پر ابھرتے ہوئے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھا ہوں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مغربی سیاسی اور اقتصادی غلبے کا دور ختم ہو رہا ہے۔ ایسے میں مغربی ممالک کو چین کے خلاف طاقتور پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ بلیئر نے کہا کہ چین نے ٹیکنالوجی کے کئی شعبوں میں پہلے ہی امریکا پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین اس صدی کی سب سے بڑی جغرافیائی سیاسی تبدیلی کا باعث بنے گا۔
یوکرین جنگ کے بعد روس پر پابندیوں کے حوالے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ اب تک روسی تیل اور گیس پر پابندیوں کا روس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ برعکس مغربی ممالک کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغربی ممالک نے جو پابندیاں روس پر عائد کی تھیں وہ الٹا یورپی ممالک میں مہنگائی ، کسادبازاری اور توانائی کی بگڑتی ہوئی عالمی صورت حال کی وجہ سے نرم ہونے لگ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ پابندیوں کے سرخیل امریکا نے خبردار کیا ہے کہ روس سے تیل برآمد کرنے والے جہازوں کی انشورنس کرنے پر فوری پابندی سے عالمی سطح پر لاکھوں ٹن تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی رک جائے گی۔ جس سے تیل کی قیمتوں میں زبردست خوفناک اضافہ 400 ڈالر فی بیرل تک ہو جائے گا۔
عالمی تاریخ امریکی فتنہ گری سے بھری ہوئی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے کروڑوں انسانوں کو قتل کرنے پر امریکی ضمیر کبھی نہیں کانپا۔ اب روس کو تباہ کرنا ہو یا چین کا بھارت تائیوان کے ذریعے گھیراؤ کرنا ۔ آپ غور فرمائیں تو آپ پر واضح ہو گا کہ عالمی امن کے لیے خطرہ کوئی اور نہیں صرف اور صرف امریکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا دنیا میں اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے 72 ملکوں میں حکومتیں گرا چکا ہے۔ اس طرح سے دنیا میں بھوک ، غربت، بیماری، بے روزگاری اور بد حالی کا ذمے دار امریکا ہے۔ یہ قیمت ہے دنیا پر امریکی قبضے کی۔