نااہلی کی تلوار ایک بار پھر نیام سے باہر
وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ بھی دے چکے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لے رہے ہیں
کراچی:
2017 میں جب میاں نوازشریف کو اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے نا اہل قرار دیا گیا تو وہ اس وقت قومی سطح پر سب سے مقبول سیاسی پارٹی کے سربراہ تھے اور پارلیمنٹ میں بھی دو تہائی اکثریت رکھنے کے حامل تھے مگرانھیں سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی غرض سے جو فیصلہ ہوا ، اس کے اثرات کئی برسوں تک ہمارے سیاسی افق پر ظاہر ہوتے رہیں گے۔
میاں نوازشریف کے خلاف پاناما کیس کو بنیاد بنا کے جس طر ح اُن دنوں کیس پرکیس بنائے جا رہے تھے یہ بات واضحہوچکی تھی کہ وہ اب بچنے والے نہیں ہیں۔ حالانکہ اُن دنوں جتنے ملکی اور غیر ملکیسر وے کیے گئے ، اس سب کے مطابق مسلم لیگ نون سارے ملک میں سب سے مقبول عوامی پارٹی بن چکی تھی۔
اس کیکارکردگی کی بدولت یہ سمجھا جا رہا تھا کہاگراُسے زبردستی کسی وجہ سے روکا نہیںگیا تو وہ اگلا الیکشن باآسانی دوتہائی اکثریت سے ایک بار پھر جیت جائی گی ، حالانکہ اِن ساڑھے تین سالہ دور میں کئی رکاوٹیں بھی درپیش ہوئیں ، وہ 2013 میں جب برسر اقتدار آئی تو ملک بھر میں دہشت گردی کا راج تھا ، ہر ہفتے کوئی نہ کوئی بم دھماکا اور خود کش حملہ ہو رہا تھا ، کراچی میں بدامنی کا دور دورہ تھا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عوام سخت برہم اور بیزار تھے، مگر میاں نوازشریف نے ایک ایک کرکے تمام مشکلات سے اس ملک کے عوام کی جان چھڑائی۔
برسر اقتدار آئے انھیں ابھی ایک سال بھی نہیں گذرا تھا کہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ملکر اسلام آباد کے ڈی چوک پر تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دے ڈالا۔ خدا کی مہربانی سے وہ اس دھرنے کے مہلک اثرات سے بھی بچ نکلے ، لیکن اُن کے خلاف سازشیں جاری رہیں، پھر 2016ء میں پاناما کیس کے سامنے آتے ہی وہ ایک بار پھر سرگرم ہوگئے اور بالآخر انھیں تا حیات نا اہل کروا کے دم لیا۔ کسی بھی مقبول عام پارٹی کے سربراہ کو یوں نا اہل کروا کے اس کو حاصل عوامی مقبولیت کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب 2018 میں الیکشن کے نتائج سامنے آرہے تھے تو مسلم لیگ نون سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کے طور پر دکھائی دینے لگی تو اچانک RTS سسٹم بٹھا دیا گیا اور نتائج توقع کے برعکس آئے۔
سیاسی طور پر کسی مقبول لیڈرکو نا اہل کروانا، کسی طرح بھی درست اور صائب عمل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کو لے کر آج ایک بار پھر عدلیہ کو کچھ ایسے ہی مقدمات کا سامنا ہونے جا رہا ہے اور عمران خان کو بھی نا اہل ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔عدلیہ کو ایک بہت بڑی مشکل کا سامنے ہونے والا ہے ، وہ خان صاحب کو بھی میاں نوازشریف کی طرح اگر نا اہل قرار دیتی ہے تو بھی اُسے اپنے خلاف زبردست تنقید کا ڈر ہے اور اگر ایسا نہیں کرتی ہیتو بھی اپنے پرانے فیصلوںپر تنقید کا خدشہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح معاملات سے نپٹتی ہے۔
میاں نوازشریف نے تو اپنے خلاف ہونے والی تمام زیادتیوں کو صبر اور خاموشی سے برداشت کرلیا، لیکن کیا خان صاحب بھی ایسا کریں گے۔ وہ مفاہمت سے زیادہ مزاحمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام بھی اپنے پسندیدہ لیڈرکی مزاحمتی پالیسی کے قدر داں ہوتے ہیں۔ انھیں نڈر اور بہادر لیڈر پسند ہوتا ہے جو اپنے خلاف تمام قوتوں سے لڑ جانے اور ڈٹ جانے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے خان صاحب دلیرانہ اور جارحانہ بیانات دیتے ہیں عوام میں اُن کی مقبولیت مزید بڑھتی جاتی ہے۔
میاں صاحب کے بقول انھوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا جب کہ خان صاحب ایسا ہرگز نہیں کہتے ہیں۔ وہ ہاتھ کے ہاتھ اپنا حساب کتاب برابر کرنا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں بہت سے سیاست دان اپنے خلاف ہونے والے غلط فیصلوں کو خاموشی سے برداشت کرتے ہوئے سولی پر بھی لٹک گئے۔ کہنے کو وہ آج بھی زندہ ہیں لیکن یہ نعرے ان کی زندگی کے قیمتی سال واپس نہیں کرسکی۔ خان صاحب یہ غلطی دہرانا نہیں چاہتے ہیں ، وہ بھرپور انداز سے مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔
وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ بھی دے چکے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لے رہے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ نو کی نو نشستوں سے خود اکیلے ہی کاغذات نامزدگی داخل کررہے ہیں۔ حالانکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ اس پارلیمنٹ میں واپس ہرگز نہیں جائیں گیاور یہ بھی پتا ہے کہ نو نشستوں پر جیت کر بھی وہ صرف ایک نشست اپنے لیے رکھ پائیں گے۔ باقی نشستوں پر پھرنئے انتخابات کروانے پڑیں گے۔ اس طرح بیک وقت وہ حکومت سے بھی اور دیگر قوتوں سے بھی جارحانہ اننگزکھیل رہے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ملک مزید سیاسی انتشار اور خلفشار کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ خان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہے تو بازی ہار جائیں گے۔ اسی لیے وہ لڑکر اپنی بازی کھیلنا چاہتے ہیں۔ انھیں اپنی اس سیاسی چال کا بہت فائدہ بھی ہوا ہے۔ اپنے اس رویے سے وہ ایک طرف عوام کی حمایت اور پذیرائی سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو دوسری طرف اپنی مخالف قوتوں کو بھی اپنے خلاف کسی نامناسب بڑے فیصلے سے روکے ہوئے ہیں۔ اُن کی یہ پالیسی ابھی تک بڑی کارگر ثابت ہوئی ہے۔
رہ گیا سوال کہ کیا عمران خان بھی میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کی طرح سیاسی طور پر نا اہل قرار دیے جاسکتے ہیں یا نہیں۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگرتاریخ بڑی ظالم اور بے رحم ہوا کرتی ہے ، وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی۔ ہماری عدلیہ نے اب تک جتنے بھی متنازع سیاسی فیصلے کیے تاریخ نے انھیں بھلایا نہیں۔ عدلیہ کو اپنے ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی معاملات کے فیصلوں میں اگر بر وقت تصحیح کردی جائے تو ہم سب کے لیے یہی بہتر ہے۔