آئیے کینیڈا چلتے ہیں
پی آئی اے کے ہاتھوں لگائے گئے پودے اتنے تناور ہو گئے کہ وہ پی آئی اے کے کاروبار کو ہی کھا گئے
پاکستان سے کسی بھی غیر ملک کا سفر ہو تو سب سے پہلے دماغ میں قومی ایئر لائن کا تصور ابھرتا ہے جو کسی زمانے میں دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے اپنی فضائی خدمات فراہم کرتی تھی لیکن حوادث زمانہ کے ساتھ یہ خدمات محدود ہوتی گئیں اور پی آئی اے کے کاروبار پر خلیجی ممالک کی فضائی کمپنیوں نے قبضہ جما لیا۔
پی آئی اے کے ہاتھوں لگائے گئے پودے اتنے تناور ہو گئے کہ وہ پی آئی اے کے کاروبار کو ہی کھا گئے، یہ کس طرح ہواایک طویل داستان ہے جسکی ان کالموں میں گنجائش نہیں ہے البتہ گزشتہ چند برس سے پی آئی اے میں نظم و ضبط کو بہتر کیا گیا ہے ،آج کل خواجہ سعد رفیق ایوی ایشن کے مدارلمہام ہیں جن کی شہرت ایک اچھے منتظم کی ہے۔
ایوی ایشن گو کہ ان کے لیے نیا شعبہ ہے لیکن خدمات کی فراہمی کے جس معیارکاماضی میںریلوے میں شہرہ تھا وہ اس سے بہتر معیار فضا ؤںمیں بھی قائم کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیںتا کہ پاکستان کی پرچم بردار فضائی کمپنی کی خدمات عالمی معیار کے مطابق ہوں ،پی آئی اے کے مسافروں کو آرام دہ نشستوں، دوران پروازمعیاری کھانوں اور جدید طیاروں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
لاہور سے کینیڈا جانے کا پروگرام تو چند برس پہلے ہی ویزہ کے حصول کے وقت فائنل کر لیا گیا تھا لیکن درمیان میں کورونا ٹپک پڑا جس نے سارے پروگرا م کو چوپٹ کردیا، کینیڈین حکومت نے پاکستان سے سیاحتی ویزوں پر سفری پابندی لگا دی جس کا گزشتہ برس نومبر میں خاتمہ کیا گیا لیکن سردیوں کے موسم میں کینیڈاکا نام سنتے ہی تصور میں شدید سردی اور برف ہی برف نظر آتی ہے ۔
بچوں کے ساتھ یہ طے پایا کہ گرمیوں کے موسم میں کینیڈا کی سیرو سیاحت کی جائے گی۔ پی آئی اے کے طیارے نے رات کے تین بجے لاہور سے ٹورنٹو کے لیے اڑان بھری ۔ لاہور سے ٹورنٹو کی براہ راست پرواز کا دورانیہ کم وبیش چودہ گھنٹے پر مشتمل ہے۔
مسافروں کی خدمات اور کھانوں کے معیار میں واضح بہتری دیکھنے میں آئی ہے البتہ دوران پرواز تفریح طبع کی سہولیات کی کمی کا عملے سے ذکرہوا تو معلوم ہوا کہ بہت جلد پی آئی اے کے تمام طیاروں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اور ان کے لیے فنڈز کی فراہمی کی منظوری وزیر ہوابازی دے چکے ہیں۔ لاہور سے ٹورنٹو کی طویل دورانیے کی پرواز کا میرا پہلا تجربہ تھا ، ہر سفر کا ایک اختتام ضرور ہے چاہے وہ کوئی سیاحتی سفر ہو یا عملی زندگی میں درپیش کو ئی چیلنج ہو اللہ تعالی کی رضا سے ہر سفر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے اور ہوتا وہی ہے جو آپ کے نصیب اور مقدر میں لکھ دیا گیا ہے بہر حال پی آئی اے کی پر لطف میزبانی میں یہ سفر بھی تمام ہو گیا اور ہم ٹورنٹو کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔
جہاں پر امیگریشن آفیسر نے چند رٹے رٹائے سوالات دہرائے اور ہمیں کینیڈا داخلے کی اجازت مرحمت فرما دی، اتفاق سے اس دن میری اہلیہ کی سالگرہ تھی، کنیڈین امیگریشن آفیسر نے ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے بچوں کی ماں کو ہیپی برتھ ڈے بھی کہا جو ہمارے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔ پاکستان سے روانگی سے قبل ایک دوست سے ملاقات ہوئی توبتانے لگے کہ وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے جارہے ہیں، میں نے بتایا کہ میں انھی دنوںمیں کینیڈا میں ہوں گا تومجھے بے ساختہ اکبر الہ آبادی کا وہ شعر یاد آگیا جو انھوں نے سرسید احمد خان کی انگلستان یو نیورسٹیاں دیکھنے جانے کے موقع پر کہا تھا اور اتفاق سے اسی وقت ان کے دوست مولوی ا مدادعلی حج کے لیے جا رہے تھے، اسی موقع کی مناسبت سے اکبر نے یہ مشہور شعر کہا:
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
بہر حال ہم خدا کی شان دیکھنے کینیڈا پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان اور کینیڈا کے درمیان نو گھنٹوں کے وقت کا واضح فرق ہے جسکی وجہ سے پاکستان سے رات گئے روانہ ہونے کے باوجود صبح آٹھ بجے ہمارے طیارے نے ٹورنٹو لینڈ کر لیا،ٹورنٹوایئر پورٹ پر میرے کزن سجاد عباس ہماری بہن سائرہ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ ٹورنٹو میں درجہ حرارت انتہائی معتدل اور بہار کا سماں ہے، چہار سو سبزے کی بہار کے ساتھ رنگ برنگے ملبوسات میں سیاحوں کی ٹولیاں یہاں اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہیں۔آپ کینیڈا آئیں اور نیاگرا فال نہ جائیں یہ ممکن نہیں ۔ گھر پہنچتے ہی ہمارے میزبانوں نے کہا کہ تیار ہو جائیں، ہم نیا گرا فال جا رہے ہیں۔
اور اگلے دو گھنٹوں میں ہم میزبان کے ساتھ دنیا کی خوبصورت ترین آبشار کا نظارہ کر رہے تھے۔ دنیا کے طول وعرض میں خدا کی قدرت کے شاہکار بکھرے پڑے ہیں اور نیاگرا آبشار بھی ان میں سے ایک ہے جس کی خوبصورتی کو لفظوںمیں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
پاکستان کے حالات حاضرہ کے متعلق سوالات کی بوچھاڑ ایک معمول کی بات ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمیشہ اپنے وطن کے حالات سے پریشان رہتے ہیں اور کچھ اچھا سننے کی امید اور خواہش رکھتے ہیں لیکن آج سے کئی برس قبل جب سوشل میڈیا کی عفریت کا وجود ناپید تھا تب تک تو پاکستان سے پہنچنے والے باخبر لوگ بیرون ملک مقیم ہم وطنوں کو تسلی کے چند لفظ سنا دیا کرتے تھے لیکن اب شاید بیرون ملک مقیم ہمارے بھائی اپنے ہم وطنوں سے زیادہ باخبر رہتے ہیں، ان کو لفظوں سے تسلی دینا اب ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردارادا کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانی کیا سوچتے ہیں اور وہ اپنی حکومتوں سے کیا چاہتے ہیں اس کی تفصیلات اگلے کالم میں عرض کروں گا۔ (جاری ہے)