شہباز شریف اورعمران خان کی تقاریر کا موازنہ
شہباز شریف کی تقریر بتا رہی ہے کہ انھوں نے اپنی کار کردگی پر فوکس کیا ہوا ہے
KURIANWALA:
13اگست کی رات وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور عمران خان نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ شہباز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم میڈیا پر قوم سے خطاب کیا ہے۔ جب کہ عمران خان نے حسب معمول لاہور ہاکی اسٹیڈیم میں جلسہ عام سے خطاب کیا ہے۔ میرے لیے یہ اہم نہیں دونوں نے کہاں خطاب کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں نے کیا کہا ہے۔ دونوں کی تقاریر میں کی گئی بات اہم ہے،مقام اہم نہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی قیادت بشمول عمران خان سب کو میثاق معیشت کی دعوت دی ہے۔ ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے انھوں نے اس سنگین تناؤ کے سیاسی ماحول میں بھی میثاق معیشت کی دعوت دی ہے۔
شہباز شریف کے ناقدین کی رائے میںشہباز شریف کو اپنی تقریر میں عمران خان نے مبینہ طور پر امریکا میں جو لابی فرم ہائیر کی ہے۔ اس کا معاہدہ لہرانا چاہیے تھا۔ پوچھنا چاہیے تھا کہ یہ ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ کیسے عمران خان ایک طرف ملک میں امریکا سے غلامی ختم کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں اور دوسری طرف دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے امریکی کی ایک لابی فرم کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔
شہباز شریف کے ناقدین کی بات اپنی جگہ لیکن شہباز شریف نے یوم آزادی سے ایک رات قبل بحیثیت وزیر اعظم ٹھیک تقریر کی ہے۔ انھوں نے ملک کو آگے چلانے کا راستہ دیا ہے۔ انھوں نے 2018میں جب عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا تب بھی بحیثیت قائد حزب اختلاف پہلی تقریر میں میثاق معیشت کی دعوت ہی دی تھی جو عمران خان کی حکومت نے حقارت سے دھتکار دی تھی۔ لیکن بعد میں اپنی غلطی پر نادم رہے۔ نجی محفلوں میں کہتے رہے کہ بڑی غلطی ہو گئی ہمیں میثاق معیشت کرلینا چاہیے۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ملک کی تمام سیاسی اکائیوں کو ملکر ایک روڈ میپ پر متفق ہونا ہوگا۔
دوسری طرف عمران خان کی تقریر کا جائزہ لیں تو اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انھوں نے تقریر میں بار بار کہا کہ وہ حقیقی آزادی حاصل کرنے کا طریقہ بتائیں گے لیکن کچھ بتایا نہیں۔ وہ اپنی تقریر میں بار بار یہ وضاحت دیتے نظر آئے کہ وہ امریکا مخالف نہیں ہیں۔ وہ یہ وضاحت بھی دیتے نظر آئے کہ وہ فوج مخالف نہیں ہیں۔
تقریر میں نیوٹرلز کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ شہباز گل کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ بلکہ فوج اور اسٹبلشمنٹ سے دوستی کی بات تھی۔ اسلام آباد مارچ کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ حکومت گرانے اور جلد الیکشن حاصل کرنے کا کوئی روڈ میپ نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان سیاسی طور پر خود کو بند گلی میں محسوس کر رہے ہیں۔ شاید جو وہ کہنا چاہتے ہیں وہ کہہ نہیں پا رہے اور جو نہیں کہنا چاہتے وہ کہنے کے لیے دباؤ ہے۔
دوستوں کو شہباز شریف کی تقریر میں مصالحہ کی کمی نظر آئی ہے۔ تنقید یہ بھی ہو رہی ہے کہ وہ دھیمے لہجے میں کیوں بات کرتے ہیں۔ انھیں سلطان راہی کے لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ شاید لوگ مد مقابل کو دیکھ کر یہ بات کر رہے ہیں۔ دوستوں کی رائے میں جیسا مخالف کرے ویسا ہی کرنا چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔
شہباز شریف ایک مشکل راستے پر ضرور چل رہے ہیں۔ لیکن اصل کامیابی اسی راستے میں ہے۔ پاکستان کو دھیمے لہجے کی ضرورت ہے۔ ورنہ پیٹ پھاڑنے والی تقاریر اور حبیب جالب کی خون گرمانے والی نظموں کی تقاریر شہباز شریف کو بھی آتی ہیں۔ وہ ماضی میں کرتے بھی رہے ہیں۔ لیکن ابھی انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ گالی کا جواب گالی سے دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ کسی کو تو ملک میں عقل اور سمجھداری کی بات کرنی ہے۔
ورنہ کل جب مورخ تاریخ لکھے گا تو کہے گا ایک بھی لیڈر ایسا نہیں تھا جو ذاتی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی بات کرتا۔ ملک بھنور میں تھا اور سب ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے شہباز شریف نے ٹھیک کیا ہے۔
ویسے تو عمران خان کے پاس بھی اب گالیاں ختم ہو گئی ہیں۔ امریکا کو نکالنی نہیں۔ نیوٹرلز کو نکالنی نہیں۔ سیاسی مخالفین کو اتنی نکال چکے ہیں کہ اب مزید نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اب کیا کہیں۔ اب تو بات بدلنی ہے۔ یوٹرن لینا ہے۔ جس کی وہ کوشش میں نظر آئے ہیں۔ لیکن اس بار عمران خان کا یوٹرن کا راستہ بھی آسان نہیں ہوگا۔ اس بار ان کے یوٹرن پر کئی سیاسی پہرے موجود ہیں۔
شہباز شریف کی تقریر بتا رہی ہے کہ انھوں نے اپنی کار کردگی پر فوکس کیا ہوا ہے۔ وہ سیاسی بیانیہ بنانے کے بجائے کام پر توجہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا ہے۔ معاشی استحکام اگر آیا نہیں تو روپے کی قدر میں بہتری آنے سے نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ دنیا سے تعلقات واپس بہتر کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے اگر شہباز شریف ایک سال میں ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے تو سیاسی بیانیہ خود بخود بن جائے گا۔ لوگ ان کی طرف امید سے دیکھنے لگ جائیں گے۔ اور یہی امید کی کرن مسلم لیگ کو چاہیے۔ وہ اگلا الیکشن روشن مستقبل کی امید پر ہی لڑ سکتے ہیں۔