موت العالِم موت العالَم
امارت اسلامی افغانستان میں بچیوں کی تعلیم کی حمایت اور اجازت میں مولانا رحیم اللہ حقانی نے اہم کردار ادا کیا
امن کی جانب تیزی سے بڑھتا ہوا افغانستان دشمن کی آنکھ میں شہتیر بن کر کھٹک رہا ہے، یہی وجہ ہے دشمن افغانستان کو امن سے دور کرنے کے لیے ہر کوشش اور گھناؤنی حرکتیں اور سازش کررہا ہے۔ افغان سرزمین پر مسلسل دہشت گردانہ حملے، ڈرون اٹیک اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، جو ناصرف قطر معاہدے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ قیام امن کی کاوشوں کے لیے شدید خطرہ بھی ہیں۔
چند روز قبل امارت اسلامیہ افغانستان کے نامور جید عالم دین، مجلس شوریٰ کے رکن شیخ القرآن و التفسیر الشیخ رحیم اللہ حقانی مظہری پر خود کش حملہ کیا گیا، شیخ رحیم اللہ حقانی پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ معروف افغان عالم دین شیخ تقبلہ اللہ کے ہاں آئے ہوئے تھے۔ شیخ ہجرے میں بیٹھے تھے کہ ایک ٹانگ سے معذور شخص آیا اور اس نے شیخ رحیم اللہ حقانی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، سیکیورٹی پر مامور نوجوانوں نے اس شخص کو روکا اور اندر جانے کی اجازت نہ دی لیکن وہ معذور شخص مسلسل اصرار کرتا رہا اور اپنی معذوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکیورٹی پر مامور نوجوانوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اب ان نوجوانوں کو کیا خبر تھی کہ یہ معذور شخص جس عقیدت و محبت کا اظہار کررہا ہے حقیقت میں یہ اس کا منافقانہ رویہ تھا، وہ شیخ رحیم اللہ حقانی سے ملنے نہیں آیا تھا بلکہ ان پر خود کش حملے کی نیت سے آیا تھا۔ اس نے اپنی نقلی ٹانگ میں بارودی مواد چھپا رکھا تھا۔ جونہی وہ معذور شخص شیخ رحیم اللہ حقانی کے پاس پہنچا تو اس نے خودکش حملہ کردیا۔
حملے کے وقت شیخ رحیم اللہ حقانی مظہری کا معصوم بیٹا عثمان ان کی ران پر سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا اس حملے میں شیخ اپنے کمسن ننھے اور معصوم بیٹے عثمان، بھائی نقیب اللہ اور قریبی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ خود کش حملہ آور کے جسم کے پرخچے اڑ گئے، اس کا بچا کْھچا لاشہ جائے وقوعہ پر پڑا تھا۔ وہاں موجود طلباء اس حملے میں اس قدر جذباتی ہوگئے کہ اس دہشت گرد کے لاشے کو ٹھڈے مارتے رہے حالانکہ یہ عمل اسلامی تعلیمات کے برعکس تھا لیکن اپنے مرشد کی شہادت کو دیکھ کر وہ جذبات کی رو میں بہہ گئے۔
شیخ رحیم اللہ حقانی متقی، پرہیز گار، نیک، صالح اور با عمل عالم دین تھے، ان کی زندگی اتباع رسول میں گزری، اور کیوں نہ گزرتی جس شخص کی تعلیم و تربیت ولی کامل حضرت مولانا حمد للہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ، ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمہ اللہ، دیر باباجی اور مغفور اللہ باباجی جیسی ہستیوں کی صحبت میں ہوئی ہو تو وہ اتباع سنت سے کیسے ہٹ سکتا تھا۔ مجھے شیخ رحیم اللہ حقانی مظہری سے اپنی ملاقات کے بارے میں اپنے بھتیجے محمد بلال لطف اللہ نے بتایا میں ان کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
''ایک بار لیاقت آف باڑہ جو حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کے بہت بڑے معتقد تھے، ان کی کال آئی کہ میں آپ سے ملنے آرہا ہوں اور میرے ساتھ حضرت شیخ رحیم اللہ بھی ہیں، کھانا حضرت اقدس رحمہ اللہ کے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے اپنی روایت کے مطابق آنے والے مہمانوں کے کھانے کا بندوبست کر لیا۔
شیخ رحیم اللہ حقانی اپنے مربی و مرشد حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کے پاس آئے اور آتے ہی اپنے شیخ کی دست بوسی کی، پھر فرمانے لگے حضرت 1997 , 1996 میں آپ سے دورہ تفسیر پڑھا ہے اور آپ کے نہج و انداز پر چلتے ہوئے باقاعدہ رمضان شریف میں دورہ تفسیر پڑھاتا ہوں۔ جس میں ایک ہزار تک طلباء شریک ہوتے ہیں۔ حضرت ڈاگئی بابا جی رحمہ اللہ اپنے اس شاگرد کی باتیں سنتے رہے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھرتی رہیں۔
اس وقت حضرت ڈاگئی بابا جی رحمہ اللہ کی خوشی دیدنی تھی۔ پھر حضرت شیخ رحیم اللہ حقانی فرمانے لگے کہ طلباء کو تفسیر کی وہی سند عنایت کرتا ہوں جو آپ سے ملی ہے اور درس میں آپ کا تذکرہ بہت ہوتا ہے۔ انھوں نے اس ملاقات میں حضرت ڈاگئی بابا جی رحمہ اللہ سے پوچھا حضرت آپ کی تفسیر کا کیا بنا۔ حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کچھ پاروں کی تصحیح رہتی ہے۔
حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ سے پھر فرمانے لگے حضرت بس وہی پڑھاتا ہوں جو یہاں آپ سے پڑھا آپ سے جو فیض پایا ہے اب اپنے طلباء میں وہی بانٹ رہا ہوں۔ اس کے بعد شیخ رحیم اللہ حقانی مظہری سے میری ملاقات پیر سباق شریف میں ہوئی، اس وقت بھی حضرت داجی رحمہ اللہ حیات تھے۔
انھوں نے اپنے مرشد حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کی خیریت دریافت کی۔ میں نے عرض کیا حضرت میرے لیے خصوصی دعا کیا کریں، حضرت نے فرمایا کہ دعا تو آپ کریں گے۔ آپ مستجاب الدعوات ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ صاحب کے خانوادے سے ہیں۔ پھر فرمایا آپ کے باباجان مستجاب الدعوات شخصیت ہیں۔ مجھ پر جب کبھی کوئی مشکل آئی ہے حضرت کی دعا سے اللہ نے بہت آسانی فرمائی ہے۔'' بیشک شیخ رحیم اللہ حقانی کا ایک ایک لفظ اپنی حرمت کی سچائی بیان کررہا تھا، اللہ والوں کی صحبت ہی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی اوپر سے ان کی دعائیں مل جائیں تو یہ سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ظالموں نے کیسا ہیرا ہم سے چھین لیا۔ مولانا رحیم اللہ حقانی مظہری کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار کے ضلع پچیر وآگام سے تھا جو پاکستان کی سرحد کے قریب ہے تاہم وہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع پشاور میں مقیم رہے۔ یہیں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔
جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، دارالعلوم مظہر العلوم ڈاگئی صوابی جیسے عظیم مدارس ان کی مادر علمی رہے، علم و فضل کے بڑے بڑے پہاڑوں جیسے علماء اور شیوخ سے فیض حاصل کیا۔ حصول علم کے بعد مولانا رحیم اللہ حقانی مظہری پشاور کی دیر کالونی میں واقع جامعہ زبیریہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے، یہ وہی درس گاہ ہے جس پر دسمبر 2020میں ٹائم بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں آٹھ طالب علم شہید ہوگئے تھے، سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کے وقت جامعہ میں درس قرآن کی کلاس جاری تھی۔ دھماکے سے مدرسے کا ہال خون سے لت پت ہوگیا تھا۔
مدرسے سے ملحقہ مسجد کے ایک حصے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس دھماکے میں مولانا رحیم اللہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ اس دھماکے سے متعلق تفصیلی کالم لکھ چکے ہیں۔ مولانا رحیم اللہ حقانی مظہری کے شاگردوں میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے طلباء بھی شامل ہیں۔
خاص طور پر افغان طالبان کے کمانڈر اور رہنماؤں کی اکثریت ان کے شاگردوں میں شامل تھی جس کی وجہ سے انھیں افغان طالبان کے حلقوں میں ایک بااثر مقام حاصل تھا۔ مولانا رحیم اللہ حقانی پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے، مبینہ طور پر ان پر ہونے والے ہر حملے کے پیچھے داعش کارفرما رہی، جب 2015/16 میں داعش اس خطے خصوصاً افغانستان میں سرگرم ہوئی تو اس نے اپنے ابتدائی حملوںمیں شیخ رحیم اللہ حقانی کو بھی نشانہ بنایا، اس وقت پشاور میں ان پر دینی درسگاہ کے قریب 2016 میں آتشی اسلحے سے حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔
اس کے بعد اکتوبر 2020میں شیخ رحیم اللہ حقانی کو دوران تدریس جامعہ زبیریہ میں بھی نشانہ بنایا گیا جس کا تذکرہ ہم اوپر کرچکے ہیں۔ اگرچہ داعش نے اس حملے کی رسمی ذمے داری قبول نہیں کی تھی مگر مولوی حقانی نے حملے کے فوراً بعد اس حملے کے لیے داعش کو ذمے دار قرار دیا تھا اور اب تازہ حملے میں وہ شہید ہوگئے، اس حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے۔
جب گزشتہ برس اگست میں افغانستان پر طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو اس کے چند ماہ بعد ہی مولانا رحیم اللہ حقانی مظہری نے پشاور سے افغان دارالحکومت کابل کا رخ کیا۔ جہاں انھوں نے ایک نئی مذہبی درسگاہ قائم کی اس درسگاہ میں ان کے پاس ملک کے طول و ارض سے ہزاروں طلباء علوم نبوت کا نور لینے پہنچ گئے۔ مولانا رحیم اللہ حقانی مظہری اسلامی عقائد و تعلیمات میں بے لچک رویہ رکھتے تھے، اسی بنا پر ان کے ناقدین انھیں شدت پسندی کا طعنہ بھی دیتے تھے حالانکہ یہ شدت پسندی نہیں، بلکہ اسلام پسندی تھی۔
امارت اسلامی افغانستان میں بچیوں کی تعلیم کی حمایت اور اجازت میں مولانا رحیم اللہ حقانی نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شہادت صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے گہرے رنج والم کا باعث ہے۔ اللہ کریم مولانا رحیم اللہ حقانی مظہری شہید رحمہ اللہ، ان کے ننھے معصوم بیٹے عثمان شہید اور بھائی سمیت اس حملے میں شہید ہونے والوں کے درجات بلند فرمائے اور افغانستان کو امن سے دور کرنے والی قوتوں کے عزائم خاک میں ملا دے۔ ؟آمین