قومی پرچم کا تقدس
گزشتہ اتوار 14اگست کو ہم پاکستانیوں نے آزادی کی 75ویں سالگرہ کا جشن منایا
ہندوتوا کی لہر اُٹھنے کے بعد بھارت میں سیاسی و معاشرتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ افسوسناک رویہ روا رکھا جا رہا ہے اور ان پر اپنے ہی ملک میں زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ہمارے خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔ پاکستان میں ہر مذہب،ہر رنگ، ہر ذات اورہر فرقے کے لوگ بہت حد تک اپنی مرضی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جب کوئی نعمت بغیر محنت کیے مل جاتی ہے تو اس کی قدر وہ نہیں ہوتی جو اس کا حق ہوتی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو خاک و خون کا دریا عبور کر کے اس پاک مٹی سے آ کر وابستہ ہوئے، باقی لوگوں کو اس ملک کی شکل میں یہ نعمت ایک تھالی میں رکھی مل گئی۔ جس کی وجہ سے آئے دن ہماری زبانوں اور ہمارے اعمال سے اس کی ناقدری ہوتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ اتوار 14اگست کو ہم پاکستانیوں نے آزادی کی 75ویں سالگرہ کا جشن منایا۔ اپنی سرزمین،اپنی دھرتی سے محبت اور لگاؤ بہت فطری ہے۔
اس کے لیے گاہے بگاہے ایک تذکرے کی بہت اہمیت ہے تاکہ یہ لگاؤ ایک زندہ جذبے، ایک روشن الاؤ کی شکل میں ہمارے دلوں میں راسخ رہے۔ ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ پاکستان سے لگاؤ، اس کے لیے مر مٹنے کا جذبہ ہمارے رگ وپے میں سمایا ہوا ہے اور بارہا دنیا نے یہ دیکھا ہے کہ ملک کو کسی بھی چیلنج کے موقع پر پوری پاکستانی قوم ایک ناقابلِ تسخیر چٹان بن گئی۔
اس دفعہ جشنِ آزادی کے موقع پر پاکستان کی بہت بڑی اور مقبول سیاسی جماعت نے لاہور میں ایک جلسہ کیا۔ پہلے یہ جلسہ پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں ہونا قرار پایا تھا لیکن بوجوہ اس کا مقام تبدیل کر کے اسے ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں منعقد کیا گیا۔ جلسے کی تیاری کے دوران ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ پاکستان کا قومی پرچم اتار کر پارٹی پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھنے کو آیا کہ قومی پرچم کے اوپر پارٹی پرچم لگا دیا گیا یا قومی پرچم کو پارٹی پرچم کے نیچے کر دیا گیا۔ یہ ایک انتہائی دکھ دینے والا افسوس ناک عمل تھا جس سے قومی پرچم کی بے توقیری کی گئی۔ معاشرے اور ریاست میں بعض پروٹوکولز بہت ضروری ہوتے ہیں۔ ان کی بہت اہمیت اور افادیت ہوتی ہے۔یہ ایک حُسن ہوتے ہیں۔یہ خوبصورت روایت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان سے روگردانی بدصورتی اور ظلم کی ایک شکل ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس بہت سی مذہبی کتابیں ہوں اور ان کو اوپر نیچے رکھنا مقصود ہو تو سب سے اوپر اﷲ کی کتاب قرآنِ مجید کو رکھا جائے گا۔ کتاب اﷲ کے نیچے حدیث کی کتب اور پھر دوسری کتابیں رکھی جائیں گی۔ کتاب ﷲ کا پروٹوکول یہ ہے کہ ﷲ کا کلام ہونے کے سبب یہ تمام کتابوں،تمام کلاموں سے افضل ہے اس لیے کوئی بھی دوسری کتاب اس کے اوپر نہیں رکھی جا سکتی۔ یہی فوقیت قومی پرچم کی باقی تمام پرچموں پر ہے۔
تمام ملکوں کی افواج کی طرح افواجِ پاکستان کا ہر افسر و جوان اس بات کے عزم اور ارادے کے ساتھ اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سروس کرتا ہے کہ جب بھی وطن نے پکارا، اپنی جان پر کھیل جاؤں گا لیکن مادرِ وطن پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔افواجِ پاکستان کا کوئی فرد بھی صرف تنخواہ اور مراعات کے عوض نوکری نہیں کرتا بلکہ اگر دیکھا جائے تو کسی انسانی جان کا کوئی معاوضہ نہیں ہو سکتا۔ جان دینے کے لیے کوئی بہت بڑا مقصد سامنے ہونا چاہیے۔ عام طور پر یہ دین سے محبت ہوتی ہے جو اہلِ ایمان کو سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار کرتی ہے۔ ﷲ کے راستے میں جان دینے کے علاوہ اپنی سرزمین سے محبت ہی وہ جذبہ ہے جو تمام اندیشوں سے صرفِ نظر کر کے کسی بھی فرد کو آگ و خون کا دریا عبور کرواتی ہے۔
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ وطن کے لیے طفیل شہید، عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر، حوالدار لالک شہید نشانِ حیدر، سپاہی محفوظ شہید نشانِ حیدر، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید نشانِ حیدر یا دوسرے شہیدوں نے جو کیا وہ کسی معاوضے کے بدلے کسی سے کروایا جا سکتا ہے۔ دنیاوی جذبوں میں وطن سے محبت کا جذبہ سب سے اعلیٰ اور سب سے پاکیزہ جذبہ ہے، پاکستان سے محبت کا جذبہ دین اور دنیا کی بھلائی ہے۔ وطن کی محبت کئی روپ اختیار کرتی ہے جن میں سے قومی پرچم کی آن بان اور شان کو قائم رکھنا ہر ایک کے اوپر لازم ہے۔ اسی لیے قومی پرچم کے اوپر کوئی دوسرا پرچم نہیں لگایا جا سکتا۔ یہی صورت وطنِ عزیز کے آئین کی ہے۔ کسی بھی ملک کا آئین اس ملک کے باقی تمام قوانین پر فوقیت رکھتا ہے۔
دراصل ہمارے ہاں ہر شعبے میں اتنا زیادہ بگاڑ پیدا ہو گیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ معاشرہ کبھی سدھر بھی سکے گا کہ نہیں۔ صدرِ مملکت ریاست کا سربراہ، مسلح افواج کا سپریم کمانڈر اور وفاق کی علامت ہوتا ہے، صدرِ مملکت کسی بھی ملک میں فردِ اول ہوتا ہے۔ صدر بننے سے پہلے آپ کی جو بھی سیاسی وابستگی ہو لیکن صدر بننے کے بعد، صدر کا منصب سنبھالنے والی شخصیت کو ہر صورت میں وفاق کی علامتImpartial اور سب سے برابر سلوک کرنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں صدر بننے کے بعد کرسی سے چمٹے رہنے کی ہوس صدرِ مملکت سے اعلیٰ تر ملکی مفاد کے خلاف کام کرواتی ہے۔
صدرِ مملکت فرد اول جب کہ ان کی بیگم صاحبہ خاتونِ اول ہوتی ہیں۔ آپ آئے دن سنتے اور پڑھتے ہوں گے کہ وزرائے اعظم کی ا زوج کو خاتون ِاول کہا جا رہا ہو گا۔ایسا کہنے اور لکھنے و بولنے والے زیادہ تر اپنی کم علمی اور مفادات کے تحت کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر بھی کبھی عوام و خاص کو ایجوکیٹ نہیں کیا جاتا کہ وزیرِ اعظم کی بیگم صاحبہ خاتونِ اول نہیں بلکہ یہ صدرِ مملکت کی بیگم صاحبہ کا اعزاز ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے سربراہ کی بیگم کی حیثیت میںخاتونِ اول ہیں۔
پچھلی تین چار دہائیوں سے وفاقی کابینہ کی میٹنگ میں وزرائے مملکت،ایڈوائزرز اور دوسرے بڑے عہدوںپر متمکن شخصیات کو شامل کیا جاتا ہے۔ کابینہ کی میٹنگ ملک کے اندر انتہائی اہم امور میں مشاورت اور فیصلوں کے لیے سب سے بڑا فورم ہوتا ہے اور اس میں صرف ان شخصیات کو شریک ہونا چاہیے جو وفاقی کابینہ کے رکن ہوں۔ایک مکمل وفاقی وزیر ہی کابینہ کا ممبر ہوتا ہے بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ ہر وفاقی وزیر کا کابینہ کا رکن ہونا ضروری نہیں۔
کابینہ ڈویژن کی ذمے واری ہوتی ہے کہ وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدرِ مملکت کی منظوری سے کسی بھی وفاقی وزیر کے کابینہ کا رکن ہونے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے اور اسی صورت میں وہ رکن، کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرے لیکن ہمارے ہاں رواج بن گیا ہے کہ وفاقی وزرا کے ساتھ وزرائے مملکت اور دوسرے سیاسی عہدیداروں کو کابینہ کے ہر اجلاس میں شرکت کرائی جاتی ہے۔اس طرح اب کابینہ کا باقاعدہ رکن ہونے یا نہ ہونے کی تمیز ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔نہ جانے بگاڑ ہوتے ہوتے ہم کہاں آ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔
آپ یہ بھی دیکھتے ہوں گے کہ سیاسی پارٹیوں کے رہنما اپنی گاڑیوں پر ایک طرف پاکستان کا قومی پرچم اور دوسری طرف پارٹی کا پرچم لہرا رہے ہوتے ہیں۔اس طرح پاکستان کا پرچم لہرانے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔قومی پرچم جن افراد اور شخصیات کی گاڑیوں یا گھروں پر لہرایا جا سکتا ہے وہ قانون میں درج ہے۔ان کے علاوہ کوئی چاہے کتنا ہی بڑا ،پاپولر یا با اثر کیوں نہ ہو،پاکستان کے قومی پرچم کو اپنی گاڑی پر نہیں لہرا سکتا لیکن ہمارے ہاں قومی پرچم کا استعمال بغیر کسی قانون اور قاعدے کے ہو رہا ہے۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سابق وزرائے اعظم،سابق وزرائے اعلیٰ،سیاسی پارٹیوں کے سربراہان،سابق وفاقی و صوبائی وزرا پریس کانفرنس کے دوران ایک طرف قومی پرچم اور دوسری طرف پارٹی پرچم سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ سراسر غیر قانونی اور غیر مناسب ہے۔ہمارا قومی پرچم ہماری آن،بان اور شان ہے۔دعا ہے کہ اﷲ ہمیں اس کو سربلند رکھنے کی توفیق دے،اﷲ ہمیں مثبت رویے، نظریات،خیالات،احساسات، جذبات، معاملات، حالات و واقعات اور اسباب و وسائل سے بہرہ مند کر کے منفی فکر و عمل سے نجات عطا فرمائے۔آمین۔