صادق الاسلام ریڈیو ٹیکنیشن سے ریڈیو سنگر تک
ایک دن اس نے ہمت کرکے اپنے ہی ایک گیت کو کمپوز کیا
یہ ایک حقیقت ہے کہ فن نہ کسی کی جاگیر ہوتا ہے اور نہ ہی اچھی آواز کسی کی میراث ہوتی ہے۔ یہ سب خدا کی دین ہوتی ہے ، وہ جس کو چاہے نواز دے۔ یہ پانچ دہائی پرانی بات ہے ریڈیو پاکستان کی نشریات سے بطور ٹیکنیشن اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والا نوجوان صادق الاسلام اپنی دلکش آواز کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے صف اول کے گلوکاروں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے گائے ہوئے گیتوں نے ایک دھوم مچا دی تھی، وہ بچپن ہی سے موسیقی کا شیدائی تھا، وہ ریڈیو سے کندن لال سہگل، مکیش، محمد رفیع اور مہدی حسن کی غزلیں اور گیت سن سن کر خود کو بھی خوابوں میں اور خیالوں میں ایک گلوکار سمجھنے لگتا تھا۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران وہ نامور گلوکاروں سے ملتا رہتا تھا ، اسے موسیقی کے اتار چڑھاؤ اور سُروں کی اونچ نیچ سے بھی اچھی خاصی واقفیت ہونے لگی تھی۔
ایک دن اس نے ہمت کرکے اپنے ہی ایک گیت کو کمپوز کیا اور اپنے دوست کی مدد سے ایک خالی اسٹوڈیو میں ریکارڈ کر کے جب سنا تو وہ خود حیران ہو گیا تھا کہ اس کا گایا ہوا گیت کسی پروفیشنل سنگر کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ پھر اس نے وہ ریکارڈ کیا ہوا گیت مٹانے کی کوشش کی تو اس کے ساتھی ریکارڈسٹ نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا ، اور کہا '' یار ! یہ گیت تو ریڈیو سے آن ایئر کیا جانا چاہیے، اس گیت میں بڑی دلکشی ہے'' ان دنوں صادق الاسلام سینئر پروڈیوسر عظیم سرور کے ساتھ ان کے پروگراموں میں معاونت بھی کرتا تھا جب یہ گیت عظیم سرور کو سنایا گیا تو وہ بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے اور بولے '' یہ گیت مجھے کسی پروفیشنل سنگر کا لگتا ہے۔اس گیت کو پہلی فرصت میں آن ایئر جانے دو، پھر دیکھنا اس گیت کی پسندیدگی تمہیں بھی حیران کردے گی'' اور پھر یہ گیت ریڈیو سے نشر کردیا گیا ، اس گیت کے بول تھے۔
تیرے پیار میں اے دیوانے
کہ ہائے ہائے رُلا دیا
کہ ہائے ہائے بھلا دیا تُو نے
اس گیت کے بڑے سادہ سے الفاظ تھے، شاعری اور دھن صادق الاسلام کی ذہنی کاوش کا نتیجہ تھی۔ یہ گیت نشر ہونے کے بعد عام سننے والوں میں بہت پسند کیا گیا اور پھر اس گیت کی فرمائش کے خطوط بے شمار آنے شروع ہوگئے۔
صادق الاسلام کا جو دوسرا گیت ریڈیو سے نشر ہوا اس نے تو بڑی دھوم مچا دی تھی اور اس گیت کی کمپوزیشن اور خوبصورت بول سامعین کے دلوں کو چھو گئے تھے۔ وہ ایک محبت کے جذبات سے بھرپور گیت تھا اور اس کی دھن میں بڑی سحر انگیزی تھی۔ اس دلکش گیت کا کچھ حصہ سامعین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ یہ گیت ایک بنگالی دھن سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا۔
نینوں کی نگری میں آؤ کبھی تو
خوابوں کے نغمے سناؤ
مانجھی ہو
جب بھی کبھی دیپ جلے ہیں
نین سرا بھیگ چلے ہیں
آؤ تو آ کر نہ جاؤ
کبھی تو خوابوں کی نگری میں آؤ
سارا جہاں اتنا ہے ویراں
دل میں اٹھے غم کے طوفاں
لہروں پہ ہے دل کی ناؤ
کبھی تو خوابوں کے نغمے سناؤ
نینوں کی نگری میں آؤ کبھی تو
اس گیت میں جہاں خوبصورت شاعری تھی وہاں صادق الاسلام کی آواز کی مٹھاس نے بھی ہزاروں لوگوں کے دل جیت لیے تھے اور یہ گیت اس دور میں مشہور ترین گیتوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس گیت کی فرمائش کے لیے روزانہ ہزاروں خطوط آتے تھے اور صادق السلام دیکھتے ہی دیکھتے اپنے دو گیتوں کے بعد ہی نامور گلوکاروں کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔
ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے ریکارڈ کی ہوئی فیض احمد فیض کی غزل گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے، سے مہدی حسن کو شہرت ملی تھی، ریڈیو سے گلوکار احمد رشدی کو ایک گیت بندر روڈ سے کیماڑی' میری چلی سے گھوڑا گاڑی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر،اس شہرہ آفاق گیت نے احمد رشدی کو فلمی دنیا میں اپنی پہچان بنانے کا موقع دیا تھا۔ ریڈیو ہی کے گیتوں سے گلوکار ایس۔بی۔جون فلمی دنیا تک پہنچا تھا۔ اور ریڈیو ہی سے نوجوان سنگر صادق الاسلام نے بطور گائیک اپنی شناخت پیدا کی تھی اور بہت سے جانے مانے گلوکاروں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔ یہ نوجوان صرف گانے سن سن کر گلوکار بنا تھا اور پھر اس نے اتنی شہرت حاصل کی کہ اس کے گیتوں کے چرچے امریکا، یورپ اور کینیڈا تک کی اردو بستیوں تک پہنچ گئے تھے۔
پھر ریڈیو کا یہ غیر معروف ٹیکنیشن ترقی کرتے کرتے ریڈیو اینکر اور ریڈیو کے پروڈیوسر تک ترقی کرگیا تھا۔ صادق الاسلام سے ملنے اور اس کو دیکھنے کے لیے ریڈیو کے باہر بھی بہت سے اس کے چاہنے والے جمع ہو جایا کرتے تھے۔ اس کی گائیکی کو مہدی حسن جیسے لیجنڈ گلوکار نے بھی سراہتے ہوئے کہا تھا۔ صادق الاسلام ایک سچا گلوکار ہے جس کی آواز میں سُر بھی ہیں اور سوز و گداز بھی ہے۔
ان دنوں میں فلمی صحافت سے وابستہ تھا، اور نگار ویکلی کراچی کے شعبہ ارادت میں شامل تھا۔ میں نے بھی ایک بھرپور انٹرویو صادق الاسلام سے ریڈیو کے کینٹین میں کیا تھا، اس وقت وہ سنگر کے ساتھ ساتھ ریڈیو کا پروڈیوسر بھی تھا ۔ میں نے صادق الاسلام سے پوچھا تھا کہ'' تم اب ایک مشہور گلوکار بھی ہو تو تم نے فلموں میں گانے کے لیے بھی کبھی سوچا ہے؟ '' تو اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا '' یہ فلمی دنیا بڑی ظالم ہے۔ یہ کب کسی کو قبول کرتی ہے اور کب کسی کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کرتی ہے، اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ مجھے مشہور سنگر ایس۔بی۔جون کا حال معلوم ہے جسے فلمی دنیا میں جانے کا ایک چانس ملا تھا۔ انھوں نے فلم ''سویرا'' کا ایک گیت گایا۔ جو واقعی بہت مقبول ہوا تھا۔
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
مگر پھر ہوا یوں کہ ایس۔بی۔جون کو کسی بھی موسیقار نے دوسرا گیت نہیں گوایا اور ایس۔بی۔جون کو فلمی دنیا نے یکسر بھلا دیا تھا۔ میں فلمی دنیا سے زیادہ ریڈیو کی دنیا پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ریڈیو ہی میری زندگی کا اوڑھنا اور بچھونا رہا ہے۔ ریڈیو ہی میرا گھر آنگن ہے، میں ریڈیو کے لیے بولتا ہوں، ریڈیو کے لیے لکھتا ہوں اور ریڈیو ہی کے لیے گاتا ہوں۔ میری زندگی کی خوشی بھی ریڈیو ہے اور میری ہر کامیابی کا محور بھی ریڈیو ہے۔'' صادق الاسلام نے یہ بڑی سچی بات کہی تھی۔
صادق الاسلام کے پھر ریڈیو سے یکے بعد دیگرے بہت گیت آن ایئر ہوتے رہے اور مقبولیت کی معراج حاصل کرتے رہے۔ انھی گیتوں میں سے ایک گیت کو اور بڑی شہرت ملی تھی اس کے بول ہیں:
حسیں رات ڈھل گئی
جواں دن گزر گیا
یہ کیسا انتظار ہے
میرا سکوں کدھر گیا
صادق الاسلام نے ہلکے پھلکے گیتوں کے ساتھ فیض احمد فیض، احمد فراز اور منیر نیازی کی غزلیں بھی اپنی آواز میں کمپوز کیں، یہ شاعر اس کے پسندیدہ شاعروں میں شامل تھے۔ صادق الاسلام کو جو شہرت ملی تھی وہ ریڈیو کی تاریخ میں کسی بھی شوقیہ فنکار کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اس کا موسیقی میں کوئی استاد نہیں تھا، اور نہ ہی وہ کسی موسیقار گھرانے سے کوئی واقفیت یا دلچسپی رکھتا تھا۔ قدرت نے اسے آواز کا حسن بخشا تھا اور وہ اپنے گیتوں کی دھنیں کسی منجھے ہوئے موسیقار کی طرح بناتا تھا۔ اس کے گیت بہت سے دوسرے لوگوں نے ری مکس کرکے مارکیٹ میں کیسٹ کی صورت میں فروخت کرکے ہزاروں روپے کمائے۔ صادق الاسلام نے کبھی کسی سے شکوہ اور شکایت نہیں کی۔ صادق الاسلام پھر بیمار ہو گیا تھا اور اس کی بیماری طویل ہوتی چلی گئی اور وہ پھر اپنی بیماری سے جانبر نہ ہو سکا اور 9 مئی 2005 میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔