شعور کا چراغ… خالد علیگ
یہ وہ نظریاتی رشتے ہیں جو ہنوز یادوں کے دریچوں میں ہمکلامی کرتے رہتے ہیں
لانڈھی کا مشہور چراغ ہوٹل... جہاں خالد علیگ مرتے دم تک علم و شعور، تہذیب، شائستگی، روایات اور حسن خلق کے دیوں کو روشن کرتے رہے، خودی کو مار کر ہوٹل کی کاٹھ دار کرسیوں سے لے کر پلاسٹک کی جدید کرسیوں تک ''چراغ ہوٹل'' کا حصہ بنے رہے، عجب آزاد منش اور اپنے جنون میں مگن شخص تھا ''خالد علیگ''۔ سر شام گھر سے پان کا بیڑہ منہ میں دبائے لکھنوی انداز کا چوڑے پائنچوں کا پاجامہ اور کرتا پہنے براق جذبوں کے سنگ ''سپڑ سپڑ'' کرتا اور بڑے بڑے ڈگ بھرتا چراغ ہوٹل پہنچ جاتا، اگر کوئی مشاعرے یا ادبی تقریب کا منتظم پتہ پوچھتا تو کہتے ''مجھے لانڈھی کے چراغ ہوٹل سے لے لینا'' گویا شام کے بعد رات گئے تک خالد علیگ نے لکھنو کی ''نخاس ہوٹل'' مانند چراغ ہوٹل کے دریچوں میں روشن ادبی کرنیں بکھیرنے سے کبھی رو گردانی نہیں کی، اور کمال کے قدردان تھے چراغ ہوٹل کے منتظم کہ مکمل تعظیم کے ساتھ خالد علیگ کے ہر مہمان کے لیے بچھ جایا کرتے، خود سوچیے کہ یہ تھی ہوٹل اور تھڑوں کی تہذیب و شائستگی جو اب آؤٹ لیٹ کی بے ہنگم بے ہودگی کے رنگ میں ڈھل چکی ہے۔
جس پر قدر کو اس سماج سے نیکالا دینے پر ہر صاحب نظر یا تو افسردہ ہے یا گم سم سا آنیوالی تبدیلی یا بے ہودگی کو ٹکر ٹکر تکے جا رہا ہے۔ خالد علیگ کے فن شاعری پر تبصرہ میرا عنوان نہیں مگر بطور شاعر ایک نظریاتی اور مضبوط ارادوں کا خالد علیگ میرے لیے بہت عظیم ہے، مجھے جب نوے کی دہائی سے قبل انجمن ترقی پسند مصنفین میں کام کرنے اور اسے نظریاتی طور سی منظم کرنے کا حکم صادر ہوا تو ادب کی مہان شخصیات جن میں شوکت صدیقی، حسن عابدی، خالد علیگ، جون ایلیا، احمد فراز، ظہیر کاشمیری، اختر حمید خان، قمر ساحری، عبداللہ ملک، رؤف ملک، سلیم راز، محمد علی صدیقی، فصیح الدین سالار، فقیر محمد لاشاری، عبد القادر جونیجو، حلیم بروہی، عبداللہ جمالدینی، پروفیسر قمبرانی، پروفیسربہادر بلوچ، نوشابہ زبیری (بیٹی سبط حسن) پروفیسر عتیق، رفیق چوہدری، حمید کاشمیری، شفیع عقیل، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا، نعیم آوری، رؤف نظامانی، جان خاصخیلی، عطیہ داؤد، ن۔ م۔ دانش، اسرار شاکی، نور محمد شیخ، توقیر چغتائی، فاضل جمیلی، عابد حسین عابد، مقصود خالق کے علاوہ تمام نئے شعرا و ادیب سے محبت اور قربت کے رشتے قائم ہوئے جنھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنظیم میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ ترقی پسند نظریات کے ساتھ کھڑے رہے۔
یہ وہ نظریاتی رشتے ہیں جو ہنوز یادوں کے دریچوں میں ہمکلامی کرتے رہتے ہیں یا کبھی ملاقات کا بہانہ بن جاتے ہیں۔خالد علیگ کو بطور شاعر جاننے والے کم ہی جانتے ہوں گے کہ خالد بھائی ایک متحرک اور خیالات کی ہلچل لیے ہوئے ایسے نظریاتی ورکر تھے جن کی ادبی جہتوں کے علاوہ صحافتی، سیاسی اور سماجی جہتیں بہت زیادہ اہم ہیں، مجھے یاد ہے کہ ایک وقت میں انجمن میں تنظیمی معاملات کی رسہ کشی کا علم جب خالد علیگ کو ہوا تو وہ میرے گھر آن پہنچے، جس کا مجھے علم ہرگز نہ تھا۔
میرے نہ ملنے پر میرے پڑوسی اور خالد بھائی کے لانڈھی کے دوست ابرار حسن کے ہاں رات بھر رہے اور صبح ہی گھر کی بیل ابرار نے بجائی اور نیچے کھڑے کھڑے ہی کہا کہ ''یار عجیب آدمی ہو کہ خالد بھائی رات سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور تم ہو کہ سو رہے ہو'' میں فوری تیار ہو کر ابرارکے گھر پہنچا تو فورا بولے ''ارے وارث میاں! کہاں غائب رہتے ہیں آپ،آؤ آؤ بیٹھو'' اور پھر شام گئے تک ادب سیاست اور تنظیمی معاملات پر گفتگو ہوتی رہی، انجمن کے بارے میں کہا کہ ''جتے رہو، ہم تمہارے ہم قدم ہیں، اور جواں ارادوں کا وہ جملہ آج تک میری سماعتوں سے نہ نکل سکا جو خالد بھائی نے خم ٹھونک کر کہا کہ ''انجمن کے خلاف سازش کرنیوالوں کی ایسی کی تیسی، بس تم کام کرو اور ڈٹے رہو۔''خالد علیگ کے ساتھ میرا رشتہ نہ صرف صحافتی تھا بلکہ وہ ہمارے سیاسی و نظریاتی کنبے کے لازمی فرد تھے۔
ایک دن رات گئے محفل جمی اور خالد بھائی نے گھر جانے کی ٹھان لی، مجھ سمیت ابرار حسن اور لانڈھی کے عارف شاہ نے منت سماجت کر کے خالد بھائی کو گاڑی میں بٹھایا اور رخت سفر لانڈھی کو کیا، دوران سفر ابھی ہماری گاڑی جونہی ملیر کی حدود میں داخل ہوئی تو خالد بھائی کے اندر کی جواں فکر جاگ گئی اور کہا کہ ''گاڑی روکو یار'' ہم نے گاڑی ملیر ٹنکی نہال اسپتال کے قریب روک دی، اس اثنا رات کے اس پہر ہر طرف سناٹا اور رات کی خاموشی چھائی ہوئی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب ایک لسانی تنظیم اپنے آقاؤں کے اشاروں پر کراچی میں کشت و خون کر رہی تھی، ہم تینوں نے خالد بھائی کو حالات کی سنگینی کی جانب متوجہ کیا ہی تھا کہ خالد بھائی گاڑی سے اتر کر ملیر ٹنکی کے مین روڈ پر ایرانی ہوٹل کے ڈھابے کے تخت پر جا بیٹھے، مجبورا ہم تینوں کو بھی اترنا پڑا، سڑک کے کونے پر ہم خوف و جرات کے ملے جلے احساس کے ساتھ ایرانی ڈھابے پر چائے پیتے رہے۔
اس دوران خالد بھائی نے اپنی زندگی جدوجہد اور خاندانی پس منظر سمیت ملکی اور عالمی سیاست و ادب پر سیر حاصل گفتگو کی اور اس وقت سب کو ہوش آیا جب صبح کی بشارت ہونے لگی، ہم تینوں خالد بھائی کو ان کے گھر چھوڑ کر واپس آئے اور یوں یہ شاہکار غزل بھی ہماری سماعتوں میں پہلی مرتبہ آئی جو ہماری کیفیت میں ہمت دلانے کا جوالا بنی، خالد بھائی نے اس وقت تک کسی کو یہ غزل سنائی نہیں تھی، جس کی وجہ تسمیہ بقول خالد بھائی جنرل مشرف کا مارشل لا بنی۔
سو چند شعر آپ دوستوں کی نظر...کہ
میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
مگر اہل بزم میں کوئی تو ادا شناسِ وفا نہیں
میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں، مجھے اب تو اس سے اتار لو
کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں، مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں
مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر اک عہد سیاہ میں
وہ چراغ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں
تمہیں کیا خبر کہ میں کون ہوں، مرے قاتلوں ہی سے پوچھ لو
جنھیں حکمِ قتل ملا، مگر جنھیں اجر قتل ملا نہیں