پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ اور ملکی عوام
اصل مشکلات کا سامنا ان شہریوں کو کرنا پڑا جو میلوں دور تک موٹرسائیکل لے کر پھرتے رہے
پٹرولیم قیمتوں میں اضافے پر سینیٹ میں اپوزیشن احتجاج کر رہی تھی اور حکومتی اراکین بھی حکومت کے اس اعلان کا دفاع کرنے سے انکاری تھے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ہم نے کڑوا گھونٹ پیا ہے۔ دراصل عوام اس طرح کے کڑوے گھونٹ پیتے پیتے اب تنگ آچکے ہیں۔ ادھر قیمتیں بڑھنے کے باوجود کراچی میں اکثر پٹرول پمپ بند رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ کراچی میں پٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
اصل مشکلات کا سامنا ان شہریوں کو کرنا پڑا جو میلوں دور تک موٹرسائیکل لے کر پھرتے رہے ، ایک پٹرول پمپ سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے اور یوں میلوں کا سفر طے کرنے کے بعد کہیں پٹرول ملا۔ وہ بھی مہنگا کیونکہ حکومت نے پٹرول 6.72 پیسے مہنگا کر دیا۔ یوں پٹرول کی نئی قیمت 233.91 روپے لیٹرکردی گئی۔
کہیں یہ اضافہ 240 روپے اور کہیں 235 روپے تک بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو سو روپے کے ساتھ تیس روپے اب دو دو روپے کے 2 سکے ہوں ، اب پیسوں کا استعمال متروک ہے، لہٰذا پانچ روپے کا ایک سکہ ہو۔ عموماً افراد 40 روپے مزید دیتے ہیں یا پورے 250 روپے دے دیے، اب 10 روپے تو واپس باقی 6 روپے 9 پیسے کی واپسی کے لیے پٹرولیم پمپ کا کیشیئر منہ ادھر ادھر کرلیتا ہے اور موٹرسائیکل سوار اپنا منہ منزل کی طرف کرلیتا ہے۔ یوں معاملہ بالآخر بحق کیشیئر طے ہو جاتا ہے۔
یہ سارے معاملات برائے پٹرولیم مصنوعات آئی ایم ایف کی ایما پر ہی طے ہو رہے ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا جا رہا بلکہ اس بات پر پاکستان اور آئی ایم ایف پر اتفاق کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ پٹرول پر 10 روپے اور ڈیزل پر 5 روپے لیوی بڑھے گی۔ اس وقت پٹرول لیوی 20 روپے ہے اور مٹی کے تیل پر 10 روپے ہے، مزید اضافے کے بعد لیوی کی مد میں 855 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے۔
ادھر عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت بھی کم ہو رہی ہے اور سونے کی فی اونس قیمت میں بھی کمی آ رہی ہے ، ڈالر کی قیمت میں کمی کے اثرات ابھی تک ان دونوں پر مرتب ہی نہیں ہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا کی تحقیقات کی جائیں تو عالمی منڈی میں سونا اور پٹرول کی قیمت گرنے کے اثرات ہر جگہ مرتب ہوئے ہوں گے ، جب کہ پاکستان میں اس کا مزید گہرا اثر مرتب ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ ڈالر ریٹ میں بھی گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے تک کمی ہوتی رہی ، اگرچہ اب معمولی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جب تک ڈالر ریٹ میں اضافہ ہوتا رہا ، پاکستان میں ہر شے مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن ڈالر ریٹ میں کمی ہونے پر کسی شے کی قیمت میں کمی نہ ہوئی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ہی حل تلاش کرلیا ہے کہ ان کے ہر حکم پر بلاچوں و چرا عمل کیا جائے، جب کہ حکومتی معاشی حکام اس بات سے باخبر ہیں کہ پاکستان کی کمزور ترین معیشت ایسی ہے جہاں کے 98 فیصد اکثریت کا اب مشکل گزارا ہو رہا ہے۔ ان میں 50 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو ہر شے کی خرید پر دوسری شے نہ خریدنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ ایسے میں پٹرول ، ڈیزل سب سے اہم ترین شے ہے۔
اب ایک انتہائی ضرورت کی شے خریدنے کے لیے دوسری کئی اشیا کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ یہ پٹرول، ڈیزل ہی ہے جس کی قیمت میں معمولی اضافے کے اثرات دور تک بھی جاتے ہیں۔ دیرپا بھی ہوتے ہیں اور ہر شے کو احاطے میں بھی لے لیتے ہیں کیونکہ اب قدیم دور والی بات نہیں رہی کہ ایک ہی گاؤں یا قصبے میں ضرورت کی زیادہ تر اشیا تیار کر لی جاتی ہیں۔
گاؤں دیہات میں کسی زمانے میں لوہار نے بھٹی لگالی وہیں چاقو چھریاں تیار ہو رہی ہیں، اور لوہے سے متعلق دیگر کئی اشیا تیار کی جا رہی ہیں، جولاہے کپڑا بننے والے نے اسی گاؤں میں اپنی کھڈی یا چرغہ لگا لیا، جیسے تیسے کپڑے بن لیے اور اس کو لوگوں نے خرید لیا، کمہار نے وہیں پر مٹی گارے سے ظروف تیار کردیے اور عوام نے اسی کے احاطے میں جا کر خریداری کرلی، اسی گاؤں میں گندم پیدا ہو کر بک بھی گئی۔ وہیں چکی لگا کر پیس بھی دیا گیا یا پھر گھروں میں چکی موجود ہوا کرتی تھی۔
اسی گاؤں میں موچی بیٹھا ہے اور سب کے جوتے بھی مرمت کر رہا ہے۔ نئے جوتے بنا بھی رہا ہے فروخت بھی کر رہا ہے۔ کہیں سامان ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا دور بھی لے جانا ہو تو گدھا گاڑی، بیل گاڑی یا ایک یا دو گھوڑے لگا کر گھوڑا گاڑی بنا کر سامان ادھر سے ادھر بھجوا دیا۔ اب تو زمانہ بدل گیا ہے، معاشی حکام سے لے کر آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول تک کو معلوم ہوگا کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے کتنے غریبوں کے چولہے بند ہو جاتے ہیں۔ ہر سامان پر زرعی مصنوعہ ہر صنعتی مصنوعہ ادھر سے ادھر لے جانا ہوتا ہے۔
ایک شہر میں کپڑے بھی بنتے ہیں، جوتے بھی، برقی آلات بھی، زرعی آلات بھی، چھوٹی بڑی مشینری بھی۔ایک شے کے بیسیوں برانڈ بیسیوں شہروں سے ایک شہر کے مختلف مارکیٹس میں لے جائے جاتے ہیں۔ ان کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر غریب کی آمدن اتنی ہی رہتی ہے۔ لہٰذا اس کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی رہتی ہے۔ اس کے بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر رہتے ہیں اور ہر طرف غریب پر ہی زد آتی ہے۔