پچھتر سال بعد آپ یہاں ہیں
آج پچھتر سالوں بعد جمہوریت کی بلوغت کا یہ عالم ہے کہ شاذ ہی کوئی ادارہ اپنی توقیر سلامت رکھ پایا ہے
سوال تو سادہ سا تھا مگر جواب سوچنے میں کافی وقت لگا۔ دوسری جانب ایک عالمی نیوز ادارے کا نمایندہ خاموشی کا وقفہ طویل ہوتے دیکھ کر بولا؛ کیا ہوا؟ میں نے تو سادہ سا سوال کیا تھا مگر آپ تو لمبی سوچ میں پڑ گئے۔ چونک کر اسے جواب دیا کہ کیا بتائیں کہ 75 سال بعد جہاں کھڑے ہیں وہاں دونوں پائوں ڈیفالٹ کی کھائی میں لٹکے ہوئے ہیں۔
لشٹم پشٹم کال ختم کی مگر سوچ کا پنچھی تادیر محو پرواز رہا۔ پچھتر سال کسی بھی قوم کی تاریخ میں کافی ہوتے ہیں۔ جنھیں کچھ حاصل کرنا تھا وہ دو چار دِہائیوں میں زقند لگا کر کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ ہم سے ملتے جلتے مسائل بلکہ چند ایک کے مسائل ہم سے کہیں زیادہ گھمبیر اور خوفناک تھے۔
جنوبی کوریا، تائیوان، ویت نام، سنگا پور، انڈونیشیا وغیرہ نے اپنے اپنے حصے کے المناک حادثے سہے، عالمی سیاست کے چرکے برداشت کیے، جنگوں کا سامنا کیا، وسائل کی کمیابی اور غربت کے عذاب برداشت کیے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا سفر ہے مگر ان پچھتر سالوں میں بہت سے ترقی پذیر ممالک کی بیلنس شیٹ میں بہت کچھ دکھانے کو ہے مگر ہماری بیلنس شیٹ میں دعوے ، نعرے اور خوش گمانیوں کے تو ڈھیر موجود ہیں مگر حاصل وصول ، جمع جتھا اور کمایا ہوا جہاں جہاں ملتا ہے منفی نشان کے بعد ہی نظر آتا ہے۔
چند ماہ قبل سری لنکا کی معیشت ڈھیر ہوئی اور ڈیفالٹ مجبوری بن گیا ، عوامی ردِ عمل اور مظاہروں میں شدت آئی تو دو دِہائیوں سے ملکی سیاست پر قابض سیاسی سرپرستیوں اور فیاضیوں کے ان داتا برادران صدر اور وزیر اعظم اپنے اہل خانہ سمیت ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ مگر بھلا ہو سرپرستیوں پر مبنی سیاست اور بکھری ہوئی نااہل اپوزیشن کا کہ دوران فرار وہ اپنے ایک قابل اعتماد کھلاڑی کو غیر جانبداری کا چوغہ پہنا کر متفقہ امیدوار بنوا گئے۔
شور و غوغا تھما تو انھی صاحب نے مظاہرین کی مشکیں کسنا شروع کردیں۔ یوں سری لنکا کی عوامی طاقت کا سیلاب جھاگ کی طر ح بیٹھ گیا۔ آئی ایم ایف نے ابھی تک پلا نہیں پکڑایا مگر ملک اور عوام اب دھیرے دھیرے عادی ہورہے ہیں کہ ڈیفالٹ ہو ا تو کیا ہوا ، زندگی ہے جاری تو رہنی ہے۔
دنیا انتہائی مسابقت کی جگہ ہے، انفرادی طور پر یا ملکی سطح پر، مسابقت اور مقابلے میں پائوں جمانے والے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ 75واں یوم آزادی مناتے ہوئے ایسے کئی سوالات کلبلاتے رہے۔ بزعم خود ایک عالمی طاقت ، واحد اسلامی ایٹمی ملک ، دنیا کا آبادی کے اعتبار سے چھٹا سب سے بڑا ملک، خطے کی سیکیورٹی شطرنج کا ایک لازمی اور اہم کردار، نوجوانوں کی اکثریت جسے معیشت دان Youth buldge کے نام سے موسوم کرتے ہیں، ان سب خصائص سے کسے انکار ہو گا مگر کیا کیجیے کہ ملک ہوں یا گھر، فرد ہو یا قوم، اپنے نان نفقے کا خود ذمے دار ہوتے ہیں۔
شاید کسی ڈی این اے کا شاخسانہ ہے یا کیا ہے کہ غالب بھی قرض پر قرض اٹھاتے گئے کہ اچھے دن شرم یا ترس کھا کر ان کے ہاں بھی مہمان اتریں گے ، کچھ یہی عالم اجتماعی طور پر ہم نے روا رکھا۔ پچھلے تیس پینتیس سالوں میں ترقی اور خوشحالی کا ایک ہی کامیاب فارمولا رہا؛ قرض، قرض اور مزید قرض۔
درونِ خانہ سیاست کے معاملات ہم عام لوگ کیا جانیں۔ ایک چلتی حکومت کو چلتا کیا کہ یہ نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ بچانے کی کوشش میں ڈیفالٹ کا خطرہ مزید نزدیک ہوتا دکھائی دیا۔ روپے کی بے قدری، مزید قرض اور مہنگائی کے سیلاب کے بعد بھی تقاضا ہے کہ ہماری توصیف کرو ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ حکومت سے علیحدہ کیے جانے والے شکوہ کناں ہیں کہ اچھا بھلا میلہ تھا ، تہہ و بالا کر دیا۔
جمہوریت اور آزادی اظہار کے ان پچھتر سالوں کے سفر میں بہت سے مدوجزر آتے رہے۔ ہر مایوسی کے بعد یہی سننے کو ملتا کہ جمہوریت کا سفر جاری رہنا چاہیے، اس میں خودکار اصلاح ہوتی چلی جائے گی۔ پچھتر سالوں بعد آج ہم یہاں ہیں کہ پارلیمنٹ کے جھگڑے اور سیاسی پنجہ آزمائی پارلیمنٹ میں نمٹانے کے بجائے اعلیٰ عدالتوں کی دہلیز پر دھکیلنے کا چلن چل نکلا ہے۔ دور کیا جانا، پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کا ٹنٹا بھی عدالتو ں نے نمٹایا۔ یہ الگ بات کہ تخت یا تختے کے اثرات اس قدر بھاری بھر کم تھے کہ اس دوران عزتِ انصاف بھی زد میں آ گئی۔
آج پچھتر سالوں بعد جمہوریت کی بلوغت کا یہ عالم ہے کہ شاذ ہی کوئی ادارہ اپنی توقیر سلامت رکھ پایا ہے ، اگر وہ ادارہ خود بچنے کی کوشش میں بھی رہا تو جن کے مفادات پر زک پڑی انھوں نے ان اداروں کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کہنے کو تو الیکشن ہی واحد حل ہیں مگر الیکشن کمیشن، حد بندیوں ، ووٹرز لسٹوں اور الیکشن پروسس پر اعتبار رہ کہاں گیا ہے۔
پچھتر سالوں بعد سیاسی سفر میں یہاں تک پہنچے ہیں کہ پچھلے ہفتے بھر سے شہباز گِل کی صورت میں ایک پراکسی مہم جوئی جاری ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے قوم کی جان ہلکان کر رکھی ہے۔
پچھتر سالوں بعد بھی ہم یہاں ہیں کہ پچھلے سال اسلام آباد میں نور مقدم کے بہیمانہ قتل اور مرزاعثمان کے ہاتھوں تذلیل کا شکار ہونے کے بعد حوصلہ شکنی کے بجائے معاملہ اسی شدت سے جاری ہے۔ فیصل آباد میں بااثر کاروباری شخص کے ہاتھوں جس طرح ایک مجبور لڑکی اور بھائی کی تذلیل ہوئی، اس سے سر شرم سے جھک گیا ۔ مگر کیا کیجیے کہ اسی متاثرہ لڑکی کا ایک وڈیو کل سے وائرل ہے کہ میری وجہ سے یہ سب ہوا، کچھ غلط فہمیوں کی بنا پر، میں'' اس شخص'' سے معافی کی طلبگار ہوں۔
پچھتر سالوں بعد ہم آپ یہاں ہیں کہ دنیا کے معروف ترین ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس اور رینکنگ میں کوئی مائی کا لعل ہمارا نام پہلے سو نمبروں میں ڈھونڈ کے دکھائے !!