بلقیس بانو کو ملنے والا انوکھا انصاف
بلقیس بانو کے وکیل کہہ چکے ہیں کہ اس سے کم سنگین جرائم میں ملوث ہزاروں قیدی ملک کی جیلوں میں پڑے ہیں
بھارتی پینل کوڈ کے مطابق عمر قید بھگتنے والے مجرموں کو حق ہے کہ وہ کم ازکم چودہ برس جیل میں گذارنے کے بعد باقی مدت کی معافی سے متعلق اعلیٰ عدالت کو درخواست دے سکیں۔
عدالت عموماً ایسی درخواستوں پر فیصلہ ریاستی حکومتوں کے تشکیل کردہ نظرِ ثانی بورڈ پر چھوڑ دیتی ہے اور بورڈ مجرم کی عمر اور جیل میں اس کے طرزِ عمل کی بنا پر چھوٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔عموماً قتل ، ریپ ، غداری یا دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزا میں رعایت کی درخواست کم ہی سنی جاتی ہے۔
مجرموں کی سزا میں سالانہ تخفیف اہم قومی دنوں کی خوشی میں بھی ہوتی رہتی ہے،مگر اس تخفیفی دائرے میں بھی ایسے سنگین مجرموں کو عموماً شامل نہیں کیا جاتا جن کی رہائی سے سماج کو دوبارہ خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہو۔اس بار بھی آزادی کی پلاٹینم جوبلی کی خوشی میں مرکزی حکومت نے لگ بھگ دو ماہ قبل ریاستوں کو خط بھیجا جس میں تفصیل درج تھی کہ کس نوعیت کے مجرموں کی سزاؤں میں کتنی تخفیف کی جا سکتی ہے۔ حسبِ معمول اس خط میں بھی جن سنگین جرائم کو رعایت سے مستسنی قرار دیا گیا ان میں ریپ بھی شامل ہے۔
مگر اچانک یومِ آزادی ( پندرہ اگست ) کے دن خبر آئی کہ ریاست گجرات کی حکومت نے مارچ دو ہزار دو میں ریاست میں مسلم کش قتلِ عام کے دوران بلقیس بانو نامی ایک خاتون کے اجتماعی ریپ اور اس کے خاندان کے چودہ افراد کے اجتماعی قتل میں ملوث عمر قید کاٹنے والے گیارہ مجرموں کی باقی سزا معاف کر کے رہا کر دیا۔حالانکہ ان گیارہ میں سے صرف ایک مجرم نے دو ہزار انیس میں سپریم کورٹ سے سزا میں تخفیف کی اپیل کی تھی اور عدالت نے اس کی درخواست ریاستی حکومت کو بھیج دی تھی کہ وہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں ایک بورڈ تشکیل دے کر اس کی سفارشات کی روشنی میں مناسب فیصلہ کرے۔
بورڈ تشکیل پایا اور اس نے اس قدر سخاوت کا مظاہرہ کیا کہ ایک چھوڑ بلقیس بانو ریپ کیس میں عمر قید بھگتنے والے دیگر دس مجرموں کو بھی آزاد کرنے کی سفارش کر دی۔اس بورڈ کا سربراہ ایک سرکاری کلکٹر کو بنایا گیا تھا۔
یہ سب اتنی راز داری سے ہوا کہ میڈیا تو رہا ایک طرف خود بلقیس بانو کے شوہر کو بھی یہ خبر ٹی وی چینلز کے ذریعے ملی۔بلقیس بانو کے وکیل کے بقول ہمیں کسی نے کچھ پیشگی نہیں بتایا کہ ایسا کوئی فیصلہ ہونے والا ہے یا کوئی کمیٹی ایسی سفارش کر رہی ہے۔شاید فیصلہ سازوں کو خدشہ ہو کہ کہیں ہم اس ممکنہ فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمی سے پیشگی رجوع نہ کر لیں۔
یوں تو فروری مارچ دو ہزار دو میں گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے ہوتے گودھرا ٹرین آتشزدگی کا الزام فوری طور پر مسلمانوں پر لگا کے انتہا پسند بلوائیوں کو تین ہفتے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی اور اس کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد مسلمان کاٹ دیے گئے۔ان میں ایک مقامی کانگریسی رہنما رئیس احمد ایڈوکیٹ کا پورا خاندان اور ان کے گھر میں پناہ لینے والے دیگر مسلمان عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔البتہ بلقیس بانو کا کیس حیوانیت کے باب میں سیاہ لفظوں کے ساتھ الگ سے نقش ہو گیا۔
بلوائیوں نے جو محلے یا آزو بازو کے لوگ ہی تھے بلقیس بانو کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔اس وقت بلقیس کی عمر انیس برس تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ان کی گود سے دو برس کی بچی صالحہ کو چھین کر اسے فرش پر دے مارا گیا اور وہ فوراً ہی مر گئی۔اس کے بعد باقی خاندان کو مارنے کاٹنے کے لیے مجمع پل پڑا۔بلقیس بانو کو پہلے اجتماعی ریپ کیا گیا پھر انھیں برچھیوں سے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔لہولہان بلقیس لاشوں کے درمیان گر پڑی اور مجمع اسے مردہ سمجھ کے آگے بڑھ گیا۔
دو ہزار چار میں گجرات کی ایک مقامی زیریں عدالت میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو بلقیس بانو اور ان کے شوہر کی جانب سے اعلیٰ عدالت کو درخواست دی گئی کہ مقدمہ جس رخ پر جا رہا ہے انھیں انصاف کی توقع نہیں لہٰذا یہ مقدمہ گجرات سے باہر منتقل کیا جائے۔چنانچہ اسے ہمسایہ ریاست مہاراشٹر کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت میں متقل کیا گیا (سی بی آئی گویا بھارت کی ایف آئی اے سمجھ لیجیے )۔
سی بی آئی عدالت نے دو ہزار آٹھ میں تیرہ ملزموں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل کی گئی۔ گیارہ ملزموں کی سزا کی دو ہزار سترہ میں اعلیٰ عدالت نے توثیق کر دی۔مگر فیصلے میں کہا گیا کہ عمر قید میں وہ سال بھی شامل کیے جائیں جو ملزموں نے پہلی بار سزا ملنے تک دورانِ حراست گذارے۔یہ مدت تقریباً ساڑھے چار برس بنتی ہے۔اس دوران دو ہزار انیس میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو حکم دیا کہ بلقیس بانو کو پچاس لاکھ روپے ہرجانہ ، ملازمت اور پسند کا گھر فراہم کیا جائے۔
بظاہر مجرموں کی رہائی قانون کے دائرے کو پوری طرح کھینچتے ہوئے تمام تر ممکنہ رعایتوں کا فائدہ دیتے ہوئے عمل میں آئی۔بلقیس بانو اور ان کے شوہر اس رہائی کو اعلیٰ عدالت میں بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔مگر وہ کوئی کھاتے پیتے لوگ نہیں اور ملزموں کو قرارِ واقعی سزا دلوانے کا عزم ان کے پاؤں کی جوتی گذرے برسوں کے دوران مکمل گھسا چکا ہے۔لہٰذا نہیں کہا جا سکتا کہ اگر وہ اس فیصلے کو چیلنج بھی کریں تو اپنی زندگی میں یا جب تک بی جے پی برسرِ اقتدار ہے فیصلہ دیکھ پائیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہی ہو۔
بلقیس بانو کے وکیل کہہ چکے ہیں کہ اس سے کم سنگین جرائم میں ملوث ہزاروں قیدی ملک کی جیلوں میں پڑے ہیں۔ لیکن آج تک ایسے قیدیوں کی جانب سے معافی کی درخواست کا فیصلہ اتنی سرعت سے نہیں ہوا جتنا ان ریسپٹ کو رہا کرنے میں عجلت دکھائی گئی۔
قانون دان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بلقیس بانو ریپ کیس کا موازنہ دسمبر دو ہزار بارہ میں دلی پبلک ٹرانسپورٹ کی چلتی بس میں چھ ملزموں کے ہاتھوں بائیس سالہ جیوتی سنگھ کے اجتماعی ریپ اور پھر اس کے قتل کی بہیمانہ کوشش کے مجرموں کو ملنے والی سزاؤں سے کر رہے ہیں۔
جیوتی سنگھ کے ساتھ ہونے والی بھیانک واردات نے ملک کے طول و عرض میں غصے کی لہر دوڑا دی اور لاکھوں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔جیوتی کی جان بچانے کے لیے سنگا پور لے جایا گیا مگر وہ خود پر ہونے والے غیر انسانی تشدد کی تاب نہ لا سکیں۔اس کے بعد ریپ قوانین کو مزید سخت بنانے کے لیے ترمیمات کی گئیں۔اس واقعہ میں ملوث ایک کم عمر مجرم کی رہائی کے بعد سنگین جرائم میں ملوث نو عمروں کو زیادہ سخت سزا دینے کے لیے بھی قانون میں تبدیلی ہوئی۔ جیوتی ریپ کیس کا ایک ملزم دورانِ مقدمہ حالتِ قید میں مر گیا۔جب کہ چار دیگر ملزموں کو سزائے موت سنا کے اس پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔
اس کے برعکس بلقیس بانو کیس میں اجتماعی ریپ اور خاندان کے چودہ افراد کے اجتماعی قتلِ عام کے ملزموں کو اول تو عمر قید کی سزا ملی اور پھر انھیں بھی چودہ برس پورے ہوتے ہی رہا کر دیا گیا۔
پندرہ اگست کو جب گیارہ مجرم معافی ملنے کے بعد جیل کے صدر دروازے سے نمودار ہوئے تو رشتے داروں اور دوستوں نے انھیں پھولوں سے لاد دیا۔مٹھائی کھلائی گئی اور آشیر واد لینے کے لیے ان میں سے ہر ایک کے پاؤں بھی چھوئے گئے۔
لگ بھگ اسی وقت وزیرِ اعظم نریندر مودی مغلوں کی وراثت لال قلعے کی فصیل پر کھڑے ہو کر قوم سے خطاب میں کہہ رہے تھے کہ بھارت کو ترقی دینی ہے تو پھر ملک کی نصف آبادی یعنی عورتوں کو واجب عزت و احترام اور برابری کے مواقعے پہلے دینے ہوں گے۔ (تالیاں)۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)