دین سیاست سے جدا نہیں
یہ کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ مدبر و تنظیم کرنے والے کے کارکن ہوکر اپنے اوپر غیر سیاسی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں
دور حاضر میں ہماری معتبر مذہبی تحریکیں۔ علماء و مشائخ اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرکے بیٹھ گئے ہیں اور اپنے اوپر غیر سیاسی کا لیبل چسپاں کردیا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین سے سیاست کب جدا ہے؟
اگر دین کو سیاست سے الگ کیا جائے تو وہ ظلم و جبر ، لوٹ کھسوٹ ، ناانصافی ، بے اعتدالی و بد عنوانی کے سوا کچھ نہیں رہے گی اور یہ خونخوار معاشی درندے آزاد اور وحشی ہوجائیں گے اور اپنی من مانیاں کرتے پھریں گے اور معاشرے کو گمراہی و ذلالت کی تاریکیوں میں لے ڈوبیں گے، جیسا کہ آج ہے۔ اوپر چند سو لوگ ہیں اور نیچے کروڑوں عوام ہے ، اگر اوپر چند سو کو قابو کر لو گے تو کروڑوں کو قابو کرنا آسان ہے ، اگر یہ چند سو سدھر جائیں اور دینی اصولوں کے مطابق چلیں اور اس کے مطابق قوانین ترتیب دیں تو معاشرہ کو سدھارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔
سیاست سے دور رہ کر علماء جتنی کوششیں کرلیں وہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کرسکتے۔ حکمرانی کے بغیر معاشرے کو برائیوں سے کیسے بچاؤ گے ؟ جب تک ذلالت و گمراہی کے مراکز، معاشرتی تباہ کاریوں اور بد اخلاقیوں پر اعلیٰ سطح سے پابندی نہ لگے اور سخت قوانین نہ بنیں۔ نیچے سے لاکھ کوششیں کرلیں ان کو روک نہیں پائیں گے۔ مذہبی اصولوں پر چلنے اور چلانے میں حکومت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کو جزا و سزا کا قانون نافذ کرنے والی کہا جاسکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جس حد تک پستی میں جاچکا ہے ، اب اسے سیدھا کرنے کے لیے صرف ڈنڈا ، سخت قوانین کا شکنجہ سیدھا کرسکتا ہے۔
آج کتنی جماعتیں تبلیغ کررہی ہیں ؟ کتنی تحریکیں ، کتنی تنظیمیں ، کتنے گروہ اور ٹولے معاشرہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن کیا معاشرہ کی اصلاح ہورہی ہے؟ کیا معاشرہ گمراہی و ذلالت کی پستیوں سے نکل کر فلاح، نیکی اور پاکیزگی کی طرف گامزن ہے؟ سوچیں ، غور و فکر کریں۔ ایسا سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہو رہی؟ ہمارا معاشرہ کیوں کر تیز رفتاری سے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گرتا جا رہا ہے؟ سوچیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ قول یاد رکھیں۔
جلال بادشاہی ہوکہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اسلام دنیا کا یگانہ مذہب ہے جس نے بنی نوع ا نسان کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ دینی، مذہبی، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی ، اقتصادی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فلاح و کامیابی کا ایک ایسا جامع رہنما اصول دیا ہے جس پر چل کر ہم دین و دنیا دونوں جہاں میں کامیاب و کامران ہوسکتے ہیں۔ اسلام نے کبھی بھی دین و دنیا کی تفریق کو روا نہیں رکھا۔ اس کی نظر میں دنیاوی کام بھی اگر شریعت کی روشنی میں انجام دیے جائیں تو وہ بھی دین ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر ملے گا ، اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست تدبیر وحکمت اور تنظیم کا نام ہے جو افراد معاشرہ کی فلاح عامہ کے لیے کام کرتی ہے۔
بہتر تدبیر و انتظام اور جامع حکمت عملی سے معاشرہ کو ایسے اصولوں پر گامزن کرنا جو ریاست مدینہ کے اصول تھے۔ اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ ایک ایسی مضبوط اور لاثانی سیاسی قوت میدان عمل میں ہو جو انسانوں کے عام فائدے۔ عام بہتری اور عام تنظیم کے لیے ہو جس میں تمام افراد معاشرہ کو یکساں حقوق دیے گئے ہوں، کسی پر ظلم نہ ہو۔ کسی کا حق نہ دبایا جائے۔ کمزوروں کو نہ ستایا جائے۔ کوئی شخص اپنی طاقت ، مال و جاگیر اور رعب کے نشے میں کسی کمزور پر ظلم و جبر نہ کرسکے۔
کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ سبھی کے ساتھ مکمل انصاف ہو۔ ہر ایک کی عزت و آبرو کا احترام کیا جائے ، حکومت تمام افراد کی جان و مال، عزت وآبرو کی محافظ اور نگراں ہو۔ سبھی لوگوں کی طبعی ضرورتیں پوری ہوں ، خوراک و لباس کی تنگی نہ ہو ، رہن سہن دشوار نہ ہو ، کسی پر زندگی تنگ نہ ہو۔ تعلیم، صحت، روزگار کے انتظامات سبھی افراد معاشرہ کے لیے ایک جیسے ہوں۔
مالیانے کی جمع اور مستحقین میں تقسیم، غریبوں اور بے کسوں کی خبر گیری، قرض دار کے قرضوں کی احسن ادائیگی ، بے گھروں کے لیے رہائش کا اہتمام، بیواؤں کی نگرانی الغرض ہر وہ کام جسے سیاسی قرار دے کر دین سے جدا کردیا گیا اور جس سے علما ء بھی دستبردار ہوگئے اور اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا وہ اسلامی تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اسے انبیاء و علماء ہی سرانجام دیتے رہے ہیں۔
اللہ کے تمام انبیاء و مرسل خود یہ ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ ایک مسلمان کسی ایسے سیاسی نظام کو نہیں اپنا سکتا جو مذہب کی بندش سے آزاد ہو یعنی دین کے بغیر ہم مسلمان کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے، وہ معاشرت ہو یا سیاست یا تجارت۔ اسلام کا حکومت و قیادت اور سیاست سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ مذہب۔ سیاست و حکومت کے تعلق کو ثابت کرتا ہے۔
اللہ کریم کا زمین پر انبیاء بھیجنے کا مقصد صرف زمین تک۔ زمین کے باسیوں تک اپنا پیغام پہنچانا نہیں تھا بلکہ انھیں بھیجنے کا اصل مقصد زمین پر خدا کے احکامات کا عملی طور پر نفاذ کرنا اور کروانا تھا۔ منکرین کے خلاف ٹکر لینا تھا ، خدا کا قانون زمین پر رائج کرنا تھا اور سیاست سے دور رہ کر نفاذ اور راج ممکن ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر سیاسی نہیں تھے۔ کیا کسی حکمران کا کارکن غیر سیاسی ہوسکتا ہے؟ کیا کسی بادشاہ کے متوالے غیر سیاسی ہوسکتے ہیں ؟ کائنات کا سب سے بڑا بادشاہ کون ہے؟
کائنات کا سب سے بڑا مدبر، تدبیر و انتظام کرنے والا کون ہے؟ یہ کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ مدبر و تنظیم کرنے والے کے کارکن ہوکر اپنے اوپر غیر سیاسی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں۔ یہ اس سب سے بڑے بادشاہ کے کارکن ہوکر اس کی کائنات میں اس کے احکام رائج کرنے کی سیاست نہیں کرتے۔ احادیث مبارکہ اور ان کی تشریحات میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاست انبیاء اور علما ء کا وظیفہ ہے۔