پیٹ کا دوزخ
انسان پاپی پیٹ کے لیے کیا کچھ کر گزرتا ہے، کہیں عہد شکنی، کہیں جھوٹ، کہیں کرپشن تو کہیں لالچ و حرص
'' بھئی ہمارے یہاں تو کھانا زندگی ہے، کھانے کے ذائقے میں ذرا سا انیس بیس ہو جائے تو سب کا منہ بن جاتا ہے اور کھانا بھی چھوڑ دیا جاتا ہے، اس لیے ہمارے یہاں تو کھانے بڑے دھیان سے بنائے جاتے ہیں۔'' وہ ایک خاصی پڑھی لکھی لیکن روایتی خاتون ہیں جو فل ٹائم نوکری کرنے کے باوجود اپنے گھر والوں کے کھانوں کے بارے میں بہت حساس ہیں۔
اچھا کھانا بنانا اورکھانا ہماری روایات کا حصہ بن گئے ہیں، ماضی میں جھانک کر دیکھیے کھانا پکانا ایک ایسا حساس ہنر ہے کہ جس کی بدولت بڑے بڑے امرا ، بادشاہ ، راجا اور نوابین کے معدے میں اترکر بات منوائی گئی ہے۔ ویسے بھی یہ تو سن رکھا ہے کہ اچھی بیوی وہی ہوتی ہے جو شوہر کے دل میں اترتی ہے لیکن یہ بھی سن رکھا ہے کہ جو معدے سے ہوتی ہوئی دل میں اترتی ہے۔
مغل بادشاہ کھانوں کے اہتمام کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں ، ان میں بہادر شاہ ظفر کا نام سرفہرست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دسترخوان پر ایرانی ، افغانی، ترکی اور ہندوستانی کھانے چنے جاتے تھے۔ تیتر ، مچھلی اور ہرن کے کبابوں کے علاوہ سالن ، مختلف قسم کی دالیں ، کھانڈوی، پلاؤ اور طرح طرح کی مٹھائیاں تو روزمرہ میں شامل تھیں۔ ان کے روز کے باورچی خانے کا خرچہ ایک ہزار روپے ہوا کرتا تھا۔ ذرا غور کیجیے سترہویں صدی میں ایک ہزار روپے کی کیا قدر تھی۔
برصغیر میں مزے مزے کے کھانے، چٹ پٹے اور مرغن ہوتے ہیں، ان کو بنانے کے طریقے بھی علاقوں کے حوالے سے مختلف ہوتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کھانا بنانے کے طریقے مسلمانوں میں بہت منفرد اور کھانے میں لذیذ ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
قرون وسطیٰ تک برطانیہ میں ابلی سبزیاں ، ڈبل روٹی ، مچھلی پنیر، روسٹ کیا ہوا گوشت وغیرہ ہی کھایا جاتا تھا۔ مغرب میں زیادہ تر کم مسالے اور کم نمک مرچ کی بدولت ایسے کھانوں کو برصغیر کے کھانوں کی بدولت پھیکا سمجھا جاتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں بھی کھانوں میں جدت پیدا ہوئی لیکن جناب ! برصغیر کے کھانوں کی تو بات ہی کیا ہے۔
'' نوشہ شاہ جہانی'' فارسی زبان میں مغلوں کے کھانوں کی تیاری پر مشتمل یہ کتاب جسے سلمیٰ حسین نامی ایک مصنفہ نے انگریزی میں ترجمہ کیا، اس طرح اس دور کے کھانوں کی تراکیب جو بادشاہوں ، امرا اور نوابین تک محدود تھیں اب عام لوگوں میں بھی پہنچ گئیں۔ اس دور میں پلاؤ کس طرح کس ترکیب سے بنا کرتے تھے، دعوتیں کیسے سجتی تھیں، مینو کیسے ترتیب دیے جاتے تھے یہ سب جو تاریخی میراث میں شامل تھے اور ایک طویل عرصے تک نظر انداز کیے گئے تھے ، دوبارہ سے حال میں شامل ہو گئے، مغلوں کے کھانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے اجزا بہت مرغن ہوتے تھے لیکن پکانے والوں کی ٹیم اطبا کی مدد سے اس بات کا بھی خیال رکھتی تھی کہ نت نئے کھانوں اور ان کی ترکیب میں ایسے اجزا کا میلاپ نہ ہو جو مضر صحت ہوں۔
منشی فیض الدین شاہی اپنی کتاب '' بزم آخر'' میں باورچی خانے کے حوالے سے لکھتے ہیں '' ہندوستان میں مغل حکمرانوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ شاہی باورچی خانے سے امرا اور درباریوں کے ہاں کھانا بھیجا کرتے، جو تورہ کہلاتا تھا۔ توری بندی میں رنگ برنگ کے پلاؤ، بریانی، متنجن، زردہ، فیرنی، یاقوتی، نان، شیرمال، خمیری روٹی، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، میٹھے سلونے سموسے، کباب، پنیر، قورمہ، سالن، بڑے بڑے لاکھی طباق، رکابی، طشتری میں لگا آم کا اچار، بریانی کے طباقوں پر مانڈے ڈھک اوپر کھانچی رکھ ، کسے کس ، تورے پوش ڈال، بگھیوں میں بھیج رہے ہیں۔ بائیس خوانوں سے زیادہ دو سے کم تورہ نہیں ہوتا، جیسی جس کی عزت ہے اتنے ہی خوانوں کا تورہ چوب دار گھر گھر بانٹتے پھرتے۔''
اس قدر کے لذیذ اور مرغن کھانوں کے نام دیکھ کر ہی کھانے کو دل للچاتا ہے تو جن کو یہ میسر ہوا کرتے تھے ان کے کیا حال تھے۔ اس سے ایک بات اور بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کھانے پینے پر کس قدر خرچ کیا جاتا تھا اور اپنی شان دکھانے کے لیے بھی کس قدر بانٹا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغلیہ دور میں عوام اس قدرکی سیاسی نہ تھی اپنے بادشاہوں سے محبت کرتی تھی۔
یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط بڑھ رہا تھا اور ہمایوں کے مقبرے میں بادشاہ کو انگریزوں سے صلح کے لیے کہا گیا تھا ، حالات بادشاہ کے قابو میں نہ تھے، بس نام کے ہی بادشاہ رہ گئے تھے، صلح کو ہتھیار ڈالنے کے دوسرے معنوں میں استعمال کیا گیا اور کہا گیا کہ '' صلح کر لیجیے کیوں کہ اس سے آپ کی پلاؤ کی طشتری کہیں نہیں جائے گی۔'' اور پھر یہ مکالمہ تاریخ کا حصہ بن گیا کہ سلطنت ہند کی قیمت ایک پلاؤ کی طشتری ٹھہری۔
بات کھانوں سے ہوتی ہوئی پھر سلطنت پر آ کر ٹھہر گئی کہ انسان پاپی پیٹ کے لیے کیا کچھ کر گزرتا ہے، کہیں عہد شکنی، کہیں جھوٹ، کہیں کرپشن تو کہیں لالچ و حرص اور اس طرح اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرتے بھرتے ایک دن خود بھی جہنم رسید ہو جاتا ہے۔
اگست کا مہینہ آزادی کا مہینہ ہے، اسی مہینے ہم نے ایک آزاد ریاست حاصل کی تھی پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اسے باجوں، گانوں اور ناچ کی موج مستی میں منا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے چودہ اگست بڑے دھوم دھام سے منایا ہے، تقریبات منعقد ہوتی ہیں، کیک کٹتے ہیں، بات موج مستی سے پیٹ تک پہنچ جاتی ہے اور یہ دن بھی ہر دن کی طرح گزر جاتا ہے، پچھتر برس بعد بھی ہم ایک مضبوط انفرا اسرکچر نہیں بنا سکے، ہم جو جرمنی، چین اور جاپان کو قرضے دیتے تھے آج پریشان حال ہیں۔ یاد رکھیے ہم اس امت سے تعلق رکھتے ہیں جو پیوند زدہ کپڑوں میں بھی دور دراز علاقوں پر حکمرانی کرتے تھے، سادہ، روکھا سوکھا جو مل گیا کھا لیا، عیش و عشرت اور تساہل پسندی انسان سے آزادی و حمیت کا جذبہ چھین لیتی ہے بس یہ یاد رہے۔