گاندھی جی کی روح کا اعتراف
میرے قاتل گوڈسے کو بھارتی قوم کا نجات دہندہ کہا جانے لگا ہے اور مجھے بھارت کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے
میں موہن داس کرم چند گاندھی ہوں۔ میں بہت دکھی ہوں، کبھی میری جنتا پیار سے مجھے مہاتما گاندھی کے لقب سے پکارتی تھی۔ آج اسی بھارت میں میری وہ بے عزتی اور ناقدری ہو رہی ہے کہ کیا بتاؤں؟
میں نے ہندوستان کی آزادی اور اسے ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے بڑی جنگ لڑی۔ میں گجراتی ہوں ، ہم لوگ بزنس میں ماہر ہوتے ہیں، مگر میں نے اپنے خاندانی پیشے سے ہٹ کر وکالت کرنے کو ترجیح دی۔ میری ماتا میرے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے خلاف تھی مگر میں وہاں چلا گیا۔ میں وہاں ماں کی نصیحت کے مطابق گوشت ، شراب اور ناریوں سے دور رہا۔ وہاں سے بیرسٹری کی اور پھر ہندوستان لوٹ آیا۔ یہاں وکالت شروع کی مگر چل نہ سکی چنانچہ جنوبی افریقہ چلا گیا۔ وہاں میری وکالت چلی اور خوب چلی۔
وہاں کے مقامی لوگوں سے انگریزوں کے حقارت آمیز رویے پر مجھے بہت دکھ ہوا۔ ہندوستان میں ان کا ایسا برتاؤ ہندوستانیوں کے ساتھ نہیں تھا۔ افریقی لوگوں کی توہین پر آواز اٹھانے پر وہ میرے بھی خلاف ہوگئے اور مجھے بے عزت کرنے لگے ان کا یہ رویہ جب زیادہ بڑھا تو میں وطن واپس جاکر اپنے لوگوں کو انگریزوں سے آزادی دلانے کا سوچنے لگا۔ پھر میں ہندوستان واپس آگیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے یہاں پہلے سے چل رہی تحریک سے جڑ گیا۔
پہلے کانگریس پارٹی کا آفس سیکریٹری بنا اور پھر جلد ہی اپنے میٹھے لہجے ہوشیاری اور جان دار بھاشنوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اترتا چلا گیا اور پھر مہاتما گاندھی بن گیا۔ بھارت کی آزادی کے لیے میں نے جو طریقہ اختیار کیا اسے انگریزوں نے بھی پسند کیا کیونکہ میں جیل جانے کے باوجود بھی ان کے لیے سخت نہیں تھا۔ اس وقت اصل مسئلہ مسلمانوں کا تھا۔ میں دراصل انھیں ملا کر آزادی لینا چاہتا تھا کہ دیش نہ ٹوٹنے پائے مگر افسوس کہ میرا سارا کھیل آر ایس ایس اور مہاسبھا نے خراب کردیا۔ وہ انگریزوں کے کہنے میں آ کر مسلمانوں کو اپنا جانی دشمن سمجھنے لگے اور انھیں ہندوستان سے باہر نکالنا چاہتے تھے مگر یہ بے وقوفانہ سوچ تھی۔ آخر مسلمانوں کو ان کے جارحانہ رویے نے ہوشیار کردیا۔
ان مسلمان دشمن گروہوں کے مسلمانوں کے خلاف ناپاک منصوبوں نے مسلمانوں کو اپنی صف بندی کرنے اور متحد ہونے پر مجبور کردیا۔ مسلمانوں کی بے چینی اس وقت حقیقت میں بدل گئی جب انھوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا اور ان کے نبیؐ کی توہین میں کتابیں لکھنا شروع کردیں۔ میں نے اپنی کوششوں سے کئی مسلم لیڈروں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور وہ ہمارے ساتھ ہندوستان کی آزادی کے لیے کانگریس کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہے تھے۔ ان میں سب سے نمایاں مولانا ابوالکلام آزاد تھے جو مسلمانوں کے مذہبی رہنما بھی تھے۔
مسٹر جناح بھی پہلے ہمارے ساتھ کانگریس میں تھے۔ کانگریس کے کچھ ہندو رہنما مہاسبھا اور آر ایس ایس سے بھی درپردہ تعلقات رکھتے تھے۔ جناح ان کے برتاؤ سے تاڑ گئے تھے کہ کانگریس اور مہاسبھا آر ایس ایس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہماری کانگریس کا ایک لیڈر جو ہمارے گجرات سے ہی تھا مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا اور یہ بات مجھے معلوم بھی تھی مگر میں اسے نہرو کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
یہ ولبھ بھائی پٹیل تھا جو مجھے بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا تھا مگر میں اسے کہتا تھا کہ ابھی خاموش رہو، ابھی ہندوستان کو ٹوٹنے سے بچانا ہے اس کے لیے ہمیں مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کی دل جوئی کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نہرو سے بہت خوش تھا کیونکہ وہ میرے پلان کے ساتھ چل رہا تھا اور مسلمانوں کو سبز باغ دکھانے میں مصروف تھا۔
جب علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کردیا تو مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں اپنے مستقبل پر غور کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مسٹر جناح نے کانگریس چھوڑ دی اور مسلم لیگ میں شامل ہوکر تقسیم ہند کا نعرہ بلند کردیا۔ پھر 1940 میں انھوں نے لاہور میں ہندوستان کے تمام صوبوں سے آئے مسلمانوں کی نمایندہ شخصیات کے سامنے پاکستان بنانے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان سے کانگریس ضرور سکتے میں آگئی مگر مسلمانوں میں پاکستان کی امنگ جاگ اٹھی۔
ادھر مہاسبھائیوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا جنگ چھیڑ دی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان ہر شہر قصبے میں پاکستان کے نعرے لگانے لگے اور ہر مسلمان کی زبان پر تھا کہ ''بٹ کے رہے گا ہندوستان، اور لے کے رہیں گے پاکستان۔'' مجھے پوری امید تھی کہ پاکستان بن بھی گیا تو چل نہیں سکے گا۔ کیونکہ میں نے پاکستان کے خلاف لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور اسے اپنے بجائے بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنانے کا وعدہ کرلیا تھا اس کے ذریعے میں نے پاکستان کو پسماندہ علاقے دینے پر راضی کرلیا اور کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی بات بھی منوالی۔
مجھے پورا بھروسہ تھا کہ پاکستان چل نہیں سکے گا اور اسی لیے میں نے پاکستان اور مسلمانوں کے حق میں بیانات دینا شروع کردیے تاکہ صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ تاثر جائے کہ گاندھی یعنی کہ میں کتنا انصاف پسند اور تمام قوموں سے محبت کرنے والا رہنما ہوں۔ میری یہ چال مہاسبھائی سمجھ نہیں سکے اور وہ میرے دشمن بن گئے اور ان کے ایک رکن ناتھورام گوڈسے نے اس وقت جب میں مسلم اور عیسائی ایکتا کا پرچار کر رہا تھا مجھے گولیوں سے بھون دیا گیا میں مر گیا اور میرا سارا پلان دھرا کا دھرا رہ گیا۔
ادھر پاکستان چل پڑا اور مسٹر جناح کشمیر کا ایک خاصہ حصہ لینے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ میرے مرنے کے بعد میں بھارت کا بابائے قوم قرار دیا گیا۔ ہر دفتر اور دکان میں میری تصویر لگائی جانے لگی۔ میری مورتیاں ہر شہر کے چوراہوں پر نصب کردی گئیں۔ یہی نہیں کئی مندروں میں میری پوجا بھی کی جانے لگی مگر کیا بدقسمتی آئی کہ آگے آر ایس ایس نے کانگریس کو پچھاڑ دیا وہ دہلی کے سنگھاسن پر براجمان ہوگئی۔ اس کا ہندوتوا کا پرچار آج ایسا سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ سیکولر کانگریسی بھی کٹر ہندو بن گئے۔
اب کانگریس کا ہی نہیں میرا بھی حشر کردیا گیا ہے۔ میرے قاتل گوڈسے کو بھارتی قوم کا نجات دہندہ کہا جانے لگا ہے اور مجھے بھارت کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ میں تو جناح کی قوم کو سلام کرتا ہوں کہ اس کے رہنما اگرچہ اکثر باہم دست و گریباں ضرور رہتے ہیں مگر جناح کی قدر و منزلت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی ہے اور لگتا ہے آگے اس کی عزت اور بڑھے گی۔