سچا جھوٹا
یقین نہ ہو تو گھر سے نکل کر سچ بولنا شروع کر دیجیے، یقین تو نہیں کہ آپ صحیح سلامت گھر واپس آجائیں گے
حیدرآباد دکن یاکسی اور ایسی ہی ریاست کے ایک نواب صاحب کا قول زریں ہے، اگر دنیا میں ''بگھارے بینگن'' نہ ہوتے تو زندگی بڑی مشکل ہو جاتی۔
نواب تو نواب ہوتے ہیں، وہ جب چاہیں کسی چیزکی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا سکتے ہیں ورنہ ''بینگن'' کیا اور بینگن کی اوقات کیا لیکن ہم انتہائی سوچ سمجھ کر حالات وواقعات، گواہوں کے بیانات، وکیلوں کے ارشادات کو مدنظر رکھ کر یہ قول زریں ارشاد کرتے ہیں کہ دنیا میں اگر جھوٹ نہ ہوتا تو زندگی مشکل کیا ابھی تک ختم ہوچکی ہوتی، سارے لوگ آپس میں لڑ لڑ کر مر چکے ہوتے اور یہ دنیا ایک بنجر سیارے کی طرح لق ودق ہو چکی ہوتی جیسی کروڑوں سال پہلے ہوا کرتی تھی ورنہ زہریلا سچ تو برداشت سے باہر ہوتا ہے۔
یقین نہ ہو تو گھر سے نکل کر سچ بولنا شروع کر دیجیے، یقین تو نہیں کہ آپ صحیح سلامت گھر واپس آجائیں گے لیکن اگر آبھی گئے ہیں تو دوچار ''دشمنیاں'' بھی ساتھ ہوں گی لیکن آپ ''سچ'' کو الماری میں بند کر کے اور جھوٹ لے کر کے نکلیں گے تو سب سے پہلے جب پڑوسی سے ملاقات ہو گی تو پہلے تو آپ اسے دوچار مبارک باد دیں گے کہ اس کا لڑکے کی کسی کامیابی پریوں اسے خوش کر دیں گے۔
دفتر میں پہلے چپڑاسی یا دربان سے واسطہ پڑے گا اور وہ تعریف کے لیے بھوکا پیاسا بیٹھا ہوگا، اسے سیراب کر کے دفتر میں ساتھیوں اور پھر افسر اعلیٰ سب آپ سے وہی سننا چاہیں گے جو آپ روزانہ کہتے ہیں، نتیجے میں آپ گھر لوٹیں گے تو نہ صرف خوش وخرم بلکہ لدے پھندے ہوں گے اور اگر آپ ''سچ'' کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہیں تو سب سے پہلے تو یقیناً بیوی سے تو تڑاک بلکہ ممکن طلاق تک ہو جائے ،مطلب یہ کہ اس دنیا میں ہر کسی کا کوئی ہمدرد، دوست یا خیرخواہ ہے تو وہ یہی بابرکت جھوٹ ہے اور اگر کوئی شدید دشمن ہو سکتا ہے تو وہ سچ ہے جو لوگ سچ سے پرہیز رکھتے ہیں اور جھوٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ ہر لحاظ سے عافیت اور راحت میں رہتے ہیں۔
اس لڑکے کا قصہ تو آپ نے سناہی ہو گا جو سچ بولتا تھا اور روزانہ کسی نہ کسی سے پٹ کر آتا تھا۔ ایک دن ماں نے اس سے پوچھا، لوگ آخر تجھے کیوں مارتے ہیں؟ بیٹے نے کہا، ماں! میں سچ بولتا ہوں اس لیے۔ اس پر ماں نے لوگوں کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا، یہ لوگ بڑے برے ہیں، بھلاسچ بولنے سے بھی کوئی برا مانتا ہے۔ بیٹے نے کہا، یہ سچ ہے ہی ایسی چیز۔ اگر میں نے آپ سے بھی سچ کہا تو آپ بھی برامان جائیں گی۔ ماں نے کہا، خدا نہ کرے جو میں سچ کا برا مانوں، کہو۔ بیٹا بولا، ماں! ذرا بتائو میرے باپ کو مرے ہوئے سالہاسال ہو گئے، میں جوان ہو گیا اور آپ بوڑھی ہو رہی ہیں تو پھر یہ اتنا بنائو سنگھار تم کس کے لیے کرتی ہو؟ ماں نے سنا تو آگ بگولہ ہوئی، چولہے سے جلتی ہوئی لکڑی کھینچ کر بیٹے کو مارنے دوڑی۔
اکثر لوگ جھوٹ اور جھوٹ والوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن سراسر جھوٹ کہتے ہیں، جھوٹ، بولنے والے نہیں بولتے بلکہ سننے والے ان سے ''بلواتے'' ہیں، وہ چونکہ جھوٹ سننا چاہتے ہیں، اس لیے بولنے والے وہی کہتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں، آپ کسی بدصورت ترین شخص کو بھی ذرا بدصورت کہہ کر دیکھیں، اگر وہ'' چندے کوا اور چندے توا'' بھی ہو تو آپ سے چندے آفتاب، چندے مہتاب سننا چاہتا ہے، اگر بولنے والا سننے والے کا حاجت مند بھی ہو یعنی وزیر ہو، مشیر ہو، افسر ہو، منتخب نمایندہ ہو۔
ایک مرتبہ ایک وزیر سے ہماری بات ہوئی جو ہمارا لنگوٹیا یار بھی رہا تھا، وہ اپنی تعریف میں بول رہا تھا کہ میں خود کو کسی قابل نہیں سمجھتا لیکن سارے لوگ کہتے ہیں کہ میں فلاں ہوں، میں فلاں ہوں، میں... ہم نے اس سے پوچھا، یہ کون لوگ ہیں۔ بولا، جو مجھ سے ملنے آتے ہیں۔ ہم نے کہا، ذرا ان لوگوں کی بھی کبھی سنو، جو تم سے ملنے نہیں آتے۔ یا پھر وزیری ختم ہونے کے بعد ان لوگوں کو سنو جو تم سے ملنے آتے ہیں۔
کہتے ہیں کسی علاقے میں ایک شخص کی شہرت جھوٹے کے طور پر ہوئی، علاقے بھر میں اس کے چرچے ہو گئے کہ اس سے بڑا جھوٹا اور کوئی نہیں ہے، ایک دن کسی دوسرے گائوں سے ایک بڑھیا اس جھوٹے کے گائوں آگئی تو اس جھوٹے سے ملنے کی خواہش ہوئی کہ دیکھوں تو سہی کہ دنیا کا مشہور جھوٹا کیسا ہے؟پوچھتے پوچھتے اس کے پاس پہنچ کر بولی، وہ سب سے بڑے جھوٹے تم ہو۔ جھوٹے نے بڑھیا پرنظر ڈالی تو انتہائی بدصورت تھی۔ رنگ تو کالا تھا ہی چہرے پر موہکے اور بڑے بڑے سیاہ جھریوں کا جنگل تھا، ایک آنکھ چھوٹی، دوسری بڑی، ناک جیسے کسی نے منیڈک چپکایا ہو۔
جھوٹے نے اسے دیکھا، سنا اور جواب دیا، اے خوبصورت لڑکی، تم کہاں سے آئی ہو۔ تم کوئی شہزادی یا پری تو نہیں یا مقابلہ حسن کی مس ورلڈ تو نہیں ہو۔ اگر ابھی تک کنواری ہو تو میں کہتا ہوں، ڈو یو میری می۔ بڑھیا شرماتے لجاتے اور خوشی سے نہال وہاں سے چل پڑی اور راستے میں اسے جو بھی ملتا، اس سے کہتی، لوگوں نے ناحق اس بیچارے کو جھوٹا مشہورکیا ہوا ہے، میں نے تو آج تک اس سے سچا اور کھرا آدمی کوئی اور نہیں دیکھا ہے۔