ریت کے جہنم میں موت کا رقص
صحرائے تھرمیں پینے کا صاف پانی نایاب، بیمار پڑیں تو دوا دارو مشکل، سفر کرنا ہو تو عذاب۔۔۔بس، زندگی بوجھ ہے۔
صحرائے تھر میں زندگی کی تہمت لیے خلق خدا سسکتی ہے۔ فوٹو: فائل
تھر میں ریت پر زندگی کو سسکنے، بلکنے اور دم توڑنے کے سیکڑوں بہانے میسر ہیں اور وہاں ہزاروں جتن کے باوجود لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں۔
دن بھر کی مشقت بھی ایک وقت کی روٹی مشکل سے دیتی ہے، پینے کا صاف پانی نایاب، بیمار پڑیں تو دوا دارو مشکل، سفر کرنا ہو تو عذاب۔۔۔بس، زندگی بوجھ ہے۔ تھرپارکر دنیا سے الگ تھلگ کوئی علاقہ نہیں۔ یہ صوبۂ سندھ کا ضلع ہے۔ یہاں سے عام انتخابات میں سیاست داں کام یاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور مقامی انتظامیہ بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود آج بھوک سے انسان اور جانور بھی زندگی ہار رہے ہیں۔ غذائی قلت اور بیماریوں نے ڈیڑھ سو سے زاید معصوم بچوں کو موت جیسی آسانی فراہم کردی ہے۔ تھر کی ریت میں بچوں کے ساتھ ماؤں کے آنسو بھی دفن ہو رہے ہیں۔ پچھلے تین ماہ سے صحرا میں موت کا رقص جاری ہے، مگر اقتدار کے ایوانوں میں ثقافت کا جشن بپا تھا، حکم راں اس شور میں موت کی بھیانک آوازیں نہ سن سکے۔
صحرائے تھر میں زندگی کی تہمت لیے خلق خدا سسکتی ہے۔ وہاں زمینی خدائوں کی بادشاہت قائم ہے، اور انسان کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں۔ ستم رسیدہ تھری روزگار، علاج معالجہ اور مناسب رہائش کو ترستے ہیں۔ یہاں زندگی بوجھ ہے، بلاشبہہ بوجھ۔
تھرپارکر کا صدر مقام مٹھی ہے۔ اس کا رقبہ 19638 مربع کلومیٹر اور 1998کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 955812 ہے۔ اس میں سے صرف 4.54 فی صد ہی شہروں میں مقیم ہے۔ ڈیپلو، چھاچھرو، مٹھی، ننگرپارکر تھرپارکر کی چار تحصیلیں ہیں۔ اس کے شمال میں میرپور خاص اور عمرکوٹ، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ ہے۔ 1990 تک عمرکوٹ اور میرپورخاص کے اضلاع ضلع تھرپارکر کا حصہ تھے، جس کا صدر مقام میرپورخاص شہر تھا۔ 31 اکتوبر 1990کو اسے دو اضلاع میرپور خاص اور تھرپارکر میں تقسیم کر دیا گیا۔ عمرکوٹ کو 17 اپریل 1993 کو ایک الگ ضلع بنایا گیا۔ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے اور بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔ صحرائی علاقے تھر کو اکثر قحط کا سامنا رہتا ہے۔ اس علاقے کی لاکھوں کی آبادی کا گزر بسر مال مویشیوں یا بارانی زراعت پر ہوتا ہے۔ مال مویشیوں کو بچانے کے لیے قحط کے دوران لوگ بیراجی علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی دور میں متوقع مہینے میں بارشیں نہ ہونے پر علاقے کو سرکاری طور پر قحط زدہ قرار دے کر تمام ٹیکس معاف کر دیے جاتے تھے۔ حکومت تھری باشندوں کو رعایتی قیمت پر گندم بھی فراہم کرتی تھی۔
تھر، جسے ریت کا جہنم کہیں، اور اس کے باسی، مظلوم باسی، صدیوں سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں انسان اور جانور ایک سے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ جانوروں کی قیمت زیادہ ہی ہے اور انسان سستا۔
تھر پار کر کا موسم خشک اور انتہائی گرم ہے۔ یہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہے، گرم ریت، جو گرمی کے موسم اور تیز ہواؤں میں صحرا کے باسیوں کی زندگی مزید مشکل بناتی ہے۔ تھر کے شدید گرم موسم نے انسانوں کو جھلسا کے رکھ دیا ہے اور اپنے نقوش ان کے چہروں پر ثبت کردیے ہیں۔ تھر میں جلد اور پیٹ کے امراض عام ہیں اور تھری ان امراض کو بھگتنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ سرکاری اسپتال برائے نام ہی ہیں اور جو ہیں، ان میں دوائیں اور ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اس ریت کے دوزخ میں کوئی طبیب آنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھریوں کا موت کے منہ میں جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر آپ کسی تھری کو دیکھیں تو آپ کو ان پر کسی پتھر کے بت کا گماں ہوگا، بس اس فرق کے ساتھ کہ بت حرکت نہیں کرتا اور تھری اپنے پیٹ کا جہنم سرد کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ ذرایع آمد و رفت اونٹ اور دوسرے جانور ہیں۔ ریت کی وجہ سے یہاں کوئی عام گاڑی نہیں چل سکتی۔ یہاں پرانے زمانے کا جی ایم سی ٹرک جسے مقامی زبان میں کیکڑا کہا جاتا ہے، عوام کی آمد ورفت کا واحد ذریعہ ہے، جس کا کرایہ انتہائی زیادہ ہے۔
اس کیکڑے کی پیٹھ پر انسان، جانور اور اجناس ایک ساتھ لدی ہوتی ہیں۔ دشوار راستوں اور دوری کی وجہ سے یہاں اشیائے صرف انتہائی منہگی ہیں۔ کراچی میں پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی فی لیٹر جو قیمت ہے، تھر میں وہی پندرہ سے بیس روپے منہگا ہے۔ تھر میں زندگی کا دارومدار بارش پر ہے جو بہت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے زراعت برائے نام ہے۔ اگر بارش ہوجائے تو یہاں کے باسی لوبیا اور باجرہ اُگاتے ہیں ۔ اسی فصل سے اپنے جانوروں کا چارہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے تالاب بنائے گئے ہیں، لیکن وہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ تھر میں زیر زمین پانی ڈیڑھ سو فٹ کے نیچے ملتا ہے اور وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ کنویں سے پانی نکالنے کے لیے اونٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔ تھری خواتین میلوں دور سے گدلا پانی لاتی ہیں۔ پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے یہاں کی اکثر خواتین کمر درد اور ریڑھ کی ہڈی کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تھر میں کوئی صنعت نہیں ہے۔ لوگ گھریلو دست کاری اور کہیں کہیں قالین بافی کرتے ہیں، جو مقامی وڈیرے برائے نام قیمت پر خریدتے اور کراچی سمیت بیرون ملک انتہائی منہگے داموں فروخت کرتے ہیں، یوں تھریوں کا استحصال ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ لیکن اکثریت روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ تھر سے سرسبز علاقوں میں نقل مکانی تھریوں کی مجبوری ہے۔ پورا خاندان اپنے مویشیوں کے ساتھ سکھر جسے وہ بیراج کہتے ہیں، جہاں کھجور کی اچھی فصل ہوتی ہے، چلے جاتے ہیں اور درختوں سے کھجور اتارنے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی ان تھریوں کے ساتھ ظلم ہی ہوتا ہے، انہیں انتہائی کم معاوضہ دیا جاتا اور بعض جگہوں پر مقامی وڈیرے انہیں خاندان سمیت قید کر لیتے اور ان سے جبری مشقت لیتے ہیں۔ ان نجی جیلوں کی بابت ہم سب پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ یہاں جبری مشقت کے ساتھ آبروریزی بھی عام سی بات ہے۔ منو بھیل ایک ایسا ہی کردار ہے، جس نے ایک زمیں دار کی نجی جیل سے فرار کے بعد اپنے خاندان کے لوگوں اور دوسرے قیدیوں کو رہائی دلوائی تھی۔ منو بھیل کے معاملے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔ منو بھیل سندھ میں بیگار کیمپ اور نجی جیل چلانے والے زمین داروں اور وڈیروں کا پہلا اور آخری شکار نہیں ہے، لیکن ان گنے چنے لوگوں میں سے ہے، جو ظلم کے سامنے ڈٹ گئے۔
فراہمیِ آب تھرپارکر کا سب سے بڑا اور گمبھیر مسئلہ ہے۔ ضلع کا مجموعی رقبہ 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں سالانہ نو ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو قحط کا سامنا رہتا ہے۔ یہاں صرف پانچ فی صد لوگوں کو مہینے میں دو سے تین بار میٹھے پانی کی سہولت میسر آتی ہے، وہ بھی صرف تعلقہ مٹھی کے لوگوں کو، جو تھرپارکر کا صدر مقام ہے۔ زیر ِزمین پانی کے ذخائر آلودہ ہیں اور ان کا استعمال مضر ِصحت ہے۔ اس کے باوجود دور دراز کے علاقوں میں لوگ یہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بعض لوگ پانی کو ریت کی مدد سے صاف بنانے کا صدیوں پرانا طریقہ آزماتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کو نتھار کر بھی صاف کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ انہیں مہلک بیماریوں اور دیگر امراض سے نہیں بچا سکتا۔ بس، یہ ہے کہ ان کے حلق میں پانی چلا جاتا ہے۔
غربت کے ساتھ تھری تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ ضلع کے 4081 اسکولوں میں سے 480 بوائز اور 175گرلز اسکول بند ہیں۔ اسکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں، چار دیواری اور باتھ روموں کے ساتھ سیکڑوں اسکول پینے کے پانی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ اسکولوں میں فرنیچر نہیں ہے۔ اکثر اسکول مقامی وڈیروں کے ذاتی استعمال میں ہیں، جنہیں انہوں نے اپنی اوطاق بنایا ہوا ہے۔
برسات، تھر کے لیے زندگی کی علامت ہے۔ برسات میں ہر جگہ خوشی کے گیت گائے جاتے اور تھری بے خود اور مست ہوکر ناچنے لگتے ہیں ۔ بارش ان کا عشق ہے۔ مگر خوشی کے یہ لمحے کم ہی تھری عوام کے جیون میں آتے ہیں۔ تھر پارکر کو ماضی میں کئی مرتبہ آفت زدہ قرار دیا گیا۔ یہاں اقوام متحدہ اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں بھی خشک سالی سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لیے متحرک رہی ہیں۔ مگر مقامی منتخب نمائندے کبھی یہاں کے لوگوں کی زندگی بدلنے میں سنجیدہ نہیں رہے۔
تھر پر ارباب خاندان کا راج رہا ہے۔ ارباب خاندان کے نمایندے ہر عام الیکشن میں مقامی عوام کے ووٹوں سے کام یاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ مگر سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے تھر آج بھی پس ماندہ ہے۔
پچھلے دنوں تھر میں اموات کا ایک بھیانک سلسلہ شروع ہوا، جو اب بھی جاری ہے۔ یوں ایک مرتبہ پھر تھر اور وہاں کے لوگوں کی مفلسی اور اذیت ناک زندگی کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ صحرائے تھر میں شدید ترین قحط سالی ہے، جو وہاں انسانوں اور جانوروں کو فنا کررہی ہے، اور یہ سلسلہ تین ماہ سے جاری ہے، لیکن سندھ کی حکومت اور منتخب نمائندے فیسٹیول کی روشنیوں میں اندھیروں میں ڈوبتے ہوئے تھر کو نہ دیکھ سکے۔ مقامی انتظامیہ بھی اس طرف سے غافل رہی۔ جب ذرایع ابلاغ میں تھر میں موت کے رقص کا ذکر ہوا تو اقتدار کے ایوانوں سے ہم دردی اور امداد کا شور بلند ہوا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تھر کے ہیڈ کوارٹر مٹھی کا دورہ کیا اور چند احکامات بھی صادر کیے۔ تاہم گزشتہ تین ماہ سے ملک کی اسمبلیوں میں کسی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی۔ کنویں اور جھیلوں کے خشک ہونے کے ساتھ تھر کا رہا سہا پانی مضر صحت ہونے کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں۔ اب جیسے جیسے گرمی کا موسم آرہا ہے یہ مسئلہ شدید تر ہو جائے گا، جب کہ خوراک کی کمی نے بھی صحرا میں زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔
اس وقت بچے اور بڑے پیٹ کی بیماریوں اور اس سے پیدا ہونے والی جسمانی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ تھری عوام ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام اور جسمانی معذوری کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب تک لگ بھگ دو سو افراد خوراک نہ ملنے اور بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی زندگی کی جنگ ہار گئے ہیں۔ گذشتہ تین ماہ کے دوران انسانوں کے ساتھ، بہت سی بھیڑیں، بکریاں، گائے اور اونٹ مرچکے ہیں، جو تھری باشندوں کا کُل سرمایہ تھے۔ اس معاشی نقصان کے ساتھ تمام صورت حال نہایت گمبھیر ہو گئی ہے۔ خوراک، رہائش کا مناسب انتظام نہ ہونے اور پھر طبی سہولیات کی عدم دست یابی نے اسے مزید بھیانک بنا دیا ہے۔ مقامی لوگ کسی نہ کسی طرح ضلع کے مختلف سرکاری اسپتالوں تک پہنچ رہے ہیں، لیکن یہاں انہیں مسیحا نہیں مل رہے تو کبھی ادویہ نہ ہونے کی وجہ سے بچے ماؤں کی گود میں دم توڑ رہے ہیں۔
وزیر اعلٰی سندھ نے تھرپارکر کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا۔ اپنے عوام کے حالات سے بے خبر رہنے والے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ضلع میں ساٹھ ہزار گندم کی بوریاں موجود ہیں، لیکن تقسیم نہیں ہوئی ہیں۔ حکومت سندھ تھری عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی اور اس سلسلے میں اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اگر آپ سوال کریں کہ یہ گندم کیوں تقسیم نہیں کی گئی تو اس کا جواب کوئی نہیں دے گا۔ ہاں مٹھی ریسٹ ہائوس میں ارباب اختیار انواع و اقسام کے لذید کھانوں کی خوشبو میں عوام کی بھوک سے موت پر غور ضرور کریں گے۔
تھر قلاش نہیں، زیر زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے سیاہ سونے کے ذخائر کا افتتاح پچھلے ہی دنوں جب وہاں موت کا رقص جاری تھا، وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر زرداری نے کیا تھا ۔ ان کوئلے کے ذخائر کے متعلق پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ تھر کے کوئلے سے آئندہ پانچ سو برس تک سالانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل اور لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے۔
اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ سیاہ سونے کے یہ ذخائر تھریوں کی قسمت بدلیں گے یا تھری اس کوئلے کے جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔