نظام انصاف کی کمزوریاں
یکساں انصاف نظام انصاف کی بنیادی روح ہے۔ ٹارگٹڈ انصاف کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو، اسے پسند نہیں کیا جا سکتا
پاکستان میں نظام انصاف کی کمزوریوں پر بحث و مباحث مسلسل جاری رہتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نظام انصاف کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ دادا کے مقدمے کا فیصلہ پوتا سن لے تو بڑی بات ہے۔ تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے ہمارے نظام انصاف کو نیک نامی نہیں دی ہے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے نظام انصاف کو اپنے اندر اصلاحات لانی چاہیے۔ یہ کام کوئی حکومت نہیں کر سکتی۔ یہ کام عدلیہ کو خود کرنا ہے۔ ماتحت عدلیہ اور ا علیٰ عدلیہ کو مل کر اپنے اندر ایسی اصلاحات لانا ہوںگی کہ مقررہ تاریخ پر عدالتی کارروائی لازمی ہو۔ نئی تاریخ دینے کا باقاعدہ شیڈول ہونا چاہیے۔
اس پر بھی یکساں پالیسی ہونی چاہیے تا کہ سائلین کو علم ہو سکے کہ ان کے مقدمے کا فیصلہ کتنے دن، ہفتے یا مہینوں میں ہو سکے گا۔ جب تمام مقدمات میں تاریخ پر تاریخ کا کلچر بلا رکاوٹ جاری ہوگاجب کہ ایک کیس میں مانیٹرنگ جج ہوگا تو اسے یکساں انصاف کی بنیادی روح کی خلاف ورزی ہی سمجھا جائے گا۔ جب عام مقدمہ کئی سال نہیں لگ سکے گا اور ایک مقدمہ فوری لگ جائے گا تو سوال تو اٹھیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی عدلیہ ضمانت کے مقدمات میں اپنا بہت وقت ضایع کرتی ہے۔ ضمانت کے مقدمات میں ماتحت عدلیہ اور اعلیٰ عدلیہ کا بہت وقت ضا یع ہوتا ہے۔ ضمانت کے لیے بھی عدالتی اصلاحات لازمی ہیں۔ اس سے عدلیہ کا بہت وقت بچ سکتا ہے۔ ضمانت قبل از وقت گرفتاری عدالتی معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ تفتیشی افسر کو ہی پابند کرنا چاہیے کہ ملزم جونہی شامل تفتیش ہو جائے تو اسے ضمانت قبل از گرفتاری دے دی جائے۔ صرف اس صورت میں جب تفتیشی افسر کو ریمانڈ چاہیے تو تب ہی معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔
حالانکہ مہذب ممالک میں تین دن تک کے ریمانڈ کے لیے بھی عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پولیس اور دیگر ادارے تین دن تک کا ریمانڈ خود ہی دیتے ہیں۔ یہ انتظامی معاملہ ہے۔ یہ جیوڈیشل معاملہ نہیں ہے۔ اس کا مقصد عدالت پر سے غیر ضروری بوجھ ختم کرنا ہے۔ اگر کسی کیس میں تین دن سے زائد ریمانڈ چاہیے ہو تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ ریمانڈ کے مقدمات بھی عدالت کا بہت وقت ضایع کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انتظامیہ کو اپنے اندر طریقہ کار بنانا چاہیے۔
شہباز گل کے ریمانڈ کیس میں بھی یکساں انصاف کے بنیادی فلسفہ کی نفی نظر آتی ہے۔ عدلیہ کو کسی بھی صورت تفتیش میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ ریمانڈ کو سیاسی مسئلہ بنانا بھی غلط ہے۔ کیا کسی اہم آدمی کا ریمانڈ قومی مسئلہ بن جائے گا؟ اور کیا عام آدمی کا ریمانڈ اہم مسئلہ نہیں ہوگا؟ کیا تفتیشی افسر کو ملزم کی اہمیت کو دیکھ کر تفتیش کرنا ہوگی؟ عدلیہ کی جانب سے ایسا رویہ ہونا چاہیے کہ تفتیشی افسر ملزم کی اہمیت کی وجہ سے دباؤ میں نہ آئے۔ ایک ہی دفعہ ایسی عدالتی ہدایات دینا چاہیے جو تمام مقدمات میں نافذ ہوں۔
عمران خان کی تین دن کی راہداری ضمانت پر بھی بہت بات ہو رہی ہے۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ یہ حفاظتی ضمانت یکساں انصاف کی بنیادی روح کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق نے ٹوئٹ کیا ہے کہ جب انھوں نے اور ان کے بھائی نے ایسی ہی حفاظتی ضمانت کے لیے اسی عدالت سے رجوع کیا تھا تو ان کو انکار کر دیا گیا تھا، جب کہ عمران خان کو ضمانت دے دی گئی ہے۔ اسی طرح سابق صدر آصف زرداری کے حوالے سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھیں بھی عدالت میں پیش ہونے کے لیے کہا کہا گیا تھا، ذاتی طور پر پیش ہوئے بغیر انھیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ جب کہ عمران خان کو پیش ہوئے بغیر ضمانت دے دی گئی ہے۔
قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ تین دن کی حفاظتی ضمانت کوئی بہت بڑا ریلیف نہیں ہے۔ یہ ایک معمولی نوعیت کا ریلیف ہے لیکن جب ماضی میں ایسے ریلیف دینے سے انکار کیا جاتا رہا ہو تو سوال ضرور اٹھیں گے۔ جب ہر ملزم کو ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہونا لازمی ہو تو ایک کو بغیر پیش ہوئے ضمانت مل جائے تو سوال تو اٹھیں گے۔ اسی طرح سیدھا ہائی کو رٹ آنے پر جب عام آدمی کی درخواست نہیں سنی جاتی اور اسے مجازعدالت جانے کی ہدایت کی جاتی ہے تو کسی ایک کو سیدھا ہائی کورٹ آنے پر ریلیف کیوں دیا جائے۔
یکساں انصاف نظام انصاف کی بنیادی روح ہے۔ ٹارگٹڈ انصاف کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو، اسے پسند نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کی اپیل جلدی لگ جائے اور کسی کی کئی سال نہ لگے۔ جب سب کوبائیومیٹرک کرانے کے لیے پا بند کیا جائے اور ایک کو رعایت دی جائے تو سوال اٹھیں گے۔ کیا عام آدمی کی بائیو میٹرک کے بغیر حفاظتی ضمانت کی اپیل سنی جا سکتی ہے۔ کیا کوئی عام ملزم یہ کہہ سکتا ہے کہ ماتحت عدالت کا جج چھٹی پر ہے، اس لیے میرا کیس ترجیحی بنیادوں پر آپ سن لیں۔
جب ماضی کے وزیر اعظم کو توہین عدالت پر سزا ہو سکتی ہے تو آج جلسوں میں جج کو للکارنے اور دھکمیاں دینے پر سزا نہیں ہونی چاہیے ۔ ماضی میں پارلیمنٹرینز توہین عدالت سمیت دیگر مقدمات میں سزائیں ہوچکی ہیں، لہٰذا قانون کو فالو کرنا ہی انصاف کا تقاضا ہے ۔
نظام انصاف کے سامنے کوئی اعلیٰ و برتر نہیں ہوتا، یکساں انصاف ہی نظام عدل کی بنیاد ہے۔ ماضی میں جب جب یکساں انصاف کی نفی کی گئی ، اس کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد ایڈیشنل سیشن جج کو جلسہ عام میں للکارنے اور دھمکانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں ماتحت عدلیہ کے پاس بھی توہین عدالت کا اختیار ہونا چاہیے۔
یہ کیس اسی ایڈیشنل جج کو سننا چاہیے جس کو دھمکی دی گئی یا اس کی توہین ہوئی ہے۔ ماتحت عدلیہ کی توہین ایک روش بن گئی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وکلا کی جانب سے بھی ماتحت عدلیہ میں ججز کی توہین کی جاتی ہے۔ اس لیے اگر ہم نے ماتحت عدلیہ کا وقار بحال رکھنا ہے تو ہمیں ماتحت عدلیہ کو توہین عدالت کے اختیارات دینا ہوںگے۔ جس جج کی توہین ہوئی ہے، اسے توہین کا کیس سننے کا اختیار ہونا چاہیے۔ یہی انصاف کی بنیادی روح ہے۔