عمران خان کی نا اہلی کتنی دور
عمران خان کے خلاف مقدمات بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن چند مقدمات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں
عمران خان کے خلاف مقدمات بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن چند مقدمات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ جن کی وجہ سے عمران خان مشکل میں نظر آرہے ہیں۔ جب میاں نواز شریف کو نا اہل کیا جا رہا تھا میں نے تب ہی لکھا تھا کہ عمران خان کو میاں نواز شریف کی نا اہلی پر تالیاں بجانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کیونکہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ جب میاں نواز شریف کو نا اہل کیا جا رہا تھا تب عمران خان کی نا اہلی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ میاں نواز شریف کی نااہلی پر تالیاں بجانے والے عمران خان دراصل اپنی نااہلی کی بنیاد پر خوشی منا رہے تھے۔ اسی لیے کہتے ہیں دشمن مرے تو خوشی نہ کرو اپنی بھی باری آنی ہے۔
اور اب اپنی باری آنے کا موقع آگیا ہے۔ اس لیے کل عمران خان میاں نواز شریف کی نااہلی پر تالیاں بجا رہے تھے آج میاں نواز شریف اور باقی سب عمران خان کی نااہلی پر تالیاں بجائیں گے۔ یہ کھیل تب تک نہیں رکے گا جب تک سیاستدان ایک دوسرے کی نااہلی پر تالیاں بجانا بند نہیں کریں گے۔ بلکہ ایک دوسرے کی نااہلی کا راستہ روکنے کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔
آج عمران خان جن مشکلات کا شکار ہیں ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہے کہ وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ ملک کی سیاسی قوتوں کے ساتھ وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور ملک کی سیاسی قوتیں بھی ان کے ساتھ باتیں کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان آج بھی نیوٹرلز کے تعاون کے ہی خواہاں ہیں۔ وہ آج بھی نیوٹرل کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ وہ ان سے ہی اپنی پالیسی بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ ان سے ہی لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں ملک کی سیاسی قوتوں کے ساتھ ڈائیلاگ کے راستے کھولنے چاہیے۔ لیکن وہ ملک کی سیاسی قوتوں کے ساتھ بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ جہاں بات مرنے مارنے پر جا چکی ہے۔ اس لیے عمران خان کی سیاسی تنہائی ان کی نا اہلی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
کیا عمران خان کی مقبولیت انھیں نا اہلی سے بچا لے گی۔ میں نہیں سمجھتا جب میاں نواز شریف ناا ہل ہوئے تھے تب وہ بھی بہت مقبول تھے۔ مقبولیت ایک بہترین جواز تو ہوتا ہے لیکن مقبولیت نا اہلی کو روک نہیں سکتی۔ عمران خان کے پاس وہ عوامی طاقت نہیں ہے جس سے وہ اپنی نا اہلی کو روک سکیں۔ 25مئی کو یہ ثابت ہو گیا تھا کہ عمران خان کی عوامی طاقت میں ریاست سے ٹکرانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی عوامی طاقت میں ریاست سے ٹکرانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ عوامی طاقت ووٹ کی طاقت تو رکھتی ہے لیکن یہ ریاست سے لڑنے کے قابل نہیں ہوتی۔
نواز شریف کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا ان کی عوامی طاقت بھی ریاست سے لڑنے کے قابل نہیں تھی۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان اپنی مقبولیت سے اپنی نا اہلی کا راستہ روک سکیں گے۔ نا اہلی کا راستہ روکنے کے لیے عمران خان کو جن لوازمات کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان کیسے نا اہل ہونگے۔ چند دن پہلے تک سب کا خیال تھا کہ فارن فنڈنگ عمران خان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ ایک عمومی رائے تھی کہ فارن فنڈنگ ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے عمران خان کو نا اہل کیا جا سکتا ہے۔لیکن پھر توشہ خانہ کیس آگیا ۔ سب نے کہا کہ توشہ خان فارن فنڈنگ سے بھی مضبوط کیس ہے۔ سب کی نظریں توشہ خانہ کی طرف ہو گئیں۔لیکن پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کا شوکاز جاری کر دیا ہے۔
اب رائے بن رہی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا توہین عدالت کا شوکاز سب مقدمات سے زیادہ سنگین بن گیا ہے۔ اس سے بچنا مشکل نظر آرہا ہے۔الیکشن کمیشن کے توہین عدالت کے نوٹس اس کے علاوہ ہیں۔ جن کو میں اتنا سنگین نہیں سمجھتا۔ کیونکہ میری رائے میں ان کے خلاف حکم امتناعی مل سکتا ہے۔ لیکن باقی مقدمات کی سنگینی زیادہ ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کم از کم تین طرف سے ایسے گھیرے جا چکے ہیں جہاں سے بچنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کو ایک کیس میں نہیں بلکہ ایک سے زائد کیسز میں سزا سنائی جائے گی تا کہ وہ قانونی طور پر ایسے شکنجے میں پھنس جائیں جہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے۔ویسے تو نواز شریف کے لیے ایک کیس ہی مشکل بن گیا ہے۔ اور عمران خان پر کئی کیس بن رہے ہیں۔ اس لیے کیا عمران خان کے پاس نواز شریف جتنی طاقت صبر اور تحمل ہے کہ وہ ایک لمبی جنگ لڑ سکیں۔
تا ہم ابھی تک ٹارگٹ یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان کو اگلے انتخابات کی دوڑ سے باہر کیا جائے۔ اس کے بعد دیکھی جائے گی۔ عمران خان عمر کے بھی ایسے حصہ میں ہیں کہ لمبا انتظار ان کے حق میں نہیں۔ اگر وہ 2023کی ٹرین مس کرتے ہیں تو 2028عمران خان کے لیے بہت دور ہوگا۔ ویسے عمران خان کے پاس نواز شریف کی طرح شہباز شریف اور مریم نواز کی طرح کے سیاسی وارث بھی نہیں ہیں۔ ان کی نا اہلی کے بعد وہاں ایک سیاسی بحران بھی آئے گا۔
جو دوست کہتے ہیں کہ نواز شریف کی نا اہلی کا کیا فائدہ ہوا ہے۔ جو عمران خان کی نااہلی کا فائدہ ہوگا۔میں سمجھتا ہوں وہ شاید چیزوں کو درست سمت سے نہیں دیکھ رہے۔ نواز شریف کو نا اہل کروانے والی قوتوں کی نظر سے دیکھیں تو نواز شریف کی نااہلی کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ وہ آج بھی گیم سے باہر ہیں۔ ان کے پاس سیاسی وارث ہیں۔ اس کا انھیں فائدہ ہوا ہے۔ لیکن وہ ذاتی طور پر گیم سے باہر ہیں۔ جو کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ذاتی طور پر عمران خان کو گیم سے باہر کر لیا جائے اور تحریک انصاف کھیل میں رہے تو کوئی اعتراض والی بات نہیں۔ عمران خان نہیں ہونگے تو جو کوئی بھی ہوگا اس سے بات کی جا سکے گی۔ اور وہ عمران خان نہیں ہوگا۔
عمران خان کی نا اہلی پر نواز شریف کی نا اہلی سے زیادہ اتفاق رائے نظر آرہا ہے۔ سیاسی قوتیں عمران خان کو نا اہل کروانے کے لیے متفق نظر آرہی ہیں۔ عدلیہ کا عمران خان کے لیے نرم گوشہ نظر آیا ہے۔ انھیں کئی مقدمات میں کافی ریلیف ملا ہے لیکن اب شاید ایسا نہ ہو۔مدد کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
عمران خان کی نا اہلی کا اسکرپٹ شروع میں بہت کمزور لگ رہا تھا۔ لیکن گزشتہ چند دن میں اس میں بہت تیزی آئی ہے۔ لگتا ہے کہ ٹائم لائن بدل لی گئی ہیں۔ اس لیے اگر عمران خان نے اپنی نا اہلی روکنی ہے تو انھیں بھی اپنے پتے تیزی سے کھیلنا ہونگے۔ابھی تک وہ مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ مزاحمت سے اپنی نا اہلی کا راستہ روک سکتے ہیں۔
مشکل نظر آتا ہے۔ کیا جلسے عمران خان کی نا اہلی روک سکتے ہیں۔ مجھے مشکل نظر آتا ہے۔ بلکہ ہر جلسہ ان کی نا اہلی کو اور قریب لے آتا ہے۔ عمران خان کا جن واپس بوتل میں بند کرنے کا واحد راستہ نا اہلی ہی نظر آرہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا بگل ہی عمران خان کی نا اہلی کو روک سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مقصد حاصل کرنے میں نا کام رہے ہیں۔ یہی ان کی نا کامی ہے۔ اور یہی نا کامی ان کی نا اہلی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ عمران خان کے پاس کوئی پلان بی نہیں نظر آیا۔