مقتدر خاندانوں کی چکی میں پستے غریب عوام

عوام کا بیشتر حصہ اتحادی حکومت سے سخت نالاں ہے


Tanveer Qaisar Shahid August 26, 2022
[email protected]

ملک کا بیشتر حصہ سیلابوں میں ڈُوبا پڑا ہے۔ چھ سو سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے محروم اور ہزاروں مکانات مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی بے آسرا اور بے چھت ہو کر کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ 90فیصد فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اور ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں؟ انٹرنیشنل ڈونرز کی طرف سے آنے والے ڈالروں کا انتظار؟ مصیبتوں کے مارے ان لاتعداد سیلاب زدگان کی مدد امداد کرنے کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر، راجہ پرویز اشرف، ڈھائی درجن افراد کے ساتھ پیرس اور کینیڈا کی سیر کر رہے ہیں۔

ساتھ بیوی بچے بھی گئے ہیں، اور وزیر اعظم صاحب عوام سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ ملکی خزانے میں پیسے نہیں ہیں، اس لیے عوام ''دل کھول کر'' سیلاب زدگان کی مالی مدد کریں۔ کمال ہے ! بیوی بچوں کے ساتھ پیرس اور کینیڈا کے Pleasure Trip کے لیے ہمارے حکمرانوں کے پاس پیسے ہیں، لیکن مصیبت زدگان کے لیے کچھ نہیں؟ وزیر اعظم، شہباز شریف، قطر میں جا کر مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جماعتِ اسلامی صرف ایک ایسی جماعت ہے جو سیلاب زدگان کی دامے درمے مدد کر رہی ہے۔ باقی سب دینی و سماجی و سیاسی جماعتیں مصیبت کے ماروں کا تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ پچھلے تین چار دنوں میں عمران خان نے اسلام آباد، راولپنڈی اور ہری پور میں بھرپور جلسے کیے ہیں۔

ان پر کروڑوں روپیہ خرچ ہُوا ہے۔ لیکن مجال ہے خان صاحب اور اُن کی پارٹی نے سیلاب کے مصیبت زدگان کی مالی امداد کے لیے ایک روپیہ بھی عطیہ کیا ہو۔ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان سیلاب کے ماروں کی دستگیری کے لیے ایک قدم آگے بڑھانے سے بھی صریح قاصر رہے ہیں۔

ایسے میں وزیر اعظم شہباز شریف کے وزیر خزانہ نے عوامی توقعات کے برعکس پٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کیا تو ساری پاکستانی قوم بلبلا اُٹھی ہے۔ اگست کے وسط میں یہ قیمتیں اُس وقت بڑھائی گئیں جب ملک بھر میں یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ پندرہ اگست کو پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لٹرکمی کی جا رہی ہے۔ پھر اچانک پندرہ اگست کی رات پٹرول کی قیمت میں سات روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا گیا تو عوام سناٹے میں آ گئے۔

اتحادی حکومت اور وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل، نے عوام کو سجّی دکھا کر کھبّی مار دی تھی۔ ہر طرف سے وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت ، خاص طور پر نون لیگ، پر سخت تنقید سامنے آئی ہے۔ عوام کا بیشتر حصہ اتحادی حکومت سے سخت نالاں ہے۔ شہباز شریف نے قطر جا کر غریب پاکستانیوں کے بجلی کے بلوں میں کمی کرنے کا اعلان کرکے تالیفِ قلب کی ایک کوشش تو کی ہے لیکن اِس ذرا سے ریلیف پر عوام حکومت سے راضی نہیں ہُوئے ۔

حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز شریف، نے بھی یہ کہہ دیا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر جوعوامی ردِ عمل سامنے آیا ہے، مَیں عوام کے ساتھ کھڑی ہُوں۔ محترمہ مریم نواز نے ساتھ ہی یہ ٹویٹ بھی کیا کہ نون لیگ کے قائد، جناب نواز شریف، نے لندن میں بیٹھنے کے باوجود تیل کی قیمتوں میں نئے اضافے پر ناراضی اور ناگواری کا اظہار فرمایا ہے تو اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کی بیچارگی بڑھ گئی۔

یہاں تک کہا گیا ہے کہ جناب نواز شریف اُس مجلس ہی سے ناراضی میں اُٹھ کر چلے گئے جس مشاورتی مجلس میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور جب اِس بارے وزیر خزانہ سے استفسار کیا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا: وہ نجی مجلس تھی، مَیں اِس بارے لب کشائی نہیں کر سکتا۔ جناب شہباز شریف نے اس سارے معاملے میں البتہ کوئی بیان دیا نہ تبصرہ فرمایا ۔ ایک چُپ ، ہزار سُکھ !

حکومت سنبھالتے ہی اتحادی حکومت کے وزیر اعظم ، شہباز شریف، نے پٹرول کی قیمت میں یکدم ہوشربا اضافہ کرکے خود کو عوامی تنقید کے کٹہرے میں کھڑا کر لیا تھا۔ حکومت کا مگر کہنا تھا: ''(1) تیل قیمت میں اس لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا ہے کہ خان صاحب کی پچھلی حکومت خزانے میں کچھ نہیں چھوڑ گئی تھی (2) خان گورنمنٹ نے آئی ایم ایف سے جو معاہدے کیے تھے، اُس کارن یہ قدم اُٹھایا گیا ہے (3) اگر پٹرول کی مصنوعات میں یہ ( ہوشربا) اضافہ نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہو سکتا تھا (4) ہم اتحادی حکومت نے یہ عوامی ناراضی کا قدم اُٹھا کر سیاست نہیں کی، ریاست بچائی ہے۔''

یہ مگر سب سیاسی نعرے ہیں۔ عوام نے اتحادی حکومت کے وزیر اعظم کے اس اقدام کو معاف نہیں کیا؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب سترہ جولائی کو بیس سیٹوں پر پنجاب میں ضمنی انتخابات کا یُدھ پڑا تو نون لیگ پندرہ سیٹوں پر شکست کھا گئی۔ گویا عوام نے مقتدر نون لیگ سے پٹرول مہنگائی کا بدلہ ترنت لے لیا تھا۔اور اب رواں ہفتے کے دوران کراچی (این اے245) میں ضمنی انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کے اُمیدوار، محمود باقی مولوی، نے درجن بھر اتحادی حکومت کے متفقہ اُمیدوار کو بھاری ووٹوں کی اکثریت سے شکستِ فاش دی ہے۔ یہ عوام کا اتحادی حکومت سے شدید ناراضی کا عملی اظہار ہے۔

اب پھر ملک کے کئی حصوں میں 9 جگہوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اتحادی حکومت کے وزیر اعظم نے ایک بار پھر پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ عوام پھر حکومت سے ناراض اور نالاں ہیں۔ تو کیا عوام ایک بار پھر اتحادی حکومت کے خلاف ووٹ دے کر اپنی ناراضی کا اظہار کریں گے؟ یہ خیال نون لیگ کے لیے سوہانِ رُوح بنا ہُوا ہے۔

لندن میں مقیم نواز شریف کے لیے بھی یہ خیال پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ شاید اِسی لیے محترمہ مریم نواز نے مہنگائی کے اِس نئے طوفان کے اُٹھنے پر حکومت کے بجائے عوام کا ساتھ دینے کا صائب فیصلہ کیا ہے۔ عوام کا مگر کثیر حصہ سمجھ رہا ہے کہ یہ محض نُورا کُشتی ہے۔ اب جب کہ مہنگائی 43فیصد کے ریکارڈ توڑ درجے تک پہنچ گئی ہے تو مریم نواز صاحبہ اِس ضمن میں خاموش کیوں ہیں؟ تو کیا عوام سے ڈرامے کیے جا رہے ہیں؟

عوام کے سامنے ایسے کئی ڈرامے ماضی میں بھی کھیلے گئے اور اب بھی کھیلے جا رہے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے لوگ اقتدارو سیاست پر اپنا خاندانی قبضہ یا گرفت برقرار رکھنے کے لیے دو مختلف چہرے اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم نے حالیہ ایام میں یہ مناظر گجرات کے مقتدر چوہدری خاندان میں دیکھے ہیں۔ایک بھائی اوراُس کے بچے عمران خان کے ساتھ اقتدار میں شریک نظر آتے رہے تو دوسرے بھائی کے بچے شہباز شریف کی اتحادی حکومت میں وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔

دھڑے 2 رہے لیکن اقتدار ایک گھرانے سے نہ گیا۔ ایسے ڈرامے کرکے ہمارے یہ چالاک سیاستدان عوام کا جی بھی رچاتے پرچاتے رہتے ہیں اور اپنے مفادات بھی سمیٹتے رہتے ہیں۔ عوام کے حصے میں مگر کچھ بھی نہیں آتا۔ہم یہ منظر بھی دیکھ چکے ہیں کہ ایک بھائی ( اسد عمر) پی ٹی آئی کی حکومت میں وزارت کے مزے لیتا رہا تو دوسرا بھائی (زبیر عمر) نون لیگ کے اقتدار میں سندھ کی گورنری سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ آجکل بھی دونوں بھائیوں میں سے ایک پی ٹی آئی کو محبوب ہے تو دوسرا نون لیگ کو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں