بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع
بلاشبہ پاکستان سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک پرکشش ملک ہے
قطر نے پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ دوحہ کے دوران کیا گیا۔ امیر قطر نے دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ اور تزویراتی تعلقات کی اہمیت اور تجارتی تبادلے اور قطر انوسٹمنٹ اتھارٹی کے ذریعے سرمایہ کاری کو فروغ دے کر اقتصادی شراکت داری کو بڑھانے کی خواہش پر زور دیا ہے۔ قطر انوسٹمنٹ اتھارٹی نے پاکستان میں ہوا بازی، زراعت، توانائی اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ قطر کی سرمایہ کار کمپنیوں کی پاکستان میں مشترکہ منصوبوں کے لیے جوائنٹ ونیچر کمپنی بھی قائم ہوگی۔
بلاشبہ پاکستان سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک پرکشش ملک ہے۔ پاکستان میں انفرا اسٹرکچر، قدرتی وسائل، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اپ گریڈ کرنے کے سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقعے موجود ہیں اور پاکستان خطے کے ان ملکوں میں شامل ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی آزادانہ پیش کش کرتا ہے۔
موجودہ حکومت دہشت گردی، مخدوش سرحدی صورتحال، سیاسی عدم استحکام کے باوجود ملکی معیشت کی بحالی کے بنیادی مسئلے سے غافل نہیں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ لگانے کی ترغیب اور سہولتیں دے رہی ہے مگر مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے امن و امان کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ انصاف کی فراہمی اور گڈ گورننس پر بھی پوری توجہ دینا ہوگی۔ ماضی میں بڑے بڑے غیرملکی سرمایہ کاروں نے یہاں سرمایہ لگایا مگر قانونی الجھنوں اور خراب گورننس کی وجہ سے مسائل کا شکار ہو کر اپنے پروجیکٹس میں دلچسپی کھو بیٹھے حکومت کو جہاں سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات دینا ہوں گی وہاں انصاف اور گڈ گورننس کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان سو فیصد غیر ملکی ایکویٹی کی اجازت دیتا ہے، یہاں سے منافع لے جانے کی کوئی حد مقرر نہیں خصوصاً لارج اسکیل انفرا اسٹرکچر اور مینو فیکچرنگ کے سیکٹرز میں سرمایہ کار اپنا منافع واپس اپنے ملک لے جا سکتے ہیں۔
یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح اس خطے کے ممالک میں مختلف عوامل کی بنا پر سب سے کم ہے حالانکہ ورک فورس کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا نواں بڑا ملک ہے، بائیس کروڑ آبادی میں سے بارہ کروڑ افراد کام کرنے والے ہیں جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن ماحول پوری طرح سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ضرورت کے مطابق سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کے سبب ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ امن و امان کی صورت حال ہے جو سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔
کراچی میں جو ملک کا معاشی حب ہے لاقانونیت عروج پر ہے کراچی پولیس اعتراف کرتی ہے کہ یہاں ٹارگٹ کلر اور کسی بھی واردات کے لیے کرائے کا مجرم مل جاتا ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں بھی اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے ہتھیار استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے دوسری قیمتی معدنیات کے علاوہ اس کے پاس 105 ٹریلین کیوبک فیٹ شیل گیس اور 19 ارب بیرل سے زائد تیل کے ذخائر ہیں جن کا بڑا حصہ شورش زدہ بلوچستان میں واقع ہے ان وسائل کو بروئے کار لانے کے علاوہ توانائی، مواصلات، زراعت، صنعت، انفرا اسٹرکچر، صحت و تعلیم اور کئی دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ملک کے 84 فیصد سرکاری اداروں میں کرپشن بڑھ رہی ہے سرمایہ کاروں کو ایسی صورتحال سے محفوظ رکھنا ہو گا اس کے بغیر شاید کم ہی لوگ سرمایہ لگانے پر کے لیے تیار ہوں۔
سی پیک منصوبے کے تحت چین نے 2015 اور 2030 کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنی ہے، جس میں پاکستان کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانے، ریلوے میں انقلابی تبدیلی لانا، شمالی اور جنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنا اور بیجنگ کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی کی کمی کو پورا کرنا بھی شامل ہے اور مختلف صنعتی زون بھی قائم کرنا ہے۔
اس منصوبے کے تحت 2015 سے 2018 تک تقریباً 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی اور 2018 سے 2020 کے درمیان پانچ ارب ڈالرز کی اضافی سرمایہ کاری بھی کی گئی، لیکن مقام افسوس ہے کہ سابقہ تحریک انصاف کی حکومت نے سی پیک منصوبے کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
انسانی وسائل کی ترقی پر سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی پر سرمایہ کاری اقتصادی شرح نمو میں اضافے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ انسانی وسائل کی ترقی اور غیر ہنر مند افرادی قوت کو ہنر مند بنانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرے تاکہ اقتصادی ترقی اور انسانی وسائل میں موجود خلا کو پر کیا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی معیشت عالمی سطح پر اس وقت مقابلہ کرسکتی ہے جب اسے پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد دست یاب ہوں۔ غیر ہنر مند اور کم پڑھی لکھی افرادی قوت سے اقتصادی ترقی کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معیشت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا ایک فوری منفی رد عمل بھی دیکھنے میں آتا ہے مگر معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجاتی ہے، گزشتہ حکومت ایسے اقدامات سے کتراتی رہی، اس لیے وہ تمام اصلاحات موخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی اور خوشحالی ہم سے دور ہوگئی۔
ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی، ایسی مضبوط بنیاد جس پر مستحکم معاشی ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہوسکے اور جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہے، ہمیں برآمدات بڑھانے، زراعت، آئی ٹی سیکٹر اور صنعتی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کو بڑھانا ہوگا تاکہ وہ عالمی منڈی دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں، ہمیں کاروبار کرنے کے مواقعے کو آسان اور بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا، اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی اس سے کہیں زیادہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ موجودہ حکومت کو تباہ حال معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا مشکل چیلنج درپیش ہے، تاریخی مہنگائی، غیر ملکی زر مبادلہ کی مشکلات، زیادہ لاگت پر بے دریغ قرضوں کا حصول، لوڈ شیڈنگ کے مسائل نے صورتحال کو بہت سنگین بنا دیا ہے۔
پاکستان میں آج بھی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں تجارتی ادارہ قائم کرنے اور اسے چلانے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے، اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پھر سے سر اٹھارہا ہے۔ ہم اپنا اقتصادی نظام چوں کہ بیساکھیوں پر کھڑا رکھنے کے عادی ہیں لہٰذا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اس وقت بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے آنے والی ترسیلات زر کا سہارا ہے۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور نہ بھارت کی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کے برعکس پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی دیکھی گئی ہے۔ معیشت کے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری، دونوں میں اضافہ ہو ورنہ پاکستان پر قرضے میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ قطر ہمارا بردار اسلامی ملک ہے ، جس نے ہر کڑے وقت میں ہماری مدد کی ہے ، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح قطر کی سرمایہ کاری پیش کش سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔