مجھ پر اپنا کنٹرول کیوں نہیں
کچھ عمر بڑھنے پر میرے یہ گھنے سیاہ بال جھڑنے شروع ہو جاتے ہیں
اگر میں اپنی ملکیت خود ہوں تو میرے جسم کے تمام اعضاء پر میرا حکم چلنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے، مثلاً میں ایک طالب علم ہوں۔ میرا سالانہ امتحان قریب ہے، مجھے امتحان کی تیاری کے لیے دن رات ایک کرنا ہے لیکن کتاب کھولے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوتی ہے کہ مجھے نیند نے ستانا شروع کر دیتی ہے۔
اگر یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے تو مجھے تو اس وقت نیند کی ضرورت نہیں ہے، مجھے اس وقت پوری توجہ سے پڑھنا اور نیند سے اجتناب کرنا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں کرسکتا اور سو جاتا ہوں، زندگی کا کم و بیش ایک چوتھائی حصہ نیند میں گزر جاتا ہے۔ میں اس وقت کو اپنی مرضی سے استعمال نہیں کر سکتا۔ لگتا ہے میری ملکیت نے کسی اور کے ساتھ ساز باز کر رکھی ہے۔
یہ کسی اور کے اشارے پر کام کر رہا ہے۔ یہ ہے تو بظاہر میری ملکیت لیکن میرے سر کے بال میری بات پر کان نہیں دھر رہے۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ بڑے ہو جائیں، ان کے بڑے ہونے اور الجھنے کی وجہ سے مجھے بار بار باربر کے پاس جاکر ہیئر کٹ کے لیے انتظار کی جاں گسل اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
کچھ عمر بڑھنے پر میرے یہ گھنے سیاہ بال جھڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سفیدی اتر آتی ہے۔ میں گنجا ہونے لگتا ہوں۔ میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا لیکن کیا کروں، میرے سر پر میرے ہی بال میری نہیں مان رہے۔ لگتا ہے کہ میری ملکیت پر میرا کنٹرول نہیں ہے۔ میری گھنی سیاہ پلکیں اور میرے آبرو کے بال بھی میری طرف داری نہیں کر رہے۔ وہ بھی اسی راستے پر چل نکلے ہیں۔ میری بے داغ پیشانی، مجھ سے اجازت لیے بغیر جھریوں کا شکار ہے۔ میری خوب صورت نرم ملائم جلد ہڈیوں سے جدا ہو کر لٹکنی شروع ہو گئی ہے۔ میں اپنی تیز آنکھوں کے نور سے دنیا کے اس ہرے بھرے گلشن کو دیکھتا ہوں۔
قوسِ قزح میں رنگوں کو دیکھ کر میرا جی مچل جاتا ہے۔ یہ میری آنکھیں ہی ہیں جن کی مدد سے میں اپنی پسندیدہ کتابوں اور رسائل کی ورق گردانی کرتا ہوں۔ان کی مدد سے ہی دھوپ چھاؤں اور خوبصورتی و بد صورت میں تمیز کر سکتا ہوں۔
ذہن میں ابھرے نقوش کو لفظوں میں ڈھال کر صفحہء قرطاس پر منتقل کر سکتا ہوں۔ نگاہ کی شوخی کو جان سکتا ہوں۔ خوب صورت جھرنوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں۔ خوب صورت نظاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے دل و دماغ میں سمو سکتا ہوں لیکن یہ کیا ہے کہ میری آنکھوں میرے نہ چاہنے کے باوجود موتیا اُتر آتا ہے، میرا وژن کمزور پڑنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی تو کسی بڑی مہلک بیماری سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور بالآخر میری روشن دنیا میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ یہ تو مری اپنی آنکھیں ہیں۔ میری ملکیت ہیں پھر میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔
میرے کان میری سماعتوں کی آماجگاہ ہیں۔ میں ان کی مدد سے اپنی ماں کی لوری سنتے سنتے نیند کی میٹھی آغوش میں چلا جاتا تھا۔ میں ان کانوں کی مدد سے سُروں سے آگاہ ہوا ہوں۔ بیتھوون کی سمفونیز سن سکتا ہوں۔ میں نغمگی کے سارے پر تو ان کی وجہ سے جان سکا ہوں،غزل کی گائیکی سے لطف اندوز ہوتا ہوں، آرکسٹرا کی سریلی دھنوںکے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہوں۔ خوبصورت دُھن پر آنکھیں بند کیے ہمہ تن گوش رہ سکتا ہوں لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے کان بہرے پن کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے۔ آپ ہی انصاف کریں کہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے جسم پر کنٹرول حاصل ہے لیکن مجھ سے اجازت لیے بغیر میرا گلا بیٹھ جاتا ہے۔ میں صحیح طرح سے بات بھی نہیں کر پاتا۔ مزید یہ کہ میرے گلے میں کبھی ٹانسلز ہو جاتے ہیں اور کبھی Goisterنمودار ہو جاتا ہے جس سے میرے گلے میں تکلیف بھی ہوتی ہے، یہ بدنما بھی لگتا ہے اور ڈھیر ساری دوائیاں بھی کھانی پڑتی ہیں۔
کورونا وبا پھیلی تو میرے گلے نے کورونا وبا کی وائرس اندر جانے دی۔ کیوں اگر چلی ہی گئی تھی تو میرے پھیپھڑوں نے اس وائرس کو دفع کرنے کے بجائے، متاثر ہو کر میری جان لینے کی راہ پکڑی۔ مجھے اسپتال بھاگنا پڑا۔ آکسیجن پر جاں بلب رہا۔ ڈاکٹروں کی کئی دنوں کی ان تھک محنت اور ﷲ کے اذن سے جانبر ہوا۔ اگر میرے اپنے ناک، کان وائرس کو اندر جانے نہ دیتے، اگر میرا گلا رکاوٹ بنتا یا میرے پھیپھڑے ایک آہنی دیوار بن کھڑے ہوتے اور وائرس کو داخل نہ ہونے دیتے تو ان کا کیا جاتا تھا۔
میرا دل میرے جسم کا اہم ترین عضو ہے۔ یہ ویسے تو ہر وقت اپنے کام میں جتا رہتا ہے، کبھی آرام نہیں کرتا۔ بڑا ہی ٹف واقع ہوا ہے لیکن یہ بھی میرے کہنے پر نہیں چلتا۔ یہ میرا دل ہے لیکن کسی اور کے اوپر آ جاتا ہے۔ یہ جس پر آ جاتا ہے مجھے ہر وقت اس کی خوش آمد کرنی پڑتی ہے۔ اس کو دیکھنے اور ملنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کی دوری مجھے تڑپا دیتی ہے۔ مجھے اس کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے لیکن میرے اپنے دل کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میرا کیا حال ہے۔ اس کو تو اپنی چاہت سے غرض ہے۔
یہ میرا اپنا دل ہے لیکن مجھ سے پوچھے بغیر ایک یا ایک سے زیادہ شریانیں بند کر بیٹھتا ہے۔ شریانیں بند ہونے سے ہارٹ اٹیک کا خدشہ ہوتا ہے۔ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ اپنے خوں پمپ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ میرا دل جو میرے جسم کا حصہ اور میری ملکیت ہے آخر میری مرضی سے کیوں نہیں چلتا۔ میرے نظامِ ہضم میں میرے معدے کو خصوصی اہمیت ہے۔ یہ جب تک صحیح کام کرتا ہے، میری صحت قابلِ رشک رہتی ہے لیکن پھر مجھے بتائے بغیر میرا معدہ کئی بیماریوں کو اپنا لیتا ہے۔
مجھے بھوک لگنی بند ہو جاتی ہے۔میں کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہوں۔بعض اوقات اس سے جڑا میرا لبلبہPancrease انسولین کی صحیح مقدار بنانے سے پہلو تہی کرنے لگتا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ زندگی مجھ سے روٹھ سی گئی ہے۔مجھے اپنے آپ کو سوئیاں چبھو چبھو کر اپنے خون میں شوگر کی مقدار چیک کرنی پڑتی ہے۔کتنا اذیت ناک ہے روزانہ اپنے آپ کو سوئیاں چبھونا اور دوائیوں کی ایک مقدار باقاعدگی سے لینا خون میں شوگر کی مقدار زیادہ رہنے سے میرے گردے، میرا دل، میری آنکھیں،میرا ری پرو ڈکٹو نظام اور کئی اعضائے رئیسہ بری طرح متاثر ہوتے ہیںلیکن میرے لبلبے کو اس کا احساس نہیں ۔یہ میرے گردے ہیں۔ اکثر ان میںپتھریاں بن جاتی ہیں۔ان کی وجہ سے کبھی کبھی وہ درد اُٹھتا ہے کہ جس کی شدت کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔
کوئی ایسا پہلو نہیں ہوتا جس میں اس کی شدت کم ہو جائے۔میرا جسم اور مجھے ہی اتنے شدید درد میں مبتلا کرنا، میری تو سمجھ سے باہر ہے۔ کبھی یہ گردے اپنے کام میں پہلو تہی کرتے ہیں اور مجھے کڈنی سینٹر جا کر Dialysisکے اذیت ناک عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر ایک دن یہ گردے فیل ہو کر مجھے ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔ ہے نا عجیب بات۔ میرا جگر تو میرا جگر ہے۔ اس کے اندر اپنے آپ کو ری جنریٹ کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے لیکن کبھی یہ مجھے یرقان میں مبتلا کر دیتا ہے تو کبھی کینسر میں۔ اور یہ دیکھیے میرے گھٹنے جو مجھے سیدھا کھڑا ہونے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں یہی گھٹنے آرتھرائیٹس میں مبتلا بھی کر دیتے ہیں۔ مجھے اُٹھنے، بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ میں تو ایسا ہر گز نہیں چاہتا کہ میرے گھٹنے میرا ساتھ چھوڑ دیں لیکن ان کو ذرا برابر بھی خیال نہیں کہ ان کو میری مرضی سے چلنا چاہیے۔
اور ہاں میںابدی زندگی کا طالب ہوں۔میں موت کو گلے نہیں لگانا چاہتا۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتا ہوں لیکن میرا یہ جسم جس کو میرا کہتے ہوئے تھکتا نہیں،میری شدید خواہش کے برعکس مجھے قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں اور باقی سارے انسان اور کائنات اﷲ کے کنٹرول میں ہے،اﷲ کے سوا کوئی کسی چیز کا مالک نہیں ہے ۔