پانیوں میں ڈوبے ہوئے
وطن عزیز کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
عالمی موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کو امکانی خطروں سے دوچار کر رکھا ہے۔ وہ تمام ممالک اور خطے جو موسمیاتی تبدیلی سے آنیوالی آفتوں سے متاثر ہیں وہ کسی نہ کسی سطح پر خوفناک ممکنہ تباہ کاریوں سے اپنے عوام اور ملک کو بچانے کے لیے بھرپور کاوشیں کر رہے ہیں۔
عالمی تھنک ٹینک ''جرمن واچ'' نے اپنی ایک رپورٹ میںگزری دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو تقریباً 250 کھرب امریکی ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
جرمن واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو رہا ہے اور گزشتہ 19 سالوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوچکی ہیں۔
وطن عزیز کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ان میں شدید تر بارشیں اور سیلاب سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان میں شدید بارشوں کے باعث سیلاب آتے رہے ہیں۔
موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) میں پاکستان کے نمایندہ اور محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کا پیشگی اندازہ نہ لگائے جانے اور مون سون کی شدید بارشوں اور گلوبل وارمنگ کے باعث پگھلتے گلیشیئرز پاکستان میں بارشوں اور شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔
سیلاب کے مختلف ذرایع کے تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پگھلتے گلیشیئرز اور شدید مون سون بارشوں کے بعد آنیوالے دریائی سیلاب، بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑنے سے آنیوالے سیلاب، شہری سیلاب، پہاڑوں کی ڈھلوان پر واقع انسانی آبادیوں میں اچانک بہا لے جانے والا سیلاب اور سب سے زیادہ خطرناک گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں گلیشیئرز پگھلنے سے بننے والی جھیلیں پھٹنے سے آنیوالے سیلاب خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ مون سون کی شدید بارشوں سے جنم لینے والی گمبھیر سیلابی صورت حال سے نہ صرف یہ کہ انسانی آبادیوں، مکانوں، بڑی عمارتوں، سڑکوں اور انفرااسٹرکچر کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کھڑی فصلوں کے بہہ جانے سے خوراک کی بھی شدید قلت پیدا ہو جاتی ہے۔
متاثرہ افراد شدید پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں۔ زندگی بھر کی جمع پونجی و مال و اسباب بارش کے پانیوں میں بہہ جانے کے بعد بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر صرف زبانی جمع خرچ کی حد تک بارش سے متاثرہ افراد کی امداد کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر دیکھیں تو وطن میں ہر سال بارش و سیلاب سے چاروں صوبوں میں انسانی تباہی و بربادی کی جو داستانیں رقم ہوتی ہیں ارباب اقتدار کی جانب سے ان کی بحالی و امداد کے لیے جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں وہ جزوقتی اور اونٹ کے منہ میں زیرا کے مترادف ہوتے ہیں۔
حالیہ مون سون بارشوں کا جو سلسلہ جون کے وسط سے شروع ہوا تھا وہ طویل ہوتا ہوا اب اگست کے آخر تک آن پہنچا ہے۔ شدید بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال نے صوبہ بلوچستان، پنجاب اور سندھ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا بھی کسی حد تک بارشوں سے متاثر ہوا ہے۔ بلاشبہ بارش اللہ کی رحمت ہے۔ پانی زندگی ہے۔
آسمانوں سے برستا پانی نہ صرف ہماری فصلوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ اسے ذخیرہ کرکے پانی کی کمیابی کو بھی دور کیا جاسکتا ہے جس کے لیے چھوٹے بڑے ڈیمز ضرورت کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ابر رحمت عوام کے لیے زحمت نہیں بنتا وہاں اسے ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے تالاب اور مختلف سائز کے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کا المیہ یہ ہے کہ ڈیموں کی تعمیر پر بھی سیاست کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ آج تک پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
طوفان بارشوں سے متاثرہ افراد کی امداد و بحالی کے لیے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ایک امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت فی خاندان 25 ہزار روپے کے حساب سے 37 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق متاثرہ خاندانوں کے افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ کے قریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن خاندانوں کا سب کچھ بارش اور سیلاب کی نذر ہو چکا ہے کیا 25 ہزار کی امداد سے وہ سب کچھ واپس لیا جاسکتا ہے؟ کیا کسی ایم این اے اور ایم پی اے کا اپنا خاندان اس صورتحال سے گزرتا تو کیا اس کے لیے بھی یہی امداد ہوتی؟ افسوس کہ ہمارا مراعات یافتہ و بالائی طبقہ اور اقتدار کے ایوانوں سے جڑا ہر شخص پرتعیش زندگی بسر کر رہا ہے۔
طاقتور حلقے اور ان سے متعلقہ افراد عیش و عشرت کدوں میں محو استراحت ہیں جنھیں بارشوں میں ڈوبے عوام کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نظر نہیں آتے۔ ان کے دلوں میں احساس انسانیت کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا۔ صرف پاک فوج سلام و تحسین کی مستحق ہے کہ جن کے جوان بارش، سیلاب، زلزلہ کوئی بھی آفت ہو اپنی بیرکوں سے نکل کر عوام کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ بلوچستان لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونیوالے فوجی افسران بھی بارش سے متاثرہ افراد کی امداد کے مشن پر تھے، اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے۔( آمین)
ہمارے ارباب اختیار نہ جانے کب ہوش مندی کے ناخن لیں گے۔ 75 سال ہو گئے ہر سال بارشوں اور سیلاب سے تباہی و بربادی کے دل خراش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پوری قوم سوگ میں ڈوب جاتی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا تجارتی و صنعتی شہر کراچی بارشوں میں کئی کئی ہفتوں ڈوبا رہتا ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ خدا جانے پانیوں میں ڈوبے ہوئے چیختے چلاتے، مجبور و بے بس لوگوں کی آواز سے اقتدار کے ایوانوں اور امرا کے شبستانوں میں کب لرزہ طاری ہوگا؟