مون سون کی برسات اور سولر انرجی

پاکستان روف ٹاپ سولر پینلرز کی تنصیب سے بجلی کی ضرورت پوری کرسکتا ہے



ملک بھر میں دو ماہ سے جاری مون سون کی طوفانی بارشوں میں دریاؤں کی روانی ابل کر طغیانی میں تبدیل ہوئی اور غضب ناک سیلابی کیفیت کے ساتھ ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بلوچستان کے اکثر اضلاع میں پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بہت سے گاؤں دیہاتوں کو اپنی منہ زور موجوں کے ساتھ زیر کر لیا ہے۔

اس سال کے مون سون کے موسم سے کہیں تیز بارشوں کا نہ تھمنے والے سلسلے سے کہیں دریاؤں ندی نالوں کے بپھرنے نے کہیں پہاڑوں سے آنے والے برساتی ریلوں کے باعث پل تباہ ، سڑکیں بے نام و نشاں، باغات تباہ و برباد ، کھیت و کھلیان کی فصلیں تباہ ہونے کے علاوہ ملک کے بیشتر علاقوں کا رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔ لاکھوں متاثرین بے یار و مددگار، حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور حکومت عالمی ڈونرزکو آوازیں دے رہی ہے، البتہ پاک فوج کے جوان بھرپور امدادی کارروائیاں کرتے نظر آرہے ہیں، لیکن وسیع پیمانے پر امداد کے لیے حکومت فوری اقدامات کے تحت اپنے محب وطن شہریوں کو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کے لیے آواز دے، ان کو سہولیات مہیا کرے کہ وہ ان تک پہنچ جائیں۔

2010 کی بات ہے جب اسی ماہ اگست میں دریائے سندھ بپھر کر ایسا غضب ناک ہوا کہ پنجاب کے جنوبی علاقوں اور سندھ میں جہاں جہاں سے گزرا تباہی و بربادی کے نشان چھوڑتا چلا گیا۔ ابھی یہ ریلا دریائے سندھ کے آخری دہانے تک پہنچا ہی تھا کہ کیٹی بندر اور ارد گرد کے علاقے شدید متاثر ہوئے اور یہ خبریں ابھی کراچی پہنچی ہی تھیں کہ بس پھر کیا تھا ٹرک، بسیں، سوزوکیاں سامان خور و نوش سے، خیمے و بستر سے طبی آلات و ادویات سے بھری جانے لگیں اور ہر کوئی اپنے بس سے بھی زائد سامان لے کر اپنے ہم وطنوں کی امداد کے لیے پہنچنے لگا۔ خیمے لگتے چلے گئے، مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹرز اپنی خدمات مہیا کرنے لگے۔ کھانے پینے کی اشیا تقسیم ہونے لگیں۔

صاف پینے کا پانی مہیا کیا جاتا رہا۔ اہل کراچی میں سے جس کا بس چلا وہ وہاں پہنچا ، ان میں بڑے بڑے صنعت کار، تاجر، افسران، عہدیداران ہر شخص اپنی بساط کے مطابق جو کچھ مدد کرسکتا تھا ، اس نے پہلو تہی نہیں کی۔ حکومت بلاشبہ عالمی ڈونرز کو امداد کے لیے بلائے لیکن یہ امداد بھی آئی ایم ایف کی طرز پر ہوگی، کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، لیکن یہاں فوری مدد کے لیے فوری طور پر آواز لگانے کی، مدد کے لیے آنے والوں کو سہولت فراہم کرکے مدد کے منتظر لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

حکومت ان کو ایسے علاقوں سے نکالے اور تمام متاثرہ علاقوں میں کیمپ قائم کردے اور ان تک مدد پہنچانے والوں کی رسائی کو آسان کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے، اس وقت حکومت سے زیادہ پاک فوج کے جوان ہی متاثرہ علاقوں کے شہریوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، چونکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں تباہی آ چکی ہے لہٰذا امداد بھی وسیع پیمانے پر پہنچانے کے لیے مخیرحضرات، صنعت کاروں، تاجروں، فلاحی تنظیموں اور دیگر کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مزید تاخیر بہت زیادہ نقصان کا باعث ہوگی۔

پاکستان انتہائی خوش قسمت ملکوں میں سے ایک ہے جو سال کے 300 دن سے زائد دن بھر تیز دھوپ سے مستفید ہوتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی پاکستان جیسے ملکوں کے لیے بالکل مفت ہے۔ پاکستان روف ٹاپ سولر پینلرز کی تنصیب سے بجلی کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ دنیا کے گرم علاقوں میں عمارتوں کو ٹھنڈا کرنے اور سرد علاقوں میں عمارتوں کو گرم کرنے کے لیے شمسی توانائی کے یونٹ کام کر رہے ہیں، شمسی توانائی سے کئی طریقوں سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ان میں شمسی سیل کے ذریعے اور شمسی تھرمل جنریشن و دیگر طریقے شامل ہیں۔

پاکستان میں جولائی 2006 میں تقریباً 1600 گھروں میں بجلی مہیا کی گئی تھی ، اگرچہ 2030 تک پانچ لاکھ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں چین نے دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی کو انتہائی سستا ترین کردیا ہے۔ یہ بات کئی عالمی اداروں نے بھی تسلیم کی ہے۔ اس وقت دنیا میں سولر فوٹو کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک میں 3 ہزار گھنٹے سے زائد سالانہ سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے۔ شعاعوں کی مقدار کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ مقدار 2 ایم ڈبلیو آور فی مربع میٹر ہے اور یہ مقدار دنیا میں زیادہ سطح میں شامل ہے۔

اس کے استعمال کو عام کرنے کے لیے توانائی کے متبادل ذرایع سے متعلق بورڈز نے ایک پالیسی فریم ورک تیار کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ یہ سولر پالیسی سے متعلق ایک بہتر پالیسی کے اجرا کا ارادہ رکھتی ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ان تاجروں اور امپورٹرز سے رابطہ کرکے ان سے مشورہ ضرور کیا جائے۔ صرف پالیسی کا اعلان کردینا اور حکومت کی طرف سے یہ بیان جاری کردینا کہ یہ ایک بہترین پالیسی ہے ناکافی بات ہے۔

امپورٹرز کو ماضی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً ان کی درآمدی اشیا کو روک لینا یا مختلف اقسام کے غیر ضروری اور بلاجواز غیر منصفانہ پابندی عائد کرکے جرمانہ کردینا وغیرہ۔ میرے خیال میں سولر انرجی سے متعلق جتنی بھی درآمدات ہوں ان کو خصوصی حیثیت دی جائے اور ان کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی درآمد کنندگان پر پابندی عائد کی جائے کہ وہ اس کے استعمال کو وسیع کرنے کی خاطر چھوٹے دکانداروں کو ادھار میں پینلز کی فراہمی کریں بشرطیکہ وہ جہاں مناسب سمجھیں، اور دکانداروں اور ان کے ملازمین کو تربیت بھی دیں تاکہ سولر انرجی کی زیادہ سے زیادہ عوام کو آگاہی دے سکیں اور شمسی توانائی کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ہوسکے۔

ایک رپورٹ کے مطابق چین نے دنیا بھر میں سولر فوٹو ولٹکس کی لاگت کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی نجی کمپنیوں کو اس سلسلے میں چین کے ساتھ تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ چین کی جامع پالیسیوں اور جدت نے شمسی توانائی کو مزید سستا بنادیا ہے چین کی ایک بڑی کمپنی صحرائے گوبی اور افریقہ کے دیگر بنجر علاقوں میں شمسی توانائی کے منصوبے کا آغاز کر رہی ہے۔ پاکستان میں چولستان تھر اور کئی صحرائی علاقے اب تک بجلی اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں، ان کے لیے شمسی توانائی کے حصول کے لیے چین سے تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔

کراچی کی کئی معروف کمپنیاں جوکہ برسہا برس سے سولر پینلز چین سے درآمد کر رہی ہیں وہ اس سلسلے میں حکومت کو مشاورت اور فنی تعاون فراہم کرسکتی ہیں۔ پاکستان میں قائد اعظم سولر پارک میں 530 میگاواٹ شمسی توانائی کی صلاحیت موجود ہے اور یہ ادارہ پاکستان میں شمسی توانائی سے چلنے والا پہلا ادارہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت مزید ادارے تشکیل دے تاکہ ملک میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو سکے اور سولر پینلز کو عام کرنے کی خاطر امپورٹرز اس کے متعلقہ تاجروں چھوٹے دکانداروں سب کے لیے انتہائی سہولت فراہم کرنے کے لیے سولر پاور پالیسی کا اجرا کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔