ایک ’ایمرجینسی‘ سیاسی اور سماجی مکالمے کی بھی لگا دیجیے
سیلاب بلا خیز ہے مگر اس بار وہ ایک قوم کی رمق کمزور ہے متاثرین کی آباد کاری میں لسانی تفریق اور قومیتی عدم اعتماد ہے
ایک ’ایمرجینسی‘ سیاسی اور سماجی مکالمے کی بھی لگا دیجیے! (فوٹو: فائل)
ہماری معیشت "دوست ممالک" کے کنّی کترانے کے بعد براہ راست 'آئی ایم ایف' کے رحم وکرم پر رہیں کہ 'فکرمندگان' چھے مہینے میں خاکَم بدَہن دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کر رہے تھے ایسے میں ملک کے طول وعرض میں لگ بھگ مہینے بھر سے جاری موسلا دھار بارشوں سے آنکھیں موندے سیاسی ہر کارے اقتدار کی بندر بانٹ اور جوڑ توڑ میں اس قدر مصروف رہے کہ انھیں سیلاب جیسی "فضولیات" کو وقت دینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
یہی نہیں ہمارے ذرایع اِبلاغ کو بھی اِس آبی آفت کی طرف متوجہ ہونے میں کم از کم دو ہفتے لگ گئے، کیوں کہ ہمارا بیزار کر دینے والا بدترین سیاسی کھیل اس قدر 'اہم' تھا کہ کسی پر مقدمہ، پیشی، غداری، ضمانت اور گرفتاری کی چیخ پکار میں اس ملک کے صفحہ¿ ہستی سے مٹ جانے والے عوام کی دل دوز صدائیں سنائی ہی نہ دیں! ہمارے ہاں کیرالہ میں 95 سالہ خاتون کی میت کے ساتھ خاندان کے 40 افراد کی مسکراتی تصویر کے 'خبرنامے' چلتے رہے، سیاست دانوں کو دھرنے، گرادیں گے، جلا دیں گے اور بیرونی سازشوں کے 'بیانیوں' پر جنگ وجدل سے ہی فرصت نہ تھی، پھر نومبر 2022ءمیں قطر کے فٹ بال ورلڈ کپ کے حوالے سے دورہ وغیرہ کرنے جسیے "اہم معاملات" کے بعد 'سرکار' کو شاید کچھ فرصت ملی تھی، کہ انھیں خبر ہوئی 'مژگاں تو کھیل شہر کو سیلاب لے گیا!'
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، 25 اگست 2022ءکو ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے، مگر صاحب، وہ 2005ءکا زلزلہ تھا، تب بلاشبہ پوری قوم نے یک جٹ ہو کر اس اُفتاد کا مقابلہ ہی نہیں کیا تھا، بلکہ عالمی برادری سے بھی بھی بہت امداد ملی، جس سے متاثرین زلزلہ کی بحالی کا کام کیا گیا، لیکن جب 2010ءمیں ریاست بھر میں بدترین سیلابی صورت حال پیدا ہوئی اور پھر جو ہم لوگوں نے اِس عالمی امداد کے ساتھ کیا، آج یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ امداد دینے والوں نے اپنا ہاتھ کھینچ رکھا ہے، انھیں یہ یقین ہی نہیں ہے کہ ان کا دیا ہوا روپیا سیلاب زدگان تک پہنچے گا سرکاری خزانہ ویسے ہی مانگے تانگے پر ہے۔
ریاست غریب اور ریاست کے ناخدا امیر ترین ہیں۔ کیا یہ دبئی، لندن اور امریکا وغیرہ میں اپنے خزانے رکھنے والے سارے اہل حَکم اس کسم پرسی کے عالم میں ریاست کی مدد کریں گے؟ وہ جنھوں نے اقتدار کے زمانوں میں بہت 'سُکھی' دن گزارے، آج ان کو سُکھ دینے والی دھرتی ایسے اجڑی ہے کہ مرھم کے لیے ماری ماری پھرتی ہے۔ بالکل ایسے ہی کہ گھر میں کھانے کے لالے پڑے تھے، وہاں اب ایسی مصیبت آئی ہے کہ سر پر چھت اور بیماری کو دوا تک نہیں۔
عالمی سطح پر ہماری ایمان داری اور ساکھ کو بٹّا تو لگا ہی، اس بار مصیبت میں ہمارے ایک ہو جانے کا عنصر بھی خاطر خواہ دکھائی نہیں دے رہا ایک نجی چینل پر فلاحی تنظیم کے ایک صاحب نے کراچی والوں کو یہ طعنہ دیا کہ "کب نکلو گے، جب 'حب ڈیم' سے ڈوبنے لگو گے؟" یعنی دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لیے نمایاں رہنے والے شہر کو آج یہ بھی سننا پڑ رہا ہے، جس کی ایک لالو کھیت کی مارکیٹ ملک کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہے! کیا یہ سوال 14 برس سے صوبے میں راج کرنے والی پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ بتاﺅ عوام کا ٹیکس کہاں اڑایا؟
یہی نہیں ایک اور صحافی نے بھی اس کٹھن موقع پر گرہ لگانے سے گریز نہ کیا، 'ٹوئٹر' پر لکھا کہ "کراچی کی پرانی خوف کی علامت جماعت کو ایک فون پر کروڑوں روپے بھتا دینے والے کراچی کے تاجر آج ایک کروڑ سندھ کے باسیوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔" یعنی ابھی منہ زور سیلابی ریلے اپنے عروج پر ہیں، اس میں نہ جانے کتنی لاشیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے 'لاپتا' ہو چکی ہیں، ایسی 'قیامت صغریٰ' میں بھی ہماری یہ حالت ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی یہ سوالات بھی ہونے لگے ہیں کہ ان سیلاب متاثرین کو ہمارے شہر میں نہ لاﺅ۔ ورنہ بعد میں ایسا ہوتا ہے، ویسا ہوتا ہے۔ اس بار بیرون ملک کے ساتھ اندرون ملک بھی 'امداد نہ کرنے' کے حوالے سے ایک گمبھیر اور افسوس ناک صورت حال سامنے آرہی ہے، جو افسوس ناک منظرنامہ تشکیل دے رہی ہے!
یہ وقت طعنے تشنوں کا بالکل بھی نہیں ہے، اس وقت صرف انسانیت بچانی ہے، ہاں، مگر سسک کر مرتے ہوئے انسانوں کے سامنے بھی اگر ہم اپنے اختلافات اور تلخیوں کا سہارا لے رہے ہیں، تو یہ بھی کسی گمبیھر 'سماجی آفت' سے کم نہیں ہے۔ یہ امر معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ، سیاسی جبر اور مختلف نسلی گروہوں کے درمیان بدترین عدم اعتماد کی فضا کی بھی واضح خبر دے رہا ہے، جو اس ریاست کے لیے بالکل نیک شگون نہیں! سیلاب تو گزر جائے گا، لیکن وہ قوم جو جنگوں اور طوفانوں میں متحد ہو جاتی تھی، آج اس میں وہ اتحاد نہیں، اب اس المیے کو کون سہارا دے گا، ہم دنیا کی تنہائی سہہ سکتے ہیں، اپنے پیروں پر بھی کھڑے ہو جائیں گے، دنیا کے قرضے نہ صرف اتار دیں گے، بلکہ کبھی کسی کے محتاج بھی نہیں رہیں گے، لیکن ہمارا یہ خواب تبھی تک ہے، تب تک ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے گنجائش رہے۔
ہم ایک دوسرے پر احسانات جتانے کے بہ جائے دل سے ساری قوموں کا برابر کا حق تسلیم کریں! ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر ایسی کیا تلخی ہوئی کہ اب لوگ پہلے یہ سوال کرتے ہیں، متاثرین یہاں لے تو آائیں گے، لیکن پھر انھیں 2005ءزلزلے اور 2010 ءسیلاب کے متاثرین کی طرح سیاست کے لیے استعمال کیا جائے گا اور ہم اپنے شہر میں اقلیت میں بدل جائیں گے وغیرہ۔ یہ سب بہت بڑے المیے کی طرف اشارہ ہے! یہ ریاست اگر سن رہی ہے، تو ایک ایمرجینسی تمام ریاستی اکائیوں اور قومیتوں کے درمیان سیاسی اور سماجی مکالمے کے واسطے بھی لگا دیں، کیوں کہ ریاست نہ زمین کا ٹکڑا ہوتی ہے، نہ اقتدار کا وسیلہ۔ یہ نہ کسی ادارے کے سہارے چلتی ہے اور نہ کسی فردِ واحد سے۔ ریاست اگر ہوتی ہے، تو صرف اس کے یک زبان اور یک جان عوام سے۔ اور اس سیلاب میں 'یک جان عوام' کا عنصر کچھ کمزور سا ہے۔ سیلاب اتر جائے، تو ایک 'ایمرجینسی' سیاسی اور سماجی مکالمے کی بھی لگا دیجیے!
٭ وزارت موسمیاتی تغیر کہاں ہے؟
ہماری بدقسمتی ہے کہ کراچی میں 50، 50 سال پرانے قانونی گھر نالوں کو راستہ دینے کے نام پر تو توڑ دیے گئے، لیکن قیوم آباد سے کورنگی کراسنگ کو جانے والے کورنگی ندی کے راستے پر بیش تر حصے پر کھلے عام 'بھرائی' کوئی کیوں نہیں دیکھتا؟ 'اورنگی پائلٹ پروجیکٹ' کی ڈائریکٹر پروین رحمن 'بوٹ بیسن' کے اطراف میں مینگروز کے تحفظ اور 'ڈی ایچ اے' میں سمندر پیچھے دھکیلنے سے باز رہنے کے لیے کہتے کہتے مر گئیں، لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر کوئی جوں بھی رینگی ہو! قدرتی اُفتاد میں سب سے پہلا سوال تو سرکار ہی سے ہونا چاہیے کہ اگست 2017ءمیں قائم ہونے والی 'وزارت موسمیاتی تغیر' جس کا قلم دان ان دنوں سینٹیر شیری رحمن کے پاس ہے، پانچ سال میں اس کی کیا کارکردگی ہے؟ اس کی سفارشات کیا اور کہاں ہیں؟ موسمیاتی تغیر کی وزارت کے ماتحت پانچ اداروں میں این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ،گلوبل چینج ایمپیکٹ اسٹڈیز سینٹر، پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجینسی اور زولوجیکل سروے ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔ ان اداروں کو فعال اور ان کے حوالے سے آگاہی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے درپیش صورت حال، مسائل اور ان کے حل کے ساتھ عوامی آگاہی ہمارے ذرایع اِبلاغ کی ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے، تاکہ آئندہ موسمیاتی تغیرات سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا جا سکے!