اساتذہ بچوں کو خود پیپرحل کیوں نہیں کروائیں گے

کم نتائج پر سخت سزائوں کا خوف ہو گا تو پھر۔۔۔۔


Rana Naseem March 17, 2014
زمینی حقائق سے متضاد تعلیمی پالیسیوں نے نظام و معیار تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا۔ فوٹو: فائل

شکر ہے! ترقی یافتہ دنیا سے کئی دہائیاں بعد ہی سہی لیکن تعلیم کی افادیت و اہمیت آج پاکستانیوں پر بھی آشکار ہو چکی ہے، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی اس معراج کو پالیا ہے، تبھی تو تعلیم کے فروغ کے لئے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کئے جا رہے ہیں۔

تاریخ میں پہلی بار بجٹ میں تعلیم کے لئے بھاری بھرکم رقوم مختص کی گئیں، جن سے دانش سکولز، لیپ ٹاپ سکیم، مفت کتب، سکالر شپس، یوتھ فیسٹیولز، ادبی مقابلے، پوزیشن ہولڈرز کے لئے تحفے تحائف کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے میٹرک تک مفت تعلیم اور ہر بچہ سکول داخل کروانے کے لئے مختلف پروگرامز شروع کردیئے گئے ہیں۔ نیا نصاب اور یکساں نظام و ذریعہ تعلیم کی باتیں ہو رہی ہیں، امتحانی نظام کمیپوٹرائزڈ اور بوٹی مافیا کا مکمل خاتمہ جیسی نوید سنائی جارہی ہے، اساتذہ و طلبہ کی سکولوں میں حاضری یقینی بنانے کے ساتھ گھوسٹ سکولوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ غرض کہ حکومت تعلیم کے فروغ کے لئے پورا ''زور'' لگا رہی ہے۔۔۔لیکن افسوس! تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں زمینی حقائق ابھی بھی جوں کے توں ہیں، بلکہ بعض ماہرین کے مطابق گرتے معیار تعلیم کی وجہ سے حالات بدتر ہو رہے ہیں۔ بقول معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر حسن عسکری'' تعلیم کے حوالے سے صرف نمائشی پروگرامز کا انعقاد کیا جا رہا ہے''۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان میں کروڑوں بچے آج بھی سکولوں سے باہر ہیں۔ سکولز، طلبہ اور اساتذہ سہولیات کی محرومیوں کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے معیار تعلیم بہتر ہو رہا ہے نہ تعلیم فروغ پا رہی ہے۔

وطنِ عزیز میں تعلیم کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ناقص اور زمینی حقائق سے متضاد تعلیمی پالیسیوں نے جتنا اس شعبے کو نقصان پہنچایا شائد ہی کسی اور کے حصے میں اتنی ''دعائیں'' آئی ہوں۔ تعلیمی پالیسی کا مقصد ایسی تعلیم کو معاشرے میں عام کرنا ہے جو معاشرے میں علم کو فروغ دے سکے۔ ہنر مند، تعلیم یافتہ اور کارآمد افراد پیدا کر سکے اور معاشرے میں یکجہتی، حب الوطنی، رواداری اور یگانگت کو فروغ دے سکے۔ اس کا حتمی مقصد معاشرے کی اقدار کا تحفظ اور ملک و قوم کو ترقی کی ایک ایسی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے جو اس کو قوموں کی برادری میں ایک نمایاں مقام عطا کر سکے۔ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچیں جہاں ہم قرض لینے کے بجائے دینے والا ملک بن جائیِں، سائنس، ٹیکنالوجی اور علم کے مختلف شعبوں میں دنیا کے رہنما کی حیثیت اختیار کر سکیں...لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ آج تک جتنی بھی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئیں وہ ایسے لوگوں نے بنائیں جن کا علم اور تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔



ایسے ماہرین ہمارے اوپر مسلط کر دیئے گئے جن کی سوچ اور علم کا منبع مغربی معاشرہ تھا، اب ان کی اور ہماری بد قسمتی یہ تھی کہ وہ ہر پالیسی کی بنیاد اپنے علم اور فہم کی روشنی میں رکھتے رہے جس کا ہمارے معاشرے، اس کی روایات، ذہنی سطح اور ضروریات سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہوتا تھا۔ اس ضمن میں وزیر مملکت برائے تعلیم انجینئر محمد بلیغ الرحمان کا بھی کہنا ہے کہ حکومتوں کی تعلیمی پالیسیاں انتہائی ناقص رہی ہیں، ہم تعلیمی معیار میں شرمناک حد تک اقوام عالم سے پیچھے ہیں۔ لیکن بعض ماہرین کے مطابق تعلیمی پالیسی کوئی بھی غلط نہیں تھی، بس معاملات تب خراب ہوئے جب ان پر مکمل عملدرآمد نہیں کروایا گیا۔ مگر یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود نئی تعلیمی پالیسی ہی جاری نہیں کی جا سکی، نئی حکومت آ گئی لیکن نئی تعلیمی پالیسی نہیں آئی۔ گزشتہ برس جولائی میں وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود نے ایک تقریب میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ ''حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں لیتے ہوئے نئی تعلیمی پالیسی کو حتمی شکل دے دی ہے، اسمبلی سے قبل جلد ہی اسے عوامی رائے کے لئے پیش کر دیا جائے گا''۔

مگر تاحال نئی تعلیمی پالیسی کا اجراء نہیں کیا جا سکا، جس سے حکومت اور ایجوکیشن منسٹر کی تعلیم سے محبت کے بارے میں سنجیدگی صاف نظر آ رہی ہے۔ اب پھر یہ خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ پنجاب میں نئی تعلیمی پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جسے حتمی منظوری کے لئے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ اس مجوزہ پالیسی کے تحت آئندہ امتحانات میں 60 فیصد سے کم نمبر لینے والے طلبہ کو فیل تصور کیا جائے گا۔ 95 فیصد سے کم نتائج دینے والے سرکاری سکولز کے ہیڈماسٹر، ہیڈ مسٹرس اور مضمون اساتذہ کی سالانہ انکریمنٹس روک لی جائیں گی۔ موسم سرما کی چھٹیاں 15جون سے 10اگست تک ہوں گی، تمام اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ سے آنے والی 4اتوار کی چھٹیوںکی تنخواہ منہا کی جائے گی، 18کلومیٹر سے کم فاصلہ کے سکولوں کے اساتذہ کا کنوینس الائونس بند کر دیا جائے گا، مقامی سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں سے اس مد میں 7 سو روپے کی کٹوتی کی جائے گی۔

نئی مجوزہ تعلیمی پالیسی میں سب سے زیادہ خطرہ معیار تعلیم اور امتحانی نظام کو لاحق ہو سکتا ہے، کیوں کہ 95 فیصد تک نتائج نہ دینے پر استاد کو تنزلی اور انکریمنٹس روکنے کا سامنا کرنا پڑے گا، تو پھر استاد سزا سے بچنے کے لئے ہر حربہ اور ناجائز ذرائع استعمال کرے گا۔ ہمارے نظام تعلیم میں تاحال استاد کی قابلیت پر سوالیہ نشانات لگے ہیں تو پھر وہ بچوں سے 95 فیصد تک کیسے نتائج حاصل کر سکتا ہے؟۔ پھر ظاہر سی بات ہے کہ اساتذہ سزائوں سے بچنے کے لئے طلبہ کو پیپر خود حل کروانے کے ساتھ پرچے آئوٹ کروانے کی کوششیں بھی کریں گے۔ اور یہ بات کوئی ہوا میں تیر چلانا نہیں بلکہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق حال ہی میں مکمل ہونے والے پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں ایسا ہوا ہے۔



موجودہ تعلیمی پالیسی کے مطابق 25 فیصد تک نتائج نہ دینے پر اساتذہ کو سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ماضی میں ایسا کیا بھی گیا۔ نہم کے خراب نتائج پر اساتذہ کو STEP DOWN کیا گیا، ایس ایس ٹی استاد کو ای ایس ٹی بنادیا گیا، کچھ عرصہ قبل چند پرائمری ٹیچرز کو ملازمت سے ہی برطرف کر دیا گیا، تو ان حالات میں اساتذہ بہترین نتائج کے لئے ناجائز ذرائع کیوں نہیں استعمال کریں گے؟۔ گزشتہ ماہ کے اواخر میں ہونے والے ہشتم کے امتحانات میں صرف ایک پیپر آئوٹ ہونے کی شکایت پر وہ دوبارہ لیا گیا حالاں کہ باقی پیپر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں تھے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق رات گئے اساتذہ (استثنیٰ کے ساتھ) نے بچوں کو سکولز میں بلا کر تیاریاں کروائیں۔ امتحانی سنٹر میں اساتذہ نے خود بچوں کو معروضی پیپر میں درست آپشن کا انتخاب کروایا۔ ہیڈماسٹر نے جس سکول میں اس کے بچوں کا امتحان لیا جانا تھا وہاں اپنے استاد بھیج کر وہاں کے اساتذہ کو چائے پانی کے ذریعے طلبہ کو سہولیات دلوائیں، ایک سکول کے اساتذہ نے دوسرے سکول کے بچوں کو سہولیات دیں کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ ہمارے سکول کے بچے بھی کسی دوسرے سکول میں بیٹھے ہیں۔ ایسی بھی مثال موجود ہے کہ لاہور کے ایک ہائی سکول کے ہیڈماسٹر نے اپنے طلبہ کے لئے اپنے ہی سکول کو امتحانی مرکز بنوا لیا تاکہ آرام سے پرچے حل کروائے جا سکیں، حالاں کہ اصول و ضوابط کے مطابق ایک سکول کے طلبہ کا امتحانی سنٹر کوئی اور سکول ہی بن سکتا ہے۔

معیار و نظام تعلیم کی بہتری کے لئے بگڑے ہوئے اساتذہ کو سدھارنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ایسا کرنے میں تمام اساتذہ کو پریشان کرنا مسائل کو مزید گھمبیر بنا سکتا ہے۔ اساتذہ پر ملازمت کھونے یا تنزلی کا خوف طاری کرنے کے بجائے ان کی تربیت اور ان کے معاشی مسائل حل کرکے شعبہ تعلیم سے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ حکومت زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والی نئی تعلیمی پالیسی کے جلد اجراء کو یقینی بنا کر معیار کے ساتھ تعلیم کے فروغ کے وعدوں اور دعوئوں کو عملی جامہ پہنائے۔ آخر میں قارئین کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی اور امتحانی مراکز میں اساتذہ کے رویے پر موقف جاننے کے لئے ہم نے وزیرتعلیم پنجاب رانا مشہود، سیکرٹری سکولز عبدالجبار شاہین اور پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے ایک نہایت ذمہ دار عہدیدار سے رابطے کی متعدد اور متواتر کوششیں کیں لیکن بات نہیں ہوسکی۔ وزیرتعلیم اور سیکرٹری سکولز کو متعدد بار فون کالز اور ایس ایم ایس کئے گئے لیکن روایت کے عین مطابق انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کیوں کہ شائد ہمارے حکمرانوں کے نزدیک یہ کوئی بڑا ایشو ہی نہیں، البتہ پی ای سی کے ذمہ دار علیل ہونے کے باعث بات نہیں کرسکے۔

سزا کا خوف استاد کو امتحانات میں ناجائزذرائع استعمال کرنے پرمجبور کرتاہے: مرکزی رہنما ٹیچرز یونین رانا لیاقت

پنجاب ٹیچرز یونین کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت علی نے اساتذہ کی طرف سے طلبہ کو خود پیپر حل کروانے اور کم نتائج پر انہیں سزائیں دینے کے سوال پر ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اس کی ذمہ دار حکومت ہے، جس نے استاد کو برطرفی اور سزائوں کے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ حکومتی اقدامات سے اساتذہ اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ پھر انہیں ایسا کرنا پڑتا ہے لیکن تمام اساتذہ ایسے نہیں ہیں۔ برے نتائج کا ذمہ دار استاد نہیں بلکہ حکومت کی وہ پالیسیاں ہیں جن کے تحت ہمارا شعبہ تعلیم مختلف طبقات اور نظاموں میں بٹا ہوا ہے۔ جب بچوں کو مئی اور ستمبر تک کتب نہ ملیں، اساتذہ کی 30ہزار آسامیاں خالی ہونے کی وجہ سے سینکڑوں سکول ایک ایک ٹیچر چلا رہا ہو تو معیار تعلیم بہتر ہوگا نہ نتائج اچھے آئیں گے۔ پی ای سی(پنجاب ایگزامینیشن کمیشن)کا نظام سکول کے انٹرنل امتحانی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا، ہم بچوں کو پورے پانچ سال ایک الگ طریقے سے امتحانات کی تیاری کرواتے ہیں مگر جب پی ای سی کا نظام آتا ہے تو بچے پریشان ہو جاتے ہیں۔ پھر میٹرک کے امتحان میں دیکھ لیں کہ جن لوگوں سے پیپروں کی مارکنگ کروائی جاتی ہے، ان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے رزلٹ اچھا نہیں بن پاتا۔ پوری دنیا میں پنجم و ہشتم کے امتحانات ایسے نہیں لئے جاتے جیسے پاکستان میں ہوتا ہے۔



اس سال 66کروڑ روپے ان امتحانوں پر خرچ کئے گئے لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے۔ پھر ایسے لوگوں کو پی ای سی جیسے اداروں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے، جن کا تعلیم سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ رانا لیاقت علی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جتنی بھی ہماری تعلیمی پالیسیاں بنیں، ان میں زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ تعلیمی پالیسیوںکی سب سے بڑی کمزوری مشاورت کی کمی ہے، اساتذہ کو براہ راست اس عمل میں شامل کیا جانا ضروری ہے لیکن ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں بلکہ ایک پالیسی بنا کر اسے نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اب جو نئی مجوزہ پالیسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اس میں 95فیصد تک نتائج نہ دینے والے اساتذہ کو سزائیں دینے کی تجویز ناممکن ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے، اگر ایک ڈاکٹر کے علاج سے مریض صحت یاب نہ ہو تو پھر کیا اسے سزا دی جائے گی؟۔ نئی مجوزہ پالیسی سے اساتذہ کو پریشان کیا جا رہا ہے، جو کسی طور بھی درست اقدام نہیں۔ ہم نے شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے وزیرتعلیم رانا مشہود کو بھی متعدد خطوط لکھے لیکن ان کے پاس ایک وقت میں کئی وزارتیں ہونے کے باعث ہم سے ملنے یا وزارت تعلیم کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ وزیرتعلیم کی طرف سے نظرانداز کئے جانے کے باعث نظام تعلیم کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، انہوں نے تعلیم سے متعلقہ سارا کام بیورو کریسی پر چھوڑ رکھا ہے۔

اساتذہ کاخود پیپر حل کروانا امتحانی نظام کی کمزوری ہے: ماہر تعلیم ڈاکٹر ایاز خان

ماہر تعلیم ڈاکٹر ایاز محمد خان نے ''ایکسپریس'' سے دوران گفتگو کم نتائج پر اساتذہ کو سزائیں دینے کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ استاد کا احتساب ضرور ہونا چاہیے کیوں کہ ماضی میں ایسا نہ ہونے سے ہمارا پبلک سیکٹر ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ سرکاری سکولوںکا معیار گر رہا ہے جبکہ پرائیویٹ سکول اچھے نتائج دے رہے ہیں تو اس میں واضح فرق استاد کا ہی ہے۔ برے نتائج پر استاد کو سزا دینے کے عمل کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ محنت کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ 95فیصد تک نتائج نہ دینے والے استاد کو سزائیں دی جائیں، جیسے کہ نئی مجوزہ تعلیمی پالیسی کے بارے میں سنا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں 50سے60فیصد نتائج کی پابندی بھی معقول ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں 90 فیصد سے کم نتائج پر استاد کو وارننگ جاری کر دی جاتی ہے تو وہ استاد مزید محنت پر مجبور ہو جاتا ہے، ایسا ہی سرکاری سکول میں بھی ہونا چاہیے۔ پوری دنیا میں استاد کی ایویلوایشن ہوتی ہے، بس ہمارے ہاں ہی یہ نظام اتنا کمزور ہے۔



ایسا بھی ہر سال دیکھنے میں آتا ہے کہ جو بچے نہم میں داخل ہوتے ہیں ان میں سے نالائق بچوں کو استاد کلاس سے باہر کر دیتے ہیں، نہم اور میٹرک میں صرف لائق بچوں کو سرکاری سکول کی طرف سے امتحان دلوایا جاتا ہے جبکہ نالائق بچوں کو پرائیویٹ داخلے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہیڈماسٹر اور استاد کو سختی سے اس چیز کا پابند بنایا جائے کہ وہ جتنے بچے نہم و دہم میں داخل ہوں ان سب کا داخلہ سرکاری سکول کی طرف سے ہی بھجوائیں کیوں کہ اس اقدام سے ہی اساتذہ کی حقیقی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ ڈاکٹر ایاز خان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کی طرف سے بچوں کو خود پیپر حل کروانا امتحانی نظام کی کمزوری ہے، جس کی ذمہ داری صرف استاد پر عائد نہیں ہوتی بلکہ حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ نظام و معیار تعلیم کی بہتری کے لئے سب سے پہلے حکومت کو خود موثر اقدامات کرنا پڑیں گے، جس میں پہلے نمبر پر اساتذہ کی تربیت کا اہتمام، دوسرا نصاب کی اصلاح اور تیسرا امتحانی نظام کا نقائص سے پاک کرنا ہے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں