میں ایک دہقان
میں ایک نہیں لاکھوں ، کروڑوں میں ہوں یہ کچا گھر صرف میرا نہیں تھا
ہوتا تو ہر بارش میں قطرہ قطرہ ہے، بوندیں برستی ہیں۔ ہم خشک زمینوں کے لوگ تھے ، کبھی کبھی آتی تھیں یہ بارشیں ، گھنے بادلوں کو دیکھ کر آنکھوں میں روشنی سی آجاتی تھی ، بارشوں کے بغیر ہم پیاسے رہ جاتے تھے، دریا سوکھ جاتے تھے، فصلیں پکنے سے پہلے جل جاتی تھیں۔
ہم کچے گھروں میں رہنے والے لوگ تھے، ہم پشت در پشت لاچار ، مسکین و غریب تھے، ہمیں بارشوں سے ڈر نہیں تھا ، ہماری چھتیں ٹپک تو پڑتی تھیں مگر زمین بوس نہیں ہوتی تھیں۔
ہمارے گھر کے باہر راستوں پر پانی تو جمع ہوجاتا تھا ، مگر یہ پانی راستے ہمارے آنگن توکیا اب تو جاکے ہماری چھتوں کو لگا ہے۔ اب تو ہمارے کچے گھرکیا ، پکے گھر بھی زمیں بوس ہوگئے ہیں۔
پورا سندھ ، ساؤتھ پنجاب خیبر پختونخوا اور بلوچستان دریا بن گیا۔ ایوانوں میں کسے خبر نہ ہوئی، وہ جلسہ جلسہ کھیلتے رہے ، انھیں کوئی بھی پرواہ نہ تھی، ہماری ، جب کہ ان کا جینا مرنا ، اقتدار تک پہنچنا ہمارے ووٹوں سے بنی سیڑھی سے ہوتا ہے۔ ہم ان کے جاہ و جلال ، اقتدارکا ایندھن ہیں۔ اس اقتدار کی ہوس میں غلطاں ، دھمکیاں یہ ایک دوسرے کو دیتے رہے۔
حکومتیں فوٹو سیشن کرتی رہیں کہ جلدی سے یہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرو کہ ہم دہقانوں کے پاس بارش میں گئے۔بس اک تھر تھا جس کی پیاس نہیں بجھتی، اس کی زمین ریت کے ٹیلے ہیں، پانی پی جاتی ہیں، اگر سمندر بھی بہا دو وہ بھی پی جائیں، مگر لاڑکانہ ، خیرپور، سکھر، ڈیرہ غازی خان، تونسہ، لسبیلہ ، کوئٹہ کی زمین تو ریت کے ٹیلے نہیں تھے۔ وہ جذب نہیں کرسکتے تھے بارشوں میں آیا یہ سمندر، وہ ابل پڑیں، خود ندی، نالا، دریا بن گئیں۔ سارا سندھ ، سندھو بن گیا۔ حد نگاہ بس پانی ہے اورکنارہ کہیں نہیں۔
ہمارے علاقوں میں کوئی راجہ، مہاراجہ نہیں رہتے ہیں، کوئی ہنر مند، کوئی انجنیئر ڈاکٹر نہیں ہیں، کوئی صنعتیں، کارخانے نہیں ! یہ سب کے سب کھیتی باڑی کرنے والے ہیں۔ ان کے بیچ میں ایک '' وڈیرا سائیں'' ہوتا ہے۔ کوئی پیر کوئی میر ہوتا ہے جس کی پراڈو ہوتی ہے جس کی بیٹھک اور اوطاق اونچے ٹیلے پر بنی ہوتی ہے، وہاں تک پانی نہیں آسکتا ، وہ جب اپنی پراڈو میں چڑھ کر ہمارے گھروں کو آتے ہیں تو ہم کشتیوں میں ہوتے ہوئے انھیں راستوں پر محفوظ مقام تک پہنچنے کے لیے للچاتے ہیں جب کہ ان کی پراڈو ان دریا مانند سڑکوں میں چل سکتی ہے ، وہ ہمیں دیکھنے آتے ہیں کہ ہم کیسے ہیں ،کیونکہ ہم ان کے ووٹر ہیں۔
اب یہ ہمارے پتیدار، مختیارکار، اسسٹنٹ کمشنر بہت خوش ہیں، میری اس بربادی پر ان کے پاس پیسے آئیں گے۔ ہمارے نام پر آٹا ، چینی، چاول آئے گا۔ وہ ساری امداد خود پر خرچ کردیں گے، بیچ دیں گے اور ہم وہیں کے وہیں۔
میں ایک نہیں لاکھوں ، کروڑوں میں ہوں یہ کچا گھر صرف میرا نہیں تھا ، ان لاکھوں خاندانوں کا تھا۔ سب کے سب ٹوٹ گئے، بکھر گئے۔ یہ کیسی دنیا ہے یہ کیسا پاکستان ہے۔ امیروں ، متوسط طبقے کے لوگوں کو نہ افراط زر مارتی ہے نہ یہ بارشیں ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں۔ یہ آپس میں لڑتے ہیں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے، اور ان کی اقتدار کی جنگ میں ملک پر قرضے چڑھ جاتے ہیں، ہمارے بچوں کا تعلیمی معیار اچھا کرتے ہیں نہ ہمارے لیے اسپتال ہیں اور نہ یہ ہمیں ہنر مند بناتے ہیں کہ ہم پھر ان وڈیروں، سرداروں، پیروں ، میروں کی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے۔
جب یہ حکمران ہمارا معیار زندگی بہتر نہیں کرسکتے کہ ہم ان کو اور کمانے کے دیں اور یہ اس رقم سے قرضے اتریں یہ الٹا اس روپے کی قدر گرا دیتے ہیں جس سے ہم آٹا خریدتے ہیں وہ مہنگا ہوجاتا ہے۔ اب تو ہم ایک پنکھا بھی مشکل سے چلا سکتے ہیں کہ بجلی کا بل دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ایک طرف ہمارے اوپر ان کے اقتدار کی جنگ میں افراط زر آئی اور جب ان پر قدرت ناراض ہوتی ہے تو گھر ان کا نہیں گرا ، گھر بھی میرا گرا۔
ہم بھوکے، مفلس، لاچار بے یار و مددگار، اس کھلے آسمان کے تلے جائیں تو جائیں کہاں۔ کئی دنوں سے ہمارے گھرکا چولھا نہیں جلا، نہ مویشی رہے جن کا دودھ ہو جو بچوں کو دے سکوں صاف اور شفاف پینے کے لیے پانی تو دورکی بات نہانے کے لیے بھی پانی نہیں جب کہ اور ہر سمت حد نگاہ تک سب دریا ہے۔
وہ جو ڈیرہ بگٹی میں گلوکار جس کے گائے ہوئے گانے پر لوگ رقص کیا کرتے تھے، جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس کے کئی مداح تھے۔ اپنے کچے گھر کے سامنے اپنی بچی کو گود میں لے کے آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ، وہ کوئی اور نہیں تھا وہ میں تھا۔ وہ جو تم سب تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھتے ہو اس تصویر میں میرا عکس ہے۔
میری بوڑھی ماں، بچوں اور بیوی کا عکس ہے۔ یہ سب تصویریں جو سوشل میڈیا کی زینت بنی ہیں میری بربادی کی ہیں، میرا تماشہ سجا ہے، دیکھو دیکھو غور سے دیکھو مگر تم میرے لیے کچھ کر نہیں سکتے، تم صرف ایک عہد کر لو یہ ملک آئین پر چلے گا ، یہاں اب کوئی آمریت نہیں آئے گی، تم صرف عہد کر لو پاکستان میں غیر ترقیاتی اخراجات کم کریں گے ، اس میں ہی میری بقا ہے، اس میں ہی میرے بچوں کی آزادی ہے۔
وہ جو تم نے قطار بچوں کی دیکھی تھی جو گیلی مٹی میں نہائے پڑے تھے، جن کو بارشوں کے ریلے بہا کے لے گیا تھا جن میں اب کوئی سانس باقی نہیں تھی، وہ میں تھا میرے بچے تھے، جب تم اسلام آباد کے چوراہوں پر دندناتے پھر رہے تھے، دھمکیاں دے رہے تھے میں اس وقت اس امید میں تھا کہ تم آؤ گے میرے پاس مگر تم نہیں آئے۔ تم شہری بابو تھے، تمہارے ووٹر بھی شہری تھے، تم ہم دیہات کے لوگوں کی داد توکیا ایک قطرہ بھی نہیں پاسکتے ہمیں تم سمجھ ہی نہیں سکتے۔
میرے دیہات میں، میرے گاؤں میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم غلام در غلام ، سات پشتوں سے ہیں، جس طرح یہ ملک چل رہا ہے۔ جس طرح یہ شرفا، مقروض اس ملک کو کر رہے ہیں اور جس طرح سے کچھ بھی ترقیاتی کاموں کے لیے نہیں رہے گا ، تو میں اسی طرح ہی رہوں گا۔ بارشیں تو پاکستان میں آئیں ، شہر ودیہاتوں میں آئیں۔ تو شہروں میں گھر کیوں نہ گرے ، میرے گھر اس لیے گرے کہ یہ کچے گھر تھے، تو یہ آفت خدا کی طرف سے نہیں آئی حکمرانوں کی طرف سے آئی ہے، یہ پاکستان شرفاء کاہے، میرا اور میرے بچوں کا معیار زندگی بہتر اگر نہیں ہوتا تو پھر میں کہاں جاؤں۔
اب تو یہ بارشیں بدتر انداز میں آئیں گی، اب تو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی بھی بڑھنے لگی ہے ، کب تک آپ پھر اس ملک کو اس طرح چلاتے رہیں گے، کب تک میری غربت پر چل کے تم اونچے محل بناؤ گے، عیاشیاں کر کے ہیلی کاپٹروں پر سیر سپاٹے کرو گے۔ روس سے دوستیاں کروگے، دنیا کے ظالموں کے ساتھ اتحاد کروگے۔ تم دیکھو پھر میری تصویر، اسی سندھ میں، بلوچستان میں پنجاب و خیبر پختونخوا میں، گلی گلی، چپہ چپہ تمہیں موجودہ موہن جو دڑو کی طرح ٹوٹا پھوٹا ملے گا۔ تم آپس میں لڑتے رہو اور میں لٹتا رہوں اور پاکستان یوں ہی چلتا رہے گا ، لیکن کب تک۔''