بدعنوانیوں کا سیلاب
پچھتر برسوں میں اس ملک سے بدعنوانی کا لفظ ہی متروک کر دیا جاتا
میرے بچپن کی اٹھکھیلیوں کی سمت درست کرنے اور میری تربیت کے شعور کی نگرانی میری واحد پھوپھی جان کے ہاتھوں ہوئی۔ ان کا کام پٹنے سے بچانے اور شفقتی لہجے میں سمجھانے تک کا تھا ، پھر وہ لندن گئیں تو وہیں کی ہو گئیں، برسوں بعد واپسی ہوئی تو وہی ممتا بھری شفقت لیے مجھ سے گویا ہوئیں کہ '' تمہیں پتہ ہے کہ لندن کے سماج میں جو شخص اخلاقی بدعنوان ہو یا کوئی بچہ ٹیوشن لیتا ہوا دکھائی دے تو لندن کا سماج اس سے سماجی رشتہ توڑ لیتا ہے اور اس سے رابطہ منقطع کر لیتا ہے۔''
میں ان کی باتیں گرہ سے باندھنے کا عادی تھا ، سو اسی بات پر زندگی کو مزید توانا کرنے میں ، میرے نانا کا سیاسی گھرانہ اور ایوبی آمریت کے خلاف ہراول کردار ماموں علی مختار رضوی کے احتجاج ، قید و بند اور شاہی قلعے کے تشدد نے سیاسی سوچ کو توانا کیا ، بعد کو میری کمیونسٹ تربیت میں امام علی نازش ، ڈاکٹر مظہر حیدر ، لیاقت حسین ، میر احمد حسین کے علاوہ منصور سعید اور جام ساقی کا بھی حصہ رہا ، پھوپھی جان کے سبق کو بیٹیوں کی تعلیم کے دوران آزمایا اور میری چھ بیٹیاں اعلیٰ تعلیم کے دوران کبھی ٹیوشن ایسے مرض کا شکار نہ ہوئیں اور عام اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں تک ایم فل اور ڈاکٹریٹ تک پہنچیں۔
مجھے جب پھوپھی جان '' بد عنوانی'' یعنی کرپشن کے خلاف انگلینڈ کے سماج کے سوشل بائیکاٹ والی بات بتا رہی تھیں تو مجھے یاد آیا کہ 60 اور 70 کی دہائی تک ہمارے چھوٹے سے شہر دادو کا یہ ماحول تھا کہ محلے کا ہر بڑا چچا یا ماموں تھا اور اسے مکمل ہماری نگرانی اور باز پرس کا اختیار تھا کہ کہیں ہمارے محلے کا بچہ کسی غیر اخلاقی برائی کا شکار نہ ہو جائے، جب کہ بد عنوانی کا تصور بھی کبھی ہمارے ذہن میں نہ آیا۔ البتہ یہ ضرور دیکھا کہ نہ ٹیوشن کا رواج تھا اور نہ اس کو پسند کیا جاتا تھا ، ہاں بس اگر کوئی شخص اخلاقی برائی میں مبتلا دکھائی دیا یا ہوتا تو محلے کے افراد اس سے ملنا ترک کر دیا کرتے تھے اور اس کے گھر پر جانا آنا سماجی برائی کا نشان سمجھتے تھے اور ان کے بچوں میں بیٹھنے سے دور رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔
آج ہمارے اس سماج میں بدعنوانی یا کرپشن تمغہ اور شان و شوکت کی نشانی سمجھا جانے لگا ہے، بلکہ اکثر یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ '' ارے چھوڑیے صاحب کرپشن اب برائی کہاں رہی، جس کو موقع ملتا ہے وہ کرتا ہے اور جسے موقع نہیں ملتا وہ اپنی بے بسی پر کرپشن کو برا سمجھتا ہے۔''
میں جب پھوپھی جان کے برطانوی سماج کی اس اخلاقیات کی بات یاد کرتا ہوں تو مجھے 1970 سے پہلے کا پاکستانی سماج بھی برطانوی سماج کی مانند قانون کا پابند ، اخلاقی گراؤٹ سے دور ، محنتی اساتذہ اور ہر شخص سماج کی قدریں بلند کرتا ہوا دکھائی دیا۔ ہمیں یاد ہے کہ بورڈ کے امتحانات کے قریب آتے ہی ہمارے اساتذہ اسکول کے فرائض کے بعد نہایت ذمے داری سے شام کی کلاسز لیا کرتے تھے کہ ہمارے اسکول کا کوئی بچہ بورڈ کے امتحان میں ہزیمت نہ اٹھائے، بلکہ مجھے یاد ہے کہ ہم نے کسی استاد کو شہر میں گھومتے پھرتے یا ہوٹل میں بیٹھے نہ دیکھا ، یہی اساتذہ کا وہ سماج کی قدروں کو قوی کرنے کا رویہ تھا کہ اس وقت کے طلبا ہوٹل میں بیٹھنے کو شاید آج بھی سماجی ارتقا میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کوئی بھی سماج کرپشن یا بدعنوان کیوں ہوتا ہے، اس کی بنیادی وجوہات کیا ہوتی ہیں۔ تاریخ کے مطالعے کی روشنی میں جب کوئی بھی ملک آمرانہ سوچ یا اقتدار کو کسی بھی ایک فرد یا طاقتور اداروں کے حوالے کرے گا یا طاقت سے ملک چلانے اور سیاسی حکمرانوں کو کنٹرول کرنے کی طرف جائے گا تو وہاں مطلق العنانی چاہے فرد کی ہو یا ادارے کی، وہ کسی طور سماج کی تمام پرتوں میں قانون اور آئین کا اطلاق نہیں کر پائے گی۔ اس کا خطرناک پہلو سے حاکم کی مرکزیت ہوتی ہے، جو کسی بھی سماج میں آخرکار گھٹن اور لا پرواہی کے ساتھ کام سے عدم دلچسپی پیدا کرتی ہے، اس خرابی کو دور کرنے کا دنیا میں مناسب حل '' اختیارات کی نچلی سطح پر منصفانہ تقسیم'' کو قرار دیا گیا ہے۔
اس مرحلے پر اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو 60 اور 70 کی دہائی تک قانون و انصاف کے برطانوی نظام کی وہ نشانیاں یا اثرات باقی تھے جو ملکی سماج میں بدعنوانی یا اقربا پروری کو روکے ہوئے تھے ، مگر شاید یہ آمر جنرل ایوب کے دور میں حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے سماج میں ''بدعنوانی'' کو کھلا چھوڑنا ضروری سمجھا گیا ، جس واسطے عوام کے اندر آسانی اور آسائش پیدا کرنے کے نام پر ہر ناجائز ذرایع سے پیسہ کمانے کا رجحان پیدا ہوا، یوں یہ مقصد حاصل کیا گیا کہ عوام ''بدعنوانی'' میں مبتلا ہو کر اقتدار کے مطلق حکمرانی کے اداروں کے غیر جمہوری اقتدار میں سیاسی طور سے رکاوٹ نہ بنیں اور '' اسٹبلشمنٹ '' من مرضی ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہے۔
یہ بات بھی حقائق سے قریب ہے کہ قانون اور انصاف کے نشانات کو محسوس کرتے ہوئے ایک منتخب جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے نکالا اور ضیا کی آمریت برپا کی گئی۔ ضیا نے بچے کچھے بہتر سماج کی اخلاقی ، معاشی ، سیاسی اور سماجی قدروں کو پالیسی کے ذریعے تباہ و برباد کیا تاکہ ملک اور عوام سماجی سیاسی اور جمہوری آزادی کی سوچ کی جانب نہ جاسکے ، جس میں سیاسی سوچ سے نسل کو دور رکھنے کے لیے طلبا یونین پر غیر آئینی پابندی لگائی ، جو آج تک جمہوری حکومتیں بھی نہیں اٹھا پائی ہیں، جس کا خطرناک اظہار آج غیر سیاسی سوچ کی شکل میں موجود ہے جس نے سیاسی ، سماجی اور اخلاقی طور سے پورے سماج کو آلودہ کر دیا ہے اور ملک کو یہ پھر فرد کی مطلق العنانیت کی جانب لے جانے کی تگ و دو میں ہیں۔
پاکستان میں سرکاری محکموں میں بدعنوانی روکنے کے لیے انسداد بدعنوانیAnti Corruption کا ادارہ بنا، جس کا کام بدعنوانی کی شکایات پر بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا ، مگر آمرؤں کی مداخلت کی بنیاد پر اس ادارے میں پائی جانے والی بدعنوانی کا تدارک آج تک کوئی حکومت نہ کر سکی اور یوں اب یہ ادارہ سرکاری سے ہٹ کر عام افراد کے لیے درد سر بنا ہوا ہے ، جب کہ مجاز حکام خواب غفلت میں پڑے ملک کو دہشت وحشت اور بدعنوان بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پچھتر برسوں میں اس ملک سے بدعنوانی کا لفظ ہی متروک کر دیا جاتا ، مگر اقتدار کے بھوکوں نے مزید ایسے اداروں کے قیام سے بدعنوانی کے دروازے کھول دیے، سیلاب اور آفت زدگان کی امداد کے ادارے میں سابقہ تحریک انصاف کی حکومت نے عالمی صحت کے ادارے کی جانب سے 30 ارب کے غبن پر انکوائری تک نہیں کی ، اور نہ قوم کے 30 ارب کا حساب لے سکے۔ اسی طرح دیگر اداروں میں بھی ہونے والی کرپشن کا کوئی حساب نہیں لیا گیا۔
سوچتا ہوں کہ پھوپھی جان کے اخلاقی سماج کی تشکیل کی دیرینہ خواہش کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے گا کہ اب تو گھر گھر بدعنوانی کو ''آمدنی'' کے کپڑے پہنا کر سماج میں جائز سمجھ لیا گیا ہے۔