کیا جمہوریت کی بساط الٹ سکتی ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں عمران خان کے حق میں فضا ہموار ہوگئی ہے
کراچی کے حلقے245 کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار مولوی محمود کامیاب ہوئے ہیں ، ان کے مقابلے میں کراچی کی کبھی شکست نہ کھانے والی ایم کیو ایم کے امیدوار معید انور شکست کھا گئے ہیں۔ اس غیر متوقع شکست پر ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے کہا ہے کہ عمران خان اس جیت کو مکمل نہ سمجھیں ، یہ بس ایک فضا ہے جو اس وقت قائم ہوگئی ہے۔
تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں عمران خان کے حق میں فضا ہموار ہوگئی ہے اور وہ کراچی میں اپنے امیدوار کی کامیابی پر جتنا بھی خوش ہوں وہ کم ہے کیونکہ کراچی گزشتہ چالیس سال سے متحدہ کے زیر اثر رہا ہے۔ یہاں کئی سیاسی پارٹیوں نے متحدہ کا سحر توڑنے کے لیے زور لگایا مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ عام انتخابات میں بھی کراچی میں غیر متوقع طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کئی نشستیں جیت لی تھیں جن پر پہلے ہمیشہ متحدہ ہی کامیاب ہوتی رہی تھی۔ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ انھیں خلائی مخلوق نے کامیابی دلائی ہے مگر اس وقت تو عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے کافی دور ہیں ، اب پہلے جیسی بات نہ ہونے کی وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ اب کراچی میں ایم کیو ایم کی مقبولیت میں ضرور کمی آئی ہے۔
کراچی کے آزاد اور غیر متعصب حضرات کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی کراچی میں جیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ کراچی میں چالیس سالہ نفرت اور تعصب پر مبنی بانی متحدہ کی تحریک دم توڑ چکی ہے ، بقول پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اب کراچی کے عوام ڈر و خوف کی فضا سے باہر آچکے ہیں اور انھوں نے لاشوں کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا ہے۔ اب کراچی میں امن و امان قائم ہو گیا ہے اور کراچی کے تمام طبقے مل جل کر اس شہر کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت پورے ملک میں عوام پی ٹی آئی کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں مگر جہاں تک پی ٹی آئی کی پالیسیوں کا تعلق ہے، ان سب کا انحصار عمران خان کی ذات پر ہے اور ان کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ یو ٹرن لینے میں ذرا دیر نہیں لگاتے چنانچہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیندہ عام انتخابات تک ان کے موڈ کا کیا حال رہتا ہے وہ اداروں کے قریب ہوں گے یا چھیڑ چھاڑ کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔
انھیں ملک کو چلانے کے لیے چار سال ملے تھے۔ یہ کوئی کم وقت نہیں تھا وہ چاہتے تو عوامی وعدوں کو پورا کرسکتے تھے۔ ملک کو ریاست مدینہ نہیں تو ملک میں مثبت تبدیلی ضرور لا سکتے تھے مگر افسوس کہ وہ سارا وقت حزب اختلاف کو اکھاڑ کر پھینکنے میں صرف کرتے رہے۔ پھر آئی ایم ایف کی ایسی شرائط تسلیم کرلیں جو سراسر عوام دشمن تھیں۔
آئی ایم ایف اب نئی حکومت کو بھی ٹف ٹائم دے رہی ہے اور نئی نئی شرطیں لگا رہی ہے۔ شاید وہ نئی حکومت کو بھی سابقہ حکومت کی طرح ٹریٹ کر رہی ہے ، تاہم اس مشکل صورتحال میںوزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو اب اپنی کارکردگی دکھانی چاہیے۔ ایک طرف وہ سابقہ حکومت کی کارکردگی پر زبردست نکتہ چینی کر رہے ہیں تو دوسری طرف خود بھی ویسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انھیں دیکھنا چاہیے کہ اس وقت عوام سخت اذیت کا شکار ہیں مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی ہے ساتھ ہی بجلی اور گیس کے روزبروز بڑھتے ہوئے عذاب نے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کردیا ہے۔
نہ تو نوکری ملتی ہے اور نہ ہی کاروبار چلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عوام کی حالت بہت خستہ ہے مگر لگتا ہے ہمارے رہنماؤں کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ تو سب اقتدار کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس وقت کرسی کے لیے ملک میں ایسی خوفناک جنگ جاری ہے کہ عوام کو تو چھوڑو انھیں ملک کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ حالانکہ انھیں پتا ہے کہ ہمارا ازلی دشمن تاک میں بیٹھا ہے وہ ملک کے حالات مزید خراب ہونے اور عوام کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کا شاید بے چینی سے انتظار کر رہا ہے۔
موجودہ حالات سے لگ رہا ہے کہ عام انتخابات کے ہونے سے قبل ہی ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ عمران خان مسلسل بھارت اور مودی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں وہ اپنے ہر جلسے میں وطن عزیز کو بھارت کے مقابلے میں کم تر ثابت کر رہے ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ وہاں بی جے پی نے حزب اختلاف کو کرش کردیا ہے ، پورے بھارت میں اس وقت یک جماعتی نظام چل رہا ہے۔ انسانی حقوق کی حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے ، اس سے تو ہٹلر کی روح بھی تڑپ رہی ہوگی۔
انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی شدید احتجاج کیا ہے مگر مودی نے احمد آباد سے جس ظلم اور بربریت کی ابتدا کی تھی وہ اسے کیسے روکے کہ ایک دودھ والے سے بھارت کے وزیر اعظم کے مرتبے تک پہنچانے والی اس کی آقا دہشت گرد جماعت آر ایس ایس اسے نوکری سے ہی بے دخل نہ کردے۔
بھارتی وزیراعظم مودی جیسے سفاک قاتل کی پاکستان میں تعریف اور توصیف کی جانا ساتھ ہی شاتم رسولؐ سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی جانا ہم پاکستانیوں کے لیے باعث شرم ہے۔ ہمارے بے خبر اور باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو جب یہاں اپنے عوام کی فکر ہی نہیں تو انھیں مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے پاکستانیوں سے کیا دلچسپی ہوگی۔ حسینہ واجد کی انتہا پسند حکومت نے ان کا وہاں جینا حرام کر رکھا ہے۔ انھیں کھلم کھلا دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔
آج بھی وہ ڈھاکا کے جنیوا کیمپ میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نہ بچوں کے لیے اسکول ہیں اور نہ نوجوانوں کے لیے نوکریاں، اس لیے کہ ان کے پاس بنگلہ دیش کی شہریت نہیں ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان اپنے مفادات سے نکل کر کبھی ملک و قوم کا سوچیں گے؟ لگتا ہے وہ ماضی کی طرح پھر اقتدار کی جنگ میں الجھ کر خود ہی جمہوری بساط کو الٹنے کے درپے ہوگئے ہیں۔ کیا انھیں یاد نہیں کہ جب جب وہ ملک کو چلانے میں ناکام ہوئے ہیں تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو ہی حالات کو درست کرنے کے لیے آگے آنا پڑا ہے۔