سیلاب ‘عوام اور سیاستدان
لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے بعض حکمران کسی خونی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ بندے بن جائیں
کینیڈا کی روداد سفر ابھی جاری تھی کہ ملک میں سیلاب کی وجہ سے حالات خوفناک حد تک دگرگوں ہو گئے ہیں لہٰذا کینیڈا کی روداد اگلے کالم تک اٹھا رکھتے ہوئے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بات کرتے ہیں جن کو کیمرے کی جھوٹ نہ بولنے والی آنکھ مسلسل دکھا رہی ہے۔
کیمرہ ہمیں ہماری بربادی کے نظارے بلا کم وکاست دکھا رہا ہے جن کو دیکھ کر عوام تو پریشان ہیں ہی لیکن ہماری اشرافیہ کو بھی کچھ شرم آئی ہے۔ ارباب اختیار نے بے حال اور بے بس عوام کے در پر حاضری لگوانا شروع کر دی ہے۔آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر ان تکالیف کا احساس ہی نہیں ہو سکتا جو بپھرے ہوئے سیلابی پانی میںگھرے انسانوںکو درپیش ہیں ۔ اگر صاحب حیثیت طبقہ مشکل وقت میں غریبوں کی مدد نہ کرے تو بستیاں تباہ ہوتی ہیں۔
سیلابی صورتحال میں بے گھروں کو عارضی پناہ فراہم کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت خیموں کی ہوتی ہے۔ ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ بازار میں ان خیموں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خیبر پختونخواہ ، جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی وجہ سے تباہی دیکھنے میں آرہی ہے۔ موجودہ تباہی نے ہماری چولیں ہلا دی ہیں۔
تباہی و بربادی کا ایک کے بعد دوسرا ریلا نمودار ہو جاتا ہے۔ یعنی پورا پاکستان سیلاب کی تباہیوں کی زد میں ہے اور پانی کا طوفانی ریلا جہاں جہاں سے گزرتا گیا صفائی کرتا گیا۔ نہ کوئی دیوار سلامت ہے نہ کوئی کھیت پہچانا جاتا ہے، مال مویشی جو ذریعہ روزگار تھے وہ اس طوفان کی زد میں آکر زندگی ہار رہے ہیں ۔کہاں کا چین اور کہاں کی نیند، بچے، بوڑھے، نوجوان، خواتین اور پالتو جانوروں کی حالت زار نے نیند اڑا رکھی ہے۔
سوچتا ہوں کہ جب پانی اترے گا تو نیچے سے جو زمین دکھائی دے گی وہ کس کی ہوگی، اس کا مالک کیا وہی ہوگا جو کل تھا کیونکہ کسی کھیت کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دیتی ۔ پٹواری بھی بے بس ہوں گے کہ کسی کھیت کی تلاش کہاں سے شروع کریں، کوئی نکتہ آغاز تو ہو۔
پٹوار خانے میں لٹھے اور کاغذات میں تو سب کچھ ہو گا لیکن زمین پر یہ سب کہاں ہو گا ،کسی کا گھر کہاں تھا، درختوں کی نشانیاں بھی تو جڑوں سے اکھڑ گئی ہیں ۔ پانی کے تیز رفتار اور مسلسل ریلے نے زمین سے سب کچھ بہا دیا ہے اور کسی چیز کو نہ جانے کہاں لے جا پھینکا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جو کہ عوامی خدمت میں پیچھے نہیں رہتے، ان کے لیے اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ بحالی کا کام کہاں سے شروع کیا جائے ۔
شہباز شریف مخلوط وفاقی حکومت کے سربراہ ہیں لیکن پنجاب اور سندھ کی حکومتیں انھیں ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہی ہیں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آفت کے موقع پر پاکستانی کی حکومتیں منقسم ہیں جس میںسب سے زیادہ فائدہ افسر شاہی کا ہے اور سب سے زیادہ نقصان عوام اٹھائے گی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف عوامی فلاح اور ترقیاتی کاموں کا شہرہ رکھتے ہیں، اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بھلا کر اپنے ہم وطنوں کی بحالی کے کام میں جت جانا چاہیے۔سیاست کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔ لیکن ابھی تک ایسی کوئی بھی صورتحال دیکھنے میں نہیں آرہی اور نہ ہی اس کی توقع اور امید کی جارہی ہے چونکہ ہمارے سیاستدانوں کو عوام سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں حالانکہ ان کے سیاسی مفاد عوام سے ہی وابستہ ہیں اور عوام توان کی نظر میں وہ بھیڑ بکریاں ہیں جن کو وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ہانک کر لے جائیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے بعض حکمران کسی خونی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ بندے بن جائیں ورنہ خونی انقلاب آئے گا، وہ کس کو ڈراتے ہیں یہ پتہ نہیں چل سکا اور نہ یہ پتہ چل سکا ہے کہ خونیں انقلاب کون لائے گا، ہر سمت پھیلی ہوئی اخلاقی تباہی دیکھ کر تو کوئی انقلابی دور دور تک نظر نہیں آتا، مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ یہ قوم کہیں کسی سیلاب میں بالکل بہہ نہ جائے۔ کہتے ہیں کہ ایک قوم کسی ناگہانی آفت کا شکار ہوکر فنا ہو گئی تھی، اس قوم کی بستی کے تباہ شدہ آثار دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں اور قریب سے گزرنے والے قافلوں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے یہاں سے جلد ازجلد گزر جایا کریں۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں مایوسی کی باتیں کر رہا ہوں لیکن مجھے اپنے گردو پیش میں ایسے ہی حالات اور لوگ دکھائی دیتے ہیں، بس بیچارے سیلاب زدگان اپنے امراء اور پالیسی سازوں کے گناہوں کا کفارا ادا کررہے ہیں لیکن اﷲ اپنے غریب اور بے وسیلہ بندوں کے دکھ و الم دیکھ رہا ہے اور اﷲ کوئی نجات کا راستہ پیدا کر دے گا۔