سیلاب زدہ بلوچستان آپ کی مدد کا منتظر ہے

بلوچستان کے لوگوں کو بے یارو مددگار حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے


عبدالکریم August 31, 2022
سیلاب کی تباہ کاریاں اندازے سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کالی گھٹائیں مسلسل برستی رہیں۔ اس دورانیے میں بلوچستان کے بیشتر لوگ اپنا سب کچھ کھونے کے ڈر سے جاگتے رہے۔ لیکن پھر بھی بارش کے بے رحم پانی نے سیکڑوں لوگوں سے ان کا آشیانہ چھین لیا۔ یہ لوگ کھلے آسمان تلے بلکتے، بھوکے پیاسے بچوں کے ساتھ دن و رات گزارنے پرمجبور ہیں۔

ان ہی لوگوں میں خان محمد کوئٹہ کے نواحی علاقے مشرقی بائی پاس کے رہائشی بھی شامل ہیں۔ خان محمد کے چہرے پر بے بسی اور لاچاری کی لکیریں سیلاب کی تیز لہروں کی طرح ہچکولے کھا رہی ہیں۔ وہ بیلچے پر ٹھوڑی رکھ کر اپنے گرے ہوئے مکان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ان سے ان کا مکان یعنی زندگی بھر کی کمائی ایک دن بارش چھین لے گی۔

خان محمد کے تاثرات دیکھ کر میں اس کے قریب گیا اور ان کے خیالوں کے تسلسل کو توڑتے ہوئے حال پوچھا۔ کہنے لگا زندگی میں بیروزگاری اور تنگدستی کا درد جب سے نوجوانی میں قدم رکھا ہے تب سے جھیل رہا ہوں۔ لیکن صرف ایک ہی اطمینان تھا کہ ایک گھر تو اپنا ہے، چاہے وہ مٹی سے بنا گھروندہ کیوں نہ ہو۔ لیکن اب یہ خوشی بھی بارشوں نے چھین لی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کروں تو کیا کروں۔ بے گھر ہوچکا ہوں۔ میرے بچے چھت سے محروم ہوچکے ہیں۔ بہت تکلیف دہ ہے جب کچھ لمحوں میں آپ کا آشیانہ گیلی مٹی کا ڈھیربن جائے۔ زندگی کے دکھ جھیلے ہوئے ان کے چہرے کی جھریوں میں بے بسی کو باآسانی پڑھا جاسکتا تھا۔

مون سون کی حالیہ تباہ کن بارشوں نے بلوچستان میں خان محمد کی طرح سیکڑوں کہانیوں کو جنم دیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق اب تک بلوچستان میں 242 افراد لقمہ اجل بنے اور 108 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان 242 افراد میں 112 مرد 71 خواتین اور 71 بچے شامل ہیں۔ مذکورہ اموات کوئٹہ، بولان، ژوب، دکی، خضدار، کوہلو، کیچ، مستونگ، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ اور سبی میں ہوئی ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 61488 مکانات منہدم اور جزوی طور پر گرگئے ہیں۔

بلوچستان میں سڑکیں پہلے ہی خستہ حال تھیں۔ حالیہ بارشوں سے پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے کی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے صوبے میں آمدروفت میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ صوبے کے مختلف مقامات پر سڑکیں آمدورفت کےلیے مکمل طور پر بند ہیں۔ اس کے علاوہ 18 پل بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ مچھ کے قریب ہرک کے مقام میں واقع ریلوے کا ایک سو بیس سال قبل انگریزوں کا بنایا ہوا برج بھی سیلابی ریلے کی وجہ سے گرگیا۔ جس کی وجہ سے کوئٹہ تک ریلوے سروس بھی معطل ہے۔

نقصانات کا دائرہ یہاں تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان کی دو لاکھ آٹھ سو گیارہ ایکڑ کی زرعی زمین پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مشیر داخلہ ضیا لانگو کے مطابق فصلوں کے زیرآب آنے سے بلوچستان کو ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پانی کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں سات ڈیموں کو بھی نقصان پہنچا، جن میں سے تین مکمل طور پر ٹوٹ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ مال برداری، جس سے بلوچستان کے بیشتر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، یہ شعبہ بھی سیلاب کی زد میں آیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد مویشی سیلاب کی نذر ہوئے ہیں۔

حالیہ بارشوں سے بلوچستان میں مواصلات کا نظام درہم برہم ہے، کئی دنوں سے موبائل سگنل نہیں، جس کی وجہ سے رابطوں میں شدید مشکلات درپیش پیں۔ صوبے کے دور دراز علاقوں میں اب تک امدادی کارروائی شروع ہی نہیں ہوسکی اور نہ وہاں ہونے والے نقصانات کا درست اندازہ لگانا ممکن ہے۔ اسی بابت بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے پی ڈی ایم اے کو حکم دیا کہ جن علاقوں تک گاڑیوں اور کشتیوں سے رسائی ممکن نہیں ان علاقوں میں ہیلی کاپٹرز کی ذریعے امدادی کارروائیاں شروع کرکے لوگوں کو ریسکیو کیا جائے۔

بارشوں سے بلوچستان میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ بلوچستان حکومت کے بس کی بات نہیں، اس مد میں ریاست کو ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔ اگر خدانخواستہ بلوچستان کے لوگوں کو بے یارو مددگار حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

حکام بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں اندازے سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ بحالی کے عمل کو طویل وقت درکار ہے۔ شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ سیلاب متاثرہ علاقوں سے سفر کرتا آیا ہوں۔ تباہی میرے اور آپ کے تصور سے زیادہ ہے۔ انفرادی امداد اچھا جذبہ، مگر بربادی ریاستی سطح سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوستو، ساری توجہ حکومت اور ریاست اور یو این او کو جھنجھوڑنے پر لگائیے۔ شور مچائیں، زور لگائیں۔ لوگوں تک بلوچستان کے تباہ حال خاندانوں کا احوال پہنچائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں