آرمی چیف کی کالام میں ناجائز تعمیرات پر ایکشن کی ہدایت
سندھ میں ارکان اسمبلی اور وزرا کی جیسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ بھی افسوسناک ہے
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوات اور کلام کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورہ کے بعد مقامی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالا م میں غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا ہے کہ 2010کے سیلاب میں بھی یہاں ایسی ہی تباہی ہوئی، دوبارہ انھی جگہوں پر تعمیرات کرنے کی اجازت دے کر غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔میں سمجھتا ہوں آرمی چیف نے ایک اہم نقطے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کے پی میں سیلاب سے تباہی کی ایک بڑی وجہ تجاوزات بھی سامنے آئی ہیں۔
یہی نہیں دریا کے کنارے پر عمارتیں بنانے کی اجازت دی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی سے زیادہ بارش ہوئی تو پہاڑی علاقوں میں ندی نالے اوور فلو ہوگئے اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئے، یوں خطرناک جگہوں پر قائم عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تجاوزات واحد وجہ ہیں لیکن تباہی کے اسکیل کو بڑھانے میں تجاوزا ت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
آرمی چیف نے کلام میں تجاوزات اور ناجائز تعمیرات کی بات کی ہے لیکن دریائے سوات کے کناروں پر تجاوزات اور ناجائز تعمیرات نے بھی تباہی میں بہت اضافہ کیا ہے۔ دریائے سوات کے کنارے ہوٹل کی تباہی کی وڈیو سب نے دیکھی ہے۔ لیکن کیا کوئی سوال کر رہا ہے کہ دریا کنارے اس ہوٹل کو تعمیر کی کس نے اجازت دی۔ اسی طرح دریائے سوات کے کنارے دیگر ایسے ہوٹل اور تعمیرات نے بھی سیلاب کی تباہی اور عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کی اس صورتحال پر بہت بات ہو رہی ہے۔ اب آرمی چیف نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کا رویہ رات گئی بات گئی والا ہے۔آرمی چیف نے ایک انتہائی اہم بات کی ہے ، اب اس پر تحقیقات کرانا اور ذمے داروں کو سامنے لا کر قانون کے سپرد کرنا، خیبرپختونخوا حکومت کا فرض ہے لیکن تاحال کے پی حکومت خاموش ہے ، ملک اور خیبر پختونخوا کے فہمیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ کے پی حکومت کم از کم یقین دہانی ہی کرادیتی کہ کے پی حکومت اس پر کارروائی کرے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ کے پی حکومت اس معاملے پرکوئی کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ایسے میں سوال ہے کہ اس قدر تباہی کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے اگر کے پی حکومت کوئی انکوائری نہیں کراتی تو پھر کیا آپشن ہوگی ؟ کیا نیب ایسی تجاوزات اور ناجا ئز تعمیرات کی انکوائری کر سکتا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ نیب اب اس قسم کی ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کی کوئی انکوائری کر سکتا ہے۔
اسی طرح ایف آئی اے کا دائرہ اختیار بھی نہیں بنتا۔ ایسے میں واحد ادارہ جو کوئی کارروائی کر سکتا ہے، وہ اینٹی کرپشن خیبر پختونخوا ہے یا کے پی پولیس کوئی کارروائی کر سکتی ہے۔ یہ دونوں ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں اور اس کے انداز سے یہی لگتا کہ وہ کسی قسم کی کوئی کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔
اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ یہ تمام تجاوزات اور ناجائز تعمیرات کے پی حکومت کی آشیر باد سے ہی ہوئی ہیں۔ دس سال سے تحریک انصاف کی کے پی میں حکومت ہے، اس لیے کے پی حکومت کے ذمے داران کو اندازہ ہے کہ اگر انھوں نے ایسی کوئی انکوائری کی تو یہ ان کے گلے کا پھندابن جائے گی۔ دریائے سوات کے کنارے پر قائم جس عمارت کے دریا برد ہونے کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، اس کے این او سی کی کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں کہ کس نے این او سی دلوایا اور کیسے دلوایا۔
میں سمجھتا ہوں آرمی چیف کی جانب سے توجہ دلانے کے بعد ملک بھر میں تجاوزات اورناجائز تعمیرات کی باعث سیلاب کی تباہی پرشفاف تحقیقات کے لیے ایک با اختیاراعلیٰ سطح کا نیشنل کمیشن بننا چاہیے جو ایسی ایک ایک تعمیراور ذمے داروں کی نشاندہی کرے ۔
جہاں سیلاب کے ریلیف کے کام کی اہمیت ہے۔ وہاں سیلاب کی وجوہات جاننے کی بھی اہمیت ہیں۔ ایسی ایک ایک تعمیر کے ذمے داران لوگوں کے قاتل ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ لوگ تباہ ہوگئے ہیں، اس لیے ان کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے۔
2010میں بھی ہم نے ان سب کو معاف کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ ان سب نے سمجھا کہ یہ تعمیرات جن کی وجہ سے سیلاب کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے، بنانا کوئی جرم ہی نہیں ہے، اس کی کوئی سزا ہی نہیں ہے۔ اس لیے دوبارہ بنا لی جائیں۔ اس بار جب مثالی سزائیں دی جائیں گی تو دوبارہ کسی کو ایسی جرات نہیں ہوگی۔ ان سے کسی بھی قسم کی کوئی رعایت سادہ لوح عوام سے دشمنی کے مترادف ہوگی۔
ان پانچ بھائیوںیا دوستوں کے قتل کی بھی انکوائری ہونی چاہیے جو سیلاب میں گھر گئے اور ایک ٹیلے پر کئی گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن کوئی مدد کو نہ پہنچا ۔ یہاں کے ڈپٹی کمشنر اوردیگر افسران کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے۔
کے پی حکومت کا یہ موقف بھی مضحکہ خیز ہے کہ وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ریسکیو کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا، حالانکہ یہ لوگوں کو نکالنے کا کام تھا جو کوئی بھی ہیلی کاپٹر کر سکتا ہے۔اس پر خیبرپختونخوا حکومت کا عوام سے معافی مانگنے کی بجائے اس کی توجیحات پیش کرنا بھی افسوسناک ہے۔ بعدازاں وزیر اعلیٰ کے پی کی جیسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں، وہ ان کے سیلاب میں گھرے عوام اور صوبے کے تمام لوگوں کے بارے میں ان کے رویے کی عکاس ہیں۔
ویسے تو سندھ میں ارکان اسمبلی اور وزرا کی جیسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ بھی افسوسناک ہے۔ایک رکن اسمبلی منرل واٹر سے اپنے جوتے دھو رہے ہیں۔ لوگوں کی مشکلات کا مذاق ڑایا جا رہا ہے۔ ایک وزیر کو یہ سیلاب وینس کا منظرنظر آ رہا ہے۔
ایسے وزیر کو تو ویسے ہی فارغ کر دینا چاہیے، جو وزیر اعلیٰ اب تک سیلاب زدہ علاقو ں میں سیلاب زدگان کے درمیان نہیں گئے ہیں، ان کو بھی اپنے عہدے چھوڑ دینے چاہیے، اگر وہ سیلاب زدہ علاقوں میں نہیں جا سکتے اورسیلاب زدگان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو انھیں عہدہ پر بیٹھنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ ٹیکس پیئرز کے پیسوں پر اپنے پروٹوکول، مراعات اور اختیارات پر ایسے بے حس افراد کا کوئی حق نہیں ہے۔