انڈوپاک فنکاروں کی آمدورفت کا احوال

پاکستان اور بھارت کے درمیان فنکاروں کی آمدورفت کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا۔۔۔


خرم سہیل March 17, 2014
[email protected]

پاکستان اور بھارت کے درمیان فنکاروں کی آمدورفت کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو بہت سے فنکاروں نے بھی ہجرت کی۔ پاکستان سے کئی ہندو اور سکھ فنکار اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھارت چلے گئے، وہاں سے کئی مسلمان فنکار اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے۔ اس حوالے سے کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ پاکستان سے امرتا پریتم اور گلزار نے ہجرت کی تو بھارت سے سعادت حسن منٹو اور استاد بڑے غلام علی خان آئے۔ وقت جیسے جیسے گزرتا گیا، یہ آمدورفت کم ہوتی چلی گئی اور پھر ایک نکتے پر آکر جمود طاری ہوگیا۔

پاکستان اور بھارت کے مابین 1965 اور 1971 کی دو جنگیں ہوئیں اور آمدورفت کے تمام راستے مسدود ہوگئے۔ فنکار بھی اسی پابندی کا شکار ہوئے اور وہ لوگ بھی، جنھیں اپنے آبائی علاقوں سے محبت تھی، وہ لوگ اپنی آنکھوں میں نور اتارنے دم بھر کو زیارت کے لیے آجایا کرتے تھے۔ دونوں طرف کی سیاست نے جذبات کو کچلا اور فنکار بھی ان پابندیوں سے مجروح ہوئے۔

دونوں ممالک کی زبان جسے ہم ''اردو'' اور وہ ''ہندی'' کہتے ہیں، اس کے ذریعے دونوں طرف کے فنکاروں کے فن سے ہم عوام بخوبی واقف ہیں، اسی لیے دونوں طرف مداحوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، وہ سرحدی لکیر کو سوچے بغیر فنکار کو چاہتے ہیں، ہم سرحد کی باڑ کو دیکھے بغیر فنکار کو پسند کرتے ہیں، جب فنکاروں کی اتنی مقبولیت ہو تو انھیں دیکھنے اور سننے کو بھی دل چاہتا ہے۔

وقت کے بہاؤ پر دھیرے سے برف پگھلنا شروع ہوئی اور 80 کی دہائی میں آمدورفت کا سلسلہ بحال ہونا شروع ہوا اور کئی مرتبہ موقوف ہونے کے باوجود جاری ہے۔ دونوں ممالک کے فنکاروں نے ایک دوسرے کے ملکوںکا دورہ کیا اور مشترکہ ثقافتی منصوبوں پر کام بھی کیا۔ ہمارے کئی اداکاروں نے بھی وہاں کی فلموں میں کام کیا، کئی گلوکاروں نے اپنی آوازوں کا بھی جادو جگایا۔ بھارت سے بھی فنکار پاکستان آنے لگے اور یوں میل جول کے ساتھ ساتھ مل جل کر کام کرنے کا سلسلہ پھر سے چل نکلا۔

80 کی دہائی میں پاکستان کی معروف گلوکارہ ریشماں بھارت نجی محفل میں گانے کے لیے گئیں تو وہاں انھیں معروف بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار سبھاش گھئی نے سنا، تو بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے اس وقت اپنی آنے والی فلم ''ہیرو'' میں گلوکارہ ریشماں سے ایک گیت گوایا، جس نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ اسی طرح ایک اور پاکستانی اداکارہ اور گلوکارہ سلمیٰ آغا نے اپنی بھارتی فلم ''نکاح'' سے بھارتی فلموں میں پس پردہ گائیکی کی ابتدا کی۔ اس فلم میں ''دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے'' جیسا گیت گاکر اپنی جگہ بنائی۔ اس فلم کے سات گانوں میں سے پانچ سلمیٰ آغا نے گائے۔ یہی وہ فلم بھی تھی، جس میں انھوں نے راج ببر کے ساتھ اداکاری کی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا۔ اس فلم کی موسیقی بے حد زرخیز تھی اور پاکستان کی ایک اور منجھی ہوئی آواز غلام علی نے ''چپکے چپکے رات دن ''جیسا گیت گاکر اپنی آواز سے فلم بینوں کو مسحور کردیا۔

پاکستان سے دو مزید پاکستانیوں نے بھارتی فلمی صنعت میں قدم رکھا، ان میں سے ایک اداکار اور دوسرا کرکٹر تھا۔ 1989 میں دونوں کی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ یہ دونوں طلعت حسین اور محسن حسن خان تھے۔ طلعت حسین نے فلم ''سوتن کی بیٹی'' میں ایک وکیل کا کردار نبھایا، شاید ان کا یہ تجربہ بہت اچھا نہیں رہا، کیونکہ اس کے بعد انھوں نے مزید بھارتی فلموں میں کام نہیں کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ جیتندر اور ریکھا جیسے فلمی ستارے شامل تھے۔

پاکستانی کرکٹر محسن حسن خان جنھوں نے وہاں رینا رائے سے شادی بھی کی اور بھارتی فلموں میں بھی خوب کام کیا، بھارت میں ان کی پہلی فلم ''بٹوارہ'' تھی۔ اس فلم میں ان کے علاوہ دھرمیندر، ونودکھنہ، ڈمپل کپاڈیہ اور شمی کپور جیسے فلمی ستاروں کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم کے بعد بھی انھوں نے کافی بھارتی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

90 کی دہائی کے پہلے برس 1991 میں پاکستانی ڈراما نگار حسینہ معین نے راج کپور کی فرمائش پر بھارتی فلم ''حنا'' لکھی، جس میں پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے کام کیا، جب کہ ان کے مقابل رشی کپور جیسا بھارتی اداکار تھا۔ اسی طرح بھارتی فلمی صنعت میں پاکستانی شاعر قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گیتوں نے دھوم مچائی۔ اس کے بعد کئی مشاعرے بھی ہوئے، جس میں دونوں ممالک کے شاعر ایک دوسرے کے ہاں آئے اور گئے۔

قتیل شفائی نے بھارتی فلموں کی گیت نگاری میں اپنی دھاک بٹھائی اور بہت سے گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان ہی برسوں میں عدنان سمیع خان بھارت گئے اور آشا بھوسلے کے ساتھ اپنی میوزک البم ''سرگم'' کے لیے کئی گیت گوائے، مگر بعد میں سید نور کی فلم ''سرگم'' میں بھارتی فنکاروں پر پابندی کی وجہ سے یہ گیت حدیقہ کیانی کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔

1997 میں نصرت فتح علی خان نے بھارتی فلم ''اور پیار ہوگیا'' میں اپنا پہلا گیت گاکر شائقین موسیقی کے دلوں پر حکمرانی قائم کرلی۔ انھوں نے بھارتی گیت نگار جاوید اختر اور بھارتی موسیقار اے آر رحمان کے ساتھ بھی ایک ایک البم پر بھی کام کیا۔ 1998 میں بھارتی فلمی صنعت کے شہنشاہ دلیپ کمار نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کے ہاتھوں اعلیٰ ترین سول اعزاز ''نشان امتیاز'' حاصل کیا۔

2000 کی دہائی کی ابتدائی برس کافی متحرک ثابت ہوئے اور اب بھارتی فنکاروں کی آمد کے سلسلے میں تیزی آئی۔ 2001 میں ''کراچی بین الاقوامی فلمی میلہ'' شروع ہوا، جس کو کافی پسند کیا گیا، اس میں لگاتار کئی برسوں تک بھارتی فنکاروں کی پاکستان آمدورفت جار ی رہی، ان فنکاروں میں مہیش بھٹ، انوپم کھیر، عرفان خان، نندیتا داس اور دیگر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان سے معین اختر اور عمر شریف نے بھارت کے کئی دورے کیے۔ 2003 میں پوجابھٹ نے اپنی فلم ''پاپ'' میں پاکستانی شاعر امجد اسلام امجد کا لکھاہوا اور راحت فتح علی خان کا گایا ہوا گیت لیا، اس گیت سے راحت کے لیے بھارتی فلمی موسیقی کے دروازے کھل گئے۔ وہ اب تک درجنوں فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے ہیں اور پاکستان کے سب سے مہنگے گلوکار ثابت ہوئے ہیں۔

2004 میں بھارتی سپر اسٹار عامر خان پاکستان تشریف لائے اور عمران خان کی دعوت پر لاہور اور کراچی میں ان کے کینسر اسپتال کے لیے عطیات اکٹھے کیے۔ 2007 میں پاکستانی غزل گلوکارہ فریدہ خانم بھارت گئیں اور لتامنگیشکر سمیت وہاں کی بڑی شخصیات سے ملیں، جن میں بھارتی صدر من موہن سنگھ بھی شامل ہیں۔ پاکستانی صوفی گائیکی کی نمایندہ عابدہ پروین نے بھارتی شاعر، فلمی ہدایت کار، موسیقار مظفر علی کے اشتراک سے جشن خسرو میں اپنے سر بکھیرے اور متعدد البم میں اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ انھی برسوں میں عدنان سمیع خان، شفقت امانت علی خان، عاطف اسلم، جاوید بشیر، فیصل کپاڈیہ، رفاقت علی خان، علی عظمت، علی ظفر اور دیگر گلوکاروں نے بالی ووڈ میں اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ بھارت سے جگجیت سنگھ، دلیر مہندی، ہنس راج ہنس، سکھبیر، سونونگم، کمارسانو، الکا اور دیگر بھارتی گلوکار مختلف مواقع پر پاکستان آئے اور نجی محفلوں میں گایا۔

2009 میں پاکستانی اداکار ہمایوں سعید نے بھارتی فلم ''جشن'' میں اداکاری کی اور پاکستانی گلوکار نعمان جاوید نے گانے گائے۔ علی ظفر اب تک چار فلموں میں کام کرکے بھارتی فلم بینوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے فلمی حلقوں میں اپنا نام بناچکا ہے۔ بھارتی سینئر فلمی اداکار نصیرالدین شاہ نے دو پاکستانی فلموں ''خداکے لیے'' اور ''زندہ بھاگ'' میں کام کرنے کے لیے پاکستان کا رخ کیا۔

2013 میں بھارتی شاعر اور ہدایت کار گلزار پاکستان آئے، لاہور اور جہلم کا دورہ کیا۔ اسی برس کے آخر میں کراچی تشریف لائے، اس موقع پر انھوں نے ذرایع ابلاغ کو خبر نہیں دی، ان کے علاوہ جوہی چاؤلہ بھی متعدد بار اپنے رشتے داروں سے ملنے کراچی آچکی ہیں۔ پاکستان سے میرا، ویناملک، عمران عباس، جاوید شیخ، میکال ذوالفقار، مونالیزا، ثنا نے مختلف نوعیت کی بھارتی فلموں میں اپنے کردار نبھائے ہیں۔

پاکستان سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کراچی، اجوکا تھیٹر لاہور سمیت نوجوان فنکاروں پر مشتمل کئی وفود بھارت کے مختلف شہروں میں جاکر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں جاری ''عالمی تھیٹر میلے'' میں بھارت سے نوجوانوں پر مشتمل ایک تھیٹر کا وفد اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ دونوں ممالک کے فنکاروں کی آمدورفت کا سلسلہ 2014 میں اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔رواں برس کے پہلے تین مہینوں میں بھارت سے شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ، اوم پوری، دیویا دتہ آچکے ہیں۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے فنکار دونوں خطوں کے محبت کرنے والے عوام کو ایک دوسر ے سے قریب لانے میں کامیاب ہوں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں