حکومتی رٹ مضبوط کیجیے

اس وقت مرکز اور صوبائی حکومتوں میں سیاسی تناؤ ہے۔ لہٰذا سرکاری شعبہ مکمل طور پر یتیم سا نظر آتا ہے


راؤ منظر حیات September 03, 2022
[email protected]

قدرتی آفات ہر ملک میں آتی رہتی ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک یا خطہ بھی ایسا نہیں ہے جو مصائب سے مکمل طور پر محفوظ ہو۔ مغربی ممالک جو اس وقت ترقی کی معراج پر ہیں' زلزلے ' سیلاب اور بارشوں کا شکار رہتے ہیں۔

ہمارے ملک اور ان ممالک میں کئی طرح کے فرق ہیں۔ مگر ایک بنیادی خصوصیت جو ترقی یافتہ دنیا میں چٹان کی طرح موجود ہے' وہ حکومت کی اپنے کسی بھی فیصلے کو عملدرآمد کروانے کی طاقت ہے۔ یعنی مغربی ملکوں میں ریاست جو چاہتی ہے، وہ حقیقت میں ہوتا ہے۔

ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں کسی بھی حکومتی ادارے کی اپنے فیصلوں پرعملدرآمد کروانے کی استطاعت حد درجہ کم ہے۔ صرف ایک اسی تفریق سے پاکستان جیسے ملک میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنا حد درجہ مشکل ہو چکا ہے۔ اگر یہ لولے لنگڑے ادارے بھی نہ ہوں تو پھر ہم کہاں کھڑے ہونگے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے اپنے حکومتی نظام کو دھیرے دھیرے اتنا کمزور تر کر لیا ہے کہ اس میں وہ ہمت ہی نہیں کہ کسی قسم کے امتحان میں سے گزر سکے۔

اس کے متضاد نکتہ بھی حد درجہ اہم ہے۔ جس بھی معاملہ پر ملکی قیادت فیصلہ کر لے۔ آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کام ہمارے جیسے نحیف ملک میں بھی سو فیصد ہو جائے گا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فیصلہ کرنے والا وزیر اعظم یا صدر اپنے فیصلے کے متعلق کتنا سنجیدہ ہے۔ کووڈ کی مثال سامنے رکھیے۔ فراموش کر دیجیے کہ اس وقت وزیراعظم کون تھا۔ حکومتی ٹیم نے مرکز اور صوبائی سطح پر جس بہترین طریقے سے کووڈ جیسے مرض کو کنٹرول کیا، جس اعلیٰ طریقے سے حفاظتی ٹیکے لگائے گئے ۔

پوری دنیا اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ پاکستان کی حکومتی پالیسی کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بیان دیا کہ کووڈ کے معاملے میں دنیا کو پاکستان سے سیکھنا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہواکہ کووڈ جیسی آفت کے مہیب نقصان سے ہم کافی حد تک محفوظ ہو گئے۔ بالکل اسی طرح پانچ چھ سال پہلے پنجاب میں صوبائی حکومت نے جس طرح ڈنگی کو قابو کیا' وہ بھی ایک مثالی قدم قرار دیا گیا۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے حکومت اگر تگڑی ہو کر فیصلہ کر لے تو آج کے گئے گزرے ماحول میں بھی وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

ہم لوگ اگر کام کرنے پر آ جائیں تو یقین فرمائیے پہاڑ کو رائی کر ڈالتے ہیں۔ مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا طرز عمل کیا ہے۔ کیا سیلاب سے کامیابی سے لڑا جا رہا ہے یا کہیں کوئی سقم ہے؟

موجودہ سیلاب کے بارے میں حد درجہ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ ہر نکتہ نظر سامنے آرہاہے۔ اس مہیب آفت سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہے، ایک عجیب بات سامنے آئی ہے۔ حکومتی کام کرنے کی قوت کو حددرجہ کمزور بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسے بتایا جا رہا ہے کہ حکومتی ادارے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ وہ بالکل فارغ بیٹھے ہوئے ہیں۔ چند سماجی این جی اوز یا نجی اداروں کے کام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسے کہا جاتا ہے کہ ریاستی اور حکومتی مشینری بالکل کام نہیں کر رہی۔ تمام کوتاہیوں کے باوجود' مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہی ہیں۔

سرکاری عمال ہر لمحہ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ کئی ایسے افسروں کو جانتا ہوں جنھوں نے اس سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کے لیے کمال کام کیا ہے۔ ان میں خواتین افسر بھی شامل ہیں۔ مگر ان بیچاروں کا کوئی ذکر تک کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ ایک خاتون ضلعی افسر نے کے پی، کے ایک ضلع میں جس محنت اور لگن سے کام کیا ہے ' کسی مقام پر بھی اس اعلیٰ ڈیوٹی کرنے کے چلن کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ خود بتایئے۔ کون سا چیف سیکریٹری' آئی جی' ضلعی یا تحصیل کا افسر ہے جو بھرپور کام نہیں کر رہا۔ مگر میڈیا میں ان کے کام کی کوئی پذیرائی نہیں۔ ایسا کیوں ہے۔

اس کا جواب کم از کم میرے پاس نہیں ہے۔ یا شاید اگر جانتا بھی ہوں تو لکھنا نہیں چاہتا۔ ہمارے نظام میں ایک چلن ہے۔ ہم اچھائی دیکھنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ ہمیں ہر طرف برائی اور آفت ہی نظر آتی ہے۔ مشہور نفسیاتی ماہر' فرائڈکے مطابق ' آپ جو چیز دیکھنا چاہتے ہیں قدرت آپ کو وہی دکھائے گی۔ قدرت کا لفظ میں نے خود استعمال کیا ہے۔ فرائڈ تو یہی کہتا ہے کہ آپ جو دیکھنا چاہتے ہیں ' وہی دیکھتے ہیں۔ ہم میں سے واضح اکثریت کسی بھی سرکار کی صرف ابتری دیکھنے کو پسند کرتی ہے۔ اور پھر انھیں وہی دکھتا ہے۔ نجی شعبہ ' این جی اوز اور سماجی ادارے کیونکہ مکمل طور پر ڈھکے چھپے ہوتے ہیں۔

لہٰذا ان کی کارکردگی کو کسی بھی پیمانے سے پرکھا نہیں جاتا۔ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ اس نجی سماجی ادارے نے اتنے خیمے لگا دیے۔ اتنے بندوں کو کھانا پہنچا دیا۔ اتنے ڈبے بسکٹ فراہم کیے۔ مگر جو حکومتی ادارے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر موجودہ سیلاب میں آسانیاں دے رہے ہیں ان کا ذکر بھی کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری زندگی میں متعدد قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ذمے داری سے عرض کرونگا کہ نجی شعبہ کا کوئی ادارہ کسی ضلعی افسر تک کی کارکردگی کے برابر کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ 1988ء میں راوی بپھر گیا تھا۔ ہندوستان نے بغیر مطلع کیے دریا میں پانی چھوڑ دیا تھا۔

یہ قیامت خیز سیلاب تھا۔ جس طرح ضلعی اور تحصیل انتظامیہ نے سیالکوٹ' شکر گڑھ اور نارووال میں اس قیامت کو قابو کرنے کی مثبت کوشش کی تھی اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ ڈی سی اور ایس پی سمیت تمام متعلقہ اہلکار ' متواتر دریا کنارے ریلیف کا کام کرتے رہتے تھے۔ ان گنت خیموں سے لے کر مویشیوں تک کے چارے تک کا انتظام ہوتا تھا۔

تعجب ہوتا ہے کہ ضلعی یا تحصیل انتظامیہ کے ان ٹھوس کاوشوں کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ نجی شعبہ کے لوگ دوخیموں اور چار سو بندوں کا کھانا لا کر سرخرو نظر آتے تھے۔ مگر جو انتظامی افسر ہزاروں لوگوں کے لیے ہر طرح کی وقتی آسائش فراہم کر رہے تھے۔ ان کا ذکر تک نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت شکر گڑھ میں اے سی تھا اور اس امر کا گواہ ہوں کہ کام حکومت کرتی تھی اور اس کی داد' نجی شعبہ وصول کرنے کی کامیاب کوشش کرتا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اس وقت مرکز اور صوبائی حکومتوں میں سیاسی تناؤ ہے۔ لہٰذا سرکاری شعبہ مکمل طور پر یتیم سا نظر آتا ہے۔ مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ سویلین اور ریاستی ادارے بھرپور طریقے سے کام نہیں کر رہے۔ ریلیف کا کام جاری و ساری ہے۔ کیونکہ حکومت پر آج کے دور میں نکتہ چینی کرنا سب سے آسان ہے۔ لہٰذا حکومت کو ملزم بلکہ مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ سوچیے۔ آج کا نظام جسے گورے نے پورے ہندوستان کے لیے ترتیب کیا تھا۔ اسے ملک کا work Iron and Steel Frame کہا جاتا تھا۔ مثبت یا منفی ہونے کی بات نہیں کر رہا۔

متحدہ پنجاب پولیس کو اعزاز حاصل تھا کہ اس کی اچھی کارکردگی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے برابر تھی۔ مگر آزادی کے بعد چند جمہوری اور غیر جمہوری سربراہان نے ذاتی پسند اور ناپسند کو اتنا بڑھاوا دے ڈالا کہ بیوروکریسی کا وہ فریم ورک جو کسی بھی ملک کی بنیاد ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ اس کے اندر چند سینئر سرکاری عمال بھی قصور وار ہیں جنھوں نے مقتدر طبقہ کی نوکری کرنی شروع کر دی ۔ بھول گئے وہ حکومت کے نہیں ریاست کے ملازم ہیں۔ بہرحال یہ زوال خود دیکھا ہے۔ 1984 میں اسسٹنٹ کمشنر اور اے ایس پی کیا تھا اور آج کا اختیار کیا ہے۔ اس پر سوالات ذہن میں بہر حال اٹھتے ہیں۔

آج جب طاقت ور حلقوں نے سرکاری ملازم کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ سویلین نظام کو ہر طرح سے جکڑ رکھا ہے۔ پھر بھی سویلین افسران کی اکثریت کامیابی سے سیلاب کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے ۔ پروپیگنڈے میں بہرحال چند سماجی ادارے' تھوڑا سا کام کر کے بہت زیادہ فعال نظر آتے ہیں۔ آج بھی عرض کرونگا کہ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ' سرکاری ملازم کو شاباش دیں۔ ان کو عزت دیں' ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں تو یقین فرمائیے اس خوفناک سیلاب سے مقابلہ کرنا کافی آسان ہو جائے گا۔ یاد رکھیے کہ انسان جتنا مرضی طاقتور نظر آئے۔

اگر اس کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو جائے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ کسی بھی ملک کی سرکاری مشینری کا بھی یہی حال ہے۔ ملک کے سنجیدہ طبقے اگر آج کووڈ یا ڈنگی کو کنٹرول کرنے کی طرح فعال ہو جائیں ۔ بیورو کریسی کے معاملات کو آسان بنا لیں تو موجودہ زبوں حالی کو اسی سرکاری مشینری سے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ حکومت کی رٹ کو فعال کیجیے۔ اسے مضبوط بنائیے۔ قدرتی آفات سے بہت بہتر طور پر لڑا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں