سیلاب زدگان کی فوری امداد اور زرعی فصلیں

حکومت آگے بڑھے اور جدید مشینریوں کے ذریعے راستے فوری درست کیے جائیں اور قافلوں کو رواں دواں کیا جائے



پاکستان کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے۔ یہاں کی زراعت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ زراعت کا مکمل انحصار پانی کی دستیابی پر ہے۔ قحط ہو یا خشک سالی ، پانی کو ہی ہر دم یاد رکھا جاتا ہے۔ بارش کے لیے آسمان کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔

دل میں بھی اور ہاتھ اٹھا کر بھی دعائیں مانگتے رہتے ہیں اور اس جدید دور میں جب چاند اور مریخ پر بھی کمندیں ڈال دی گئی ہیں، دنیا کے بیشتر ملکوں نے اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تیور کو دیکھتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا کسی حد تک حل ڈھونڈ نکالا ہے لیکن وطن عزیز کا زرخیز خطہ سیلابی کیفیت کا سامنا ہزاروں سال سے کر رہا ہے۔

پہلے وسائل نہیں تھے، سائنسی ترقی نہیں تھی، جدید ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہ تھا تو اور بات تھی۔ قیام پاکستان کے فوری بعد سے سیلاب آتے رہے، مشرقی پاکستان میں آنے والے سیلاب کا نتیجہ جب سقوط ڈھاکا کی صورت میں نمایاں ہوا تو اس میں سیلاب کا کردار بھی اہم تھا۔ پاکستان نے اپنے قیام کے بعد دو بڑے ڈیمز کی تعمیر پر ہی اکتفا کیا۔ سیلابی پانی کے نقصان پر کسی نے کبھی غور نہ کیا۔

وقتی طور پر عارضی طور پر صحیح کسی قسم کی سیلابی منصوبہ بندی کا کہیں ذکر نہیں کہ کیسے بستی کو تباہی سے بچایا جائے۔ کھیتوں میں مہینوں کھڑے پانی کی نکاسی کیسے کی جائے، محکمہ زراعت پنجاب یہ نصیحت کرتا نظر آتا ہے کہ کپاس کی فصل کے پودوں کو پانی میں کھڑا ہونے سے بچائیں ، لیکن کھڑے پانی کو کہاں بہائیں۔ جب ہر طرف پانی ہی پانی ہو اسے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ بنایا گیا ہو۔

گزشتہ دو ماہ سے زائد برسات اور دریاؤں کی طغیانی نے ملک کے تہائی سے زائد حصوں کو اپنی لپیٹ میں اس لیے لیاہے کہ اب تک سیلابی ریلوں مزید برسات، ندی نالوں، دریاؤں میں پانی کے سمندر نے پورے بلوچستان صوبہ، کے پی کے میں بہت سے اضلاع اور سندھ کے تقریباً تمام اضلاع اور دیگر پاکستانی علاقوں میں سیلاب نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پہلے کبھی نہ دیکھی گئی۔

2010 کے سیلاب سے کئی گنا بڑا یہ سیلاب ہے جس میں پاکستان کی تقریباً نصف زرعی معیشت کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں سب سے زیادہ نقصان کپاس کی فصل اور گنے کی فصل کے علاوہ دالوں، مکئی اور سبزیوں، پھلوں کو ہوا ہے۔ پیاز، ٹماٹر کے دام دو سو سے تین سو روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں۔ سبزی فی کلو ڈھائی سو روپے سے زائد ہوچکی ہے، کپاس کی گانٹھوں کے داموں کو پر لگ چکے ہیں۔

ایک محتاط اور ابتدائی اندازے کے مطابق 6 لاکھ ایکڑ پر کپاس کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ 3 لاکھ ایکڑ پر گنے کی فصل برباد ہوگئی۔ اس طرح 6لاکھ ایکڑ پر زیر کاشت مختلف اقسام کی سبزیاں، دالیں، مکئی، چنا اور مرچ کی فصل تباہ ہوچکی ہے لیکن یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ 5 لاکھ ٹن اسٹاک کیے گئے گندم کے ذخیرے کو نقصان پہنچا ہے۔ کپاس تقریباً ایک چوتھائی حصہ سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔ اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اب تو پاکستان میں کپاس کی مجموعی پیداوار بھی پہلے جیسی نہ رہی۔ لہٰذا کم پیداوار کے نتیجے میں ملکی ضروریات پوری کرنے کی خاطر 30 لاکھ بیلز سے زائد درآمد کی ضرورت ہوگی اور پھر گنے کی صورت حال یہ ہے کہ فی الحال تو 3 لاکھ ایکڑ پر گنے کی فصل کو نقصان پہنچنے کا بتایا جا رہا ہے جب کہ اصل نقصان کا اندازہ سیلاب اترنے کے بعد ہی ہوگا۔

اصل بات یہ ہے کہ اس وقت سیلاب زدگان کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں امداد جمع کرنے کے لیے بھرپورکوشش ہو رہی ہے اور کافی مقدار میں سامان بھی نظر آ رہا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کئی دنوں سے اسٹاک جمع ہو رہا ہے اور مختلف تنظیمیں اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ کئی دن لگا کر ان کے ٹرک بھر جائیں، پھر وہ اسے لے کر امداد کے منتظر لوگوں تک پہنچ جائے۔

اس سلسلے میں حکومت آگے بڑھے اور جدید مشینریوں کے ذریعے راستے فوری درست کیے جائیں اور قافلوں کو رواں دواں کیا جائے اور پھر ایسا سامان لے کر پہنچیں جو متاثرین کے ہاتھوں پر پہنچتے ہی نہ پکانے کی ضرورت، بلکہ فوری طور پر بھوک کے مداوے کا سامان ہو۔ بوتلوں میں پانی، جوس کے بند ڈبے، دودھ کے بند ڈبے اور دیگر کئی سامان کے علاوہ گیس کے چھوٹے سلنڈر جس میں گیس بھی موجود ہو، کئی جگہ نئے نئے خالی سلنڈر لا کر جمع کرائے جا رہے ہیں، منتظمین اس بات کا خیال رکھیں اور یہ سلنڈر بھر کر بھجوائیں، پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے، اللہ تعالیٰ سیلاب زدگان اور پورے پاکستان پر اپنا رحم فرمائے ۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔