پانی اُترنے کے بعد
اگر ان علاقوں میں بلدیاتی نظام رائج ہوتا اور روکنے والے سر پر موجود ہوتے تو بہت بڑے نقصان سے بچا جا سکتا تھا
گزشتہ ایک ہفتے میں مجھے پاکستان کی تین بڑی رفاعی کام کرنے والی جماعتوں اور ان کے سربراہوں اور کارندوں سے مفصل ملاقاتوں کے مواقع ملے ہیںالخدمت ، اخوت اور نعمت۔
ظاہرہے موضوع حالیہ بارشیں اور اُن کی تباہ کاریاں ہی تھیں لیکن ایک بات جو بار بار سامنے آئی وہ یہی تھی کہ ان جماعتوں نے، متاثرین نے اور حکومتی اداروں نے 2010کے سیلاب سے کیا کچھ نہیں سیکھا اور اگر اس بار بھی یہی رویہ اپنایا گیا تو خدا نخواستہ آیندہ کسی ایسے ہی موقعے کے آنے پر ہم پھر اسی طرح خوارو خراب اور دَر دَر کے بھکاری ہوں گے کہ جو قومیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں صرف ان کے لیے ہی تاریخ اپنے آپ کو ایک حوالے سے دہراتی ہے ورنہ جو معاشرے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں ان کے لیے ایسی غیر معمولی حالتیں معمول کی حالت بن جاتی ہیں اور وہ کم سے کم نقصان کے ساتھ اپنے شہریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انھیں دوبارہ آباد بھی کر سکتے ہیں۔آیئے پہلے ہم اس صورتِ حال کے مختلف پہلوئوں ،اسباب اور کوتاہیوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کی فہرست کچھ یوں ہے ۔
1۔ بارشوں کے پانی کے اندرونی سمندری راستوں کے درمیان پختہ اور کچی آبادیاں
2۔ سوکھے ہوئے دریاؤں میں تعمیرات
3۔ سرکاری اداروں کی بے خبری اور بے حسی
4۔ غیر ملکی امداد کا غلط استعمال
5۔ ناتجربہ کار، جذباتی اور جوشیلے امدادی ارکان کے مسائل
6۔ٹرکوں کو لوٹنے والے غنڈہ عناصر
7۔ وبائی امراض
8۔مطلوبہ ضروریات کا تعین کیے بغیر امدادی سامان کی ترسیل
اب اگر دیکھا جائے تو ان میں اُم المسائل کا کردار اس فہرست کا پہلا رکن ہی ہے بلدیاتی نظام مستقل طور پر رائج نہ ہونے کی وجہ سے کسی علاقے کے زمینی اور معاشرتی مسائل کے بارے میں اطلاعات اور کوئی بااثر اتھارٹی نہ ہونے کے باعث شہری علاقوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے سرکردہ افراد ندی نالوں دریاؤں اور ریلوے ٹریک کے اردگرد کی زمین پر ناجائز انداز میں پیسے لے کر جعلی قسم کے اشٹام جاری کردیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ زمین ایک غیر قانونی طریقے سے بظاہر قانونی ہوجاتی ہے اوراس پر تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔
2010ء میں حیدر آباد اور کراچی میں اس عمل کا انتہائی خطرناک نتیجہ سامنے آیا پانی کی نکاسی کے راستے محدود ہوگئے اور ہنگامی صورتِ حال میں جمع شدہ پانی نے پورے شہر کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔
اسی طرح اطلاعات کے مطابق حیدر آبادکے قریب پانی کے سمندر تک جانے کے قدرتی راستے میں رہائشی کالونیاں آباد ہوگئیں ورنہ صرف یہ کہ حکومتی اداروں نے اس کا نوٹس نہیں لیا بلکہ ان کی ملی بھگت سے ان ناجائز تعمیرات کو بجلی ، پانی اور گیس کی سپلائی بھی ہوگئی، جو بھی گیم ہوئی اس میں سرکاری محکمے بھی حصہ دار تھے اس کہانی کا تیسرا کردار خشک دریاؤں کے اندر اور ان کے راستوں پر غیر قانونی کچے گھروں کی تعمیرکا ایک خود مختارسلسلہ ہے کہ جس کو جہاں جگہ ملی اس نے وہاں اس علاقے کے کسی با اثر فرد کو کچھ دے دلا کر ان زمینوں کا قبضہ حاصل کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانی کے پہلے ریلے نے ہی ان کو تہس نہس کردیا اور ان کے کچے گھر اور مال مویشی آن کی آن میں ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے مگر ہم نے دیکھا کہ پانی اترنے کے بعد انھی جگہوں پر دوبارہ ویسے ہی کچے مکانات تعمیر ہونا شروع ہوگئے۔
آبادکاروں کا موقف یہ تھا کہ ہمارے پاس اور کہیں زمین خریدنے کے لیے پیسے نہیںہیں دوسری طرف جن شہری تعمیرات کی وجہ سے پانی مہینوں رکا رہا اور بیماریوں اور بے روزگاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ بجائے ان کی جگہ تبدیل کرنے کے وہیں تھوڑی بہت مرمت اور سرکاری امداد کے ساتھ انھیں آیندہ سیلاب تک قابلِ رہائش بنا لیا گیا، ایک اندازے کے مطابق یہ تعمیرات کھربوں کی مالیت کی ہیں۔ اب ایک طرف ان کی ناجائز اجازت دینے والے لوگ تاریخ کے صفحات میں مل جل کر گم کر دیے گئے ہیں اور دوسری طرف یہ لوگ وہاں سے بہت بھاری معاوضے لیے بغیر ہلنے کو تیار نہیں۔
اب اگر اس ساری صورتِ حال کو ایک جگہ رکھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر ان علاقوں میں بلدیاتی نظام رائج ہوتا اور روکنے والے سر پر موجود ہوتے تو بہت بڑے نقصان سے بچا جا سکتا تھا اور اب بھی بہترین راستہ یہی ہے کہ بلدیاتی نظام کو رائج کرکے زمینوں کا بندوبست ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور پھر سختی سے قانون پر عمل کروایا جائے تاکہ فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ ختم ہو۔ ظاہر ہے صرف ایسا کرنے سے یہ آفات ختم نہیں ہو جائیں گی لیکن ان کی شدّت یقیناً کم اور کنٹرول پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہوجائے گا۔
دوسر ا مسئلہ جس سے اس وقت رفاعی تنظیمیں دوچارہیں، صحیح جگہ پر صحیح مدد پہنچانے کا ہے کوئی مرکزی نظام اور کم وسیلہ سرکاری محکموں سے معلومات کے تبادلے اور مشکلات کی دُوری کا سسٹم بھی موجود نہیں دوردراز اور امداد کے منتظر علاقوں تک رسائی کے لیے مناسب ذرایع بھی کسی کے پاس موجود نہیں ہیں ،اس ضمن میں پاک فوج خصوصی تحسین کی مستحق ہے کہ اس کے ہیلی کاپٹرز نے ایسے بہت سے مشکل علاقوں تک رسائی حاصل کرلی ہے اور اب جب کہ بظاہر پانی اُترنے کی طرف مائل ہے امداد کی ترسیل کے ذرایع بھی بہتر ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن اس ضمن میں ایک بد نما داغ جو 2005کے زلزلے کے دوران بھی دیکھنے میں آیا تھا یہ ہے کہ بہت سے جاہل غنڈہ اور بدمعاش عناصر بھی پارٹیاں بنا کر ان ٹرکوں کو لوٹنے لگتے ہیں جو عام طور پر حکومت یا کسی بڑی تنظیم سے ہٹ کر اپنے طور پر مدد کے لیے نکلتے ہیں ،ان کا فوری سدِباب بھی ضروری ہے کہ اس سے ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کی امداد کوضعف پہنچتا ہے، جہاں تک تنظیموں کی سطح پر امدادی کام کا تعلق ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، میں چند ایک کا نام لے کر باقی کو اس عزت اور مسرت سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔
یہ سب لوگ بے حدقابلِ تعریف ہیں اور افراد کے حوالے سے میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ بھی ان ہی کی معرفت اپنی امدادکی ترسیل ہے کیونکہ یہ لوگ غذائی اور رہائشی ضروریات کے ساتھ طبی امداد کے حوالے سے بھی بہت باقاعدہ اور دُوررَس کام کررہے ہیں، سو آخر میں دہرانے کے قابل یہی بات ٹھہری کہ ہمیںماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کے ساتھ ساتھ پانی اترنے کی صورت میں امدادی کارروائیوں کو ایک ایسا رخ بھی دینا چاہیے کہ آیندہ کسی ایسے ہی حادثے کی صورت میں جانی مالی اور نفسیاتی نقصان کم سے کم ہو اور ہم ایک با شعور اور ذمے دار قوم کی شکل اختیار کرسکیں۔