یہ مہنگائی
اس کاالزام کسی طور سابقہ حکومت کے سر تھوپنا عوام کے ذہنوں کو قبول نہیں ہورہا
چار مہینوں سے زائدکاعرصہ ہوچکاہے اس حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے لیکن وہ اپنے عوام کو ایک دن بھی ریلیف کاسانس نہیں لینے دے پائی ہے۔ سابقہ حکومت پر اس مہنگائی کاالزام شروع کے مہینوں میں تودرست معلوم ہورہاتھا لیکن اب جو تسلسل کے ساتھ مہنگائی ہورہی ہے۔
اس کاالزام کسی طور سابقہ حکومت کے سر تھوپنا عوام کے ذہنوں کو قبول نہیں ہورہا۔IMF سے جن شرائط پر معاہدہ کیاگیاہے وہ سابقہ تمام ادوار کی نسبت بہت کڑی اورسخت ہیں۔ PTI کی حکومت کے دور میں اُن کے وزیرخزانہ شوکت ترین نے جو معاہدہ کیاتھا مفتاح اسمعیل نے اس سے بھی زیادہ سخت شرائط پرمعاہدے پر دستخط کرکے سارا بوجھ عوام کے سروں پر ڈال دیا ہے۔
سابقہ حکومت نے پٹرول پر لیوی صرف 30 روپے لگانے کا وعدہ کیاتھااور وہ بھی ہرمہینے محض چار روپے کی قسطوں میں۔ہمارے نئے وزیرخزانہ نے اس لیوی کو 50 روپے تک بڑھانے پر دستخط کرکے عوام کا بچاکچاسکون بھی چھین لیاہے۔ستم پر ستم یہ کہ صرف ایک مہینے میں یہ لیوی 37 روپے تک بڑھادی گئی ہے اور اب مزید 13 روپے کااضافہ ہونا باقی ہے۔
تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا جو فائدہ عوام کو پہنچنا تھااس سے بھی انھیں محروم کردیاگیاہے،حالانکہ یہ لیوی پانچ روپے ماہانہ بھی لگائی جاسکتی تھی اورIMF کو باآسانی باور بھی کرایا جاسکتاتھاکہ ہمارے ملک میں اس وقت ایک قدرتی آفت آئی ہوئی ہے لہٰذا اپنی شرائط پر کچھ نرمی برتی جائے،مگر بظاہر عوام کااحساس اوردرد رکھنے والی اس حکومت نے ایک پیسہ کا بھی ریلیف عوام کو فراہم کرنے سے معذرت کردی ہے۔ عوام پر کی جانے والی اِن زیادتیوں کا نقصان بہرحال مسلم لیگ نون کو اُٹھانا پڑے گا۔PDM کی کسی پارٹی کو عوام کے ردعمل کا وہ نقصان نہیں ہوگاجو مسلم لیگ کو ہونے والا ہے اورہوبھی رہاہے۔
وزیرخزانہ مفتاح اسمعیل شروع شروع میں انھوں نے بڑھتی مہنگائی کی شرح گیارہ بارہ فیصد بتائی تھی جب کہ آج یہ حالت ہے کہ یہ مہنگائی 45 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ مفتاح نے مشکل دور کی مدت تین چار مہینے بتائی تھی جو اب چھ سے دس مہینوں تک پہنچ گئی ہے۔
IMFسے معاہدہ طے پاجانے اورقرض کی منظور شدہ قسط بھی مل چکی ہے لیکن ملک کے حالات ہیں کہ سدھرنے ہی نہیں پارہے۔صرف طفل تسلیوں سے کام چلایاجارہا ہے۔پہلے کہاگیاکہ IMF سے معاہدہ ہوجانے کے بعد ڈالر واپس سستا ہوجائے گالیکن معاہدہ ہوجانے کے بعد بھی ڈالر کی اڑان ویسی کی ویسی ہے۔کہنے کو حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ ہوجانے سے بچالیاہے،لیکن اس کامیابی کا سارا بوجھ عوام الناس پرڈال کرحکومت نے خود کون سی قربانی دی ہے۔اتنی سخت شرائط پرIMF سے معاہدہ تو ہرکوئی کرسکتاتھا۔
اس میں موجودہ وزیرخزانہ کا کون سا کمال ہے، بلکہ اگر یہ کہاجائے تو ہرگز غلط اوربے جا نہیںہوگاکہ سابقہ وزیرخزانہ شوکت ترین نے اس معاہدہ کی نسبت کچھ بہتر شرائط پرمعاملات طے کیے تھے۔ اُن کی طے شدہ شرائط سے ملک میں مہنگائی کی شرح کسی طور اتنی نہ ہونی تھی جتنی آج ہے۔وزیراعظم صاحب نے پچھلے دنوں اپنی پارٹی کے ارکان سے لمبا چوڑا جذباتی خطاب بھی کرڈالااوراپنی حکومت کی مجبوریوں کو بھی بیان کیا لیکن عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوئی تجویز نہیں دے سکے۔
وہ ملک کے معدنی ذخائر اورریکوڈیک کے خزانوں کا ذکر تو کررہے تھے لیکن انھیں نکال کر ملک کی مالی حالت بدلنے کاکوئی منصوبہ بیان نہ کرسکے۔ چینوٹ کے تانبے اورلوہے کے ذخائر کے بارے میں بھی انھوں نے کچھ کرپشن کاذکر تو کیالیکن ان ذخائرسے فوائد حاصل کرنے کا کوئی پروگرام یامنصوبہ نہیں دے سکے۔ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے بعد اب صرف ایک ملک قطر باقی رہ گیاتھا جس سے پاکستان نے امداد حاصل نہیں کی تھی۔سو وہ کمی بھی ہماری حکومت نے پوری کردی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نئے ملک سے بھی امداد حاصل کرنے کے لیے آرمی چیف کو آگے رکھاگیا بالکل اُسی طرح جس طرح عمران خان اپنے دور میں کیاکرتے تھے۔
موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے ، وہ اگر عوام کو مشکلات سے باہر نہیں نکال پائی تو اس کی اورمسلم لیگ نون کی ساکھ ساری کی ساری داؤ پرلگی ہوئی ہے۔ عوام سخت بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ اُن کے پاس اپنی اس بیزاری کو ظاہرکرنے کے لیے سوائے عمران خان کے جلسوں میں جانے کے کوئی اورراستہ نہیںہے۔یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کے جلسوں کی رونق روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
تاریخ کے بدترین سیلاب کے باوجود وہ اپنی سیاسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں مگر عوام کی جانب سے کوئی مخالفانہ ردعمل سامنے نہیں آرہاہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام انھیں برا بھلاکہتے لیکن نہیں وہ اب بھی اُسی شوق وجوق سے جلسوں میں شرکت کررہے ہیں جیسے ملک میں کچھ ہواہی نہیں۔یہ اوربات ہے کہ خان صاحب کے جلسوں میں شرکت کرنے والوں میں زیادہ تر اس ملک کے امیر اورصاحب حیثیت لوگ ہی ہواکرتے ہیں۔ غریب اورمفلس طبقے کے لوگ اکادکا ہی دکھائی دیتے ہیں۔
خوشحال اور میک اپ زدہ خواتین کو دیکھ کرکسی پارٹی کی مقبولیت کاصحیح اندازہ نہیںلگایاجاسکتا ہے۔اس ملک میں اکثریت غریب اورنادار لوگوں کی ہے جن میں سے آج بہت سے لوگ سیلاب کی سنگینیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔انھیں سیاسی جلسوں سے کوئی سروکار ہی نہیںہے۔ انھیں ایک طرف سیلاب نے مار ڈالا ہے تودوسری طرف مہنگائی اورگرانی نے ختم کرڈالا ہے، وہ ایسے میں کس سے گلا کریں۔
حکومت کے لیے اچھا موقع تھا کہ وہ اس مصیبت کے دنوں میں عوام کا احساس کرکے اُن کے دل جیت لیتی لیکن اُسے تو فکر ہے IMF کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی۔ وہ اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دیکر بھی IMF کی شرائط پوری کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پھر اُسے اب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اگلاالیکشن کیسے جیتے گی ۔ عوام اُسے اس مہنگائی کاذمے دارسمجھتے ہیں، سابقہ حکومت پراس کاالزام لگانا اب قابل قبول نہیںرہا، اب جو بھی مہنگائی ہورہی ہے اس کاجواب ہماری اسی حکومت کوہی دینا ہوگا۔