فاصلے سمٹنے لگے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطے

اس کے ساتھ حکومت کی نج کاری پالیسی پر بھی مختلف سیاسی اور مزدور تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔


Arif Aziz March 19, 2014
اس کے ساتھ حکومت کی نج کاری پالیسی پر بھی مختلف سیاسی اور مزدور تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔

پچھلے چند ہفتوں سے کراچی میں سیاسی جماعتیں امن و امان کے قیام اور شہر کے دیگر مسائل پر آواز اٹھاتی نظر آرہی ہیں۔ جلسوں، ریلیوں اور کُل جماعتی اجتماعات کا سلسلہ زوروں پر ہے۔

اس کے ساتھ حکومت کی نج کاری پالیسی پر بھی مختلف سیاسی اور مزدور تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔ اتوار کے دن کراچی میں پاکستان تحریکِ انصاف نے 'قومی لیبر کانفرنس' کے ذریعے نج کاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ اس کانفرنس کی صدارت تحریک انصاف (لیبر ونگ) کے مرکزی صدر محمد زبیر کررہے تھے۔ اس تقریب سے مختلف ٹریڈ یونینوں کے راہ نماؤں لیاقت سیاحی، سعید بلوچ، نور محمد، اسد اقبال بٹ، جلیل شاہ، لالہ نظیر، روشن کلوڑ، کنیز فاطمہ، ایوب قریشی و دیگر جب کہ سیاسی راہ نماؤں میں مزدور اتحاد کے مرکزی صدر ایم این اے جمشید دستی، جماعت اسلامی کے راہ نما محمد حسین محنتی، تحریک انصاف نجیب ہارون، نمروز خان اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر زبیر خان نے کہا کہ نج کاری ملک کی سلامتی، آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے، جسے برداشت نہیں کیا جائے گا، نج کاری نے ماضی میں بھی ملک کی معیشت، اداروں اور محنت کشوں کا بیڑا غرق کیا ہے اور آئندہ بھی اس سے اچھائی کی کوئی امید نہیں۔ حکومت نے مزدور دشمن پالیسیوں کو تبدیل نہ کیا تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ جمشید دستی نے اپنے خطاب میں کہاکہ ملک پر ایک سرمایہ دار ٹولا قابض ہے، جو ملکی اداروں کو فروخت کر کے پاکستان کو ٹکڑے کرنے کے ایجنڈے پر گام زن ہیں۔

انہوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ مزدوروں کو انصاف نہیں مل رہا، لیبر کورٹ میں مزدوروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹاؤں گا۔ محمد حسین محنتی نے کہاکہ نج کاری ایک غیر آئینی اقدام ہے، سرمایہ دار آئین، قانون اور مزدوروں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے۔ مزدور راہ نماؤں اور مختلف جماعتوں کے نمائندوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیاکہ نج کاری پالیسی کو رول بیک کیا جائے اور ماضی میں نج کاری کی بھینٹ چڑھنے والے اداروں کا حساب دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اداروں کی نج کاری کا ایجنڈا کمر توڑ منہگائی اور بے روزگاری کا طوفان برپا کر دے گا اور یہ عمل ہمارا معاشی کنٹرول غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں دینے کی سازش ہے، جسے پاکستان کا محنت کش طبقہ اور عوام دوست قوتیں مسترد کرتی ہیں۔ نج کاری کے خلاف قومی لیبر کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ ہر ادارے میں محنت کشوں کو 25 فی صد حصص کا مالک بنایا جائے، ٹھیکے داری نظام اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے اور محنت کش کی کم از کم اجرت ماہانہ 20 ہزار روپے مقرر کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان فاصلے گھٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ان دنوں کراچی کے مختلف حلقوں میں دبئی مذاکرات زیرِ بحث ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات میں متحدہ قومی موومنٹ کی حکومتِ سندھ میں شمولیت کے لیے بعض اہم امور پر اتفاق ہو گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پی پی پی کی طرف سے ایم کیو ایم کو پانچ وزارتوں کے ساتھ دو مشیر اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ دینے کی پیش کش کی گئی ہے۔ اتوار کے روز دبئی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے ساتھ ایم کیو ایم کے وفد نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ، بلدیاتی نظام اور حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت پر گفت گو کی گئی۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے راہ نماؤں میں اتفاق ہوا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی نظام پر دوبارہ بات چیت کی جائے گی۔

پی پی پی نے ایم کیو ایم کو صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، صنعت اور تجارت، امور نوجوانان سمیت پانچ وزارتیں دینے کی پیش کش کی ہے۔ ذرایع کے مطابق عوامی مسائل کے حل، بلدیاتی اداروں کے مسائل اور فنڈز کا اجرا، کراچی اور حیدرآباد کے لیے ترقیاتی پیکجز سمیت اہم معاملات کو رابطہ کار کمیٹی کے توسط سے مشاورت سے حل کیا جائے گا۔ اس کمیٹی میں دونوں جماعتوں کے چار چار راہ نما شامل ہوں گے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ چند روز میں دونوں جماعتوں میں باضابطہ مذاکرات کے بعد ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کا فارمولا طے کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ندیم نصرت، عادل صدیقی اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے پہلے رحمن ملک سے تفصیلی ملاقات کی تھی۔ تاہم ایم کیو ایم نے حکومت میں شمولیت سے متعلق حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ کراچی میں دونوں جماعتوں کے راہ نماؤں کی ملاقات جلد متوقع ہے، جس میں بات چیت دوسرے مرحلے میں داخل ہو گی۔

گذشتہ ہفتے وزیرا عظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی کا دورہ کیا، جس میں انہیں کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ پولیس میں شفاف بھرتیوں کے لیے پاک فوج کے بھرتی کے مراکز کی خدمات حاصل کی جائیں۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو ملیر چھاؤنی منتقل کرنے کے علاوہ لیاری میں مزید پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی اور کراچی آپریشن کو تیز کرنے کی منظوری دی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اہداف کے حصول تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ گورنر ہاؤس میں کراچی میں امن و امان کے مسئلے پر منعقدہ اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وفاقی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی بی، چیف سیکریٹری سجاد سلیم ہوتیانہ، ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر، قائم مقام آئی جی سندھ اقبال محمود، ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔ اجلاس میں وزیر اعظم کو کراچی میں امن و امان کی صورت حال، خصوصاً لیاری کے حالات، گرفتاریوں، ملزمان کے خلاف مقدمات سمیت مختلف اہم امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم کو کراچی میں غیر قانونی تارکین وطن خصوصاً افغانیوں اور بنگالیوں سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔

سیکوریٹی حکام نے بتایا کہ لیاری میں پولیس اور رینجرز کینگ وار کے مختلف گروہوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے، لیکن جرائم پیشہ عناصر کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہاں حالات خراب ہورہے ہیں۔ اس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ متعلقہ ادارے کوئی سیاسی دباؤ قبول نہ کریں اور اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے لیاری سمیت شہر بھر میں دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیں۔ اجلاس میں کراچی میں آپریشن پلان کی نئی حکمت عملی پر تفصیلی غورکیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے، کراچی آپریشن کی تمام سیاسی قوتوں نے حمایت کی ہے، تمام فیصلے حکومت سندھ کی مشاورت سے کریں گے۔ دریں اثنا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما بابر خان غوری نے بھی ملاقات کی۔ ذرایع کے مطابق بابر خان غوری نے کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے لاپتا کارکنان اور ماورائے عدالت قتل سے متعلق تحفظات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم کو کراچی میں ترقیاتی منصوبوں، عوام کو درپیش مسائل اور دیگر امور سے بھی آگاہ کیا اور سیاسی صورت حال پر گفت گو کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایم کیو ایم کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا اور کراچی کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں