چیزوں کی حقیقت جاننے کی کوشش
آئیں ان چیزوں کی اصل حقیقت اور حیثیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں
ہاؤ نے کہا تھا '' لفظ اگر ایک بار چھپ جائیں تو پھر وہ اپنی زندگی ضرورگزارتے ہیں۔'' جب کہ ارسطو کہتا ہے ، ''جو بد سیرت ہے وہ چلتا پھرتا جنازہ ہے۔'' انسان جس دولت ، عہدوں ، رتبوں ، مرتبوں کے لیے ساری زندگی مارا مارا پھرتا ہے ، جھوٹ بولتا ہے ، دھوکا دیتا ہے ، خوشامد اور چاپلوسی کرتا ہے ، کرپشن ، لوٹ مار اور فراڈ کرتا ہے اپنے ہی جیسے انسانوں کو روندتا اور کچلتا ہے انھیں ذلیل و خوار کرتا ہے۔
آئیں ان چیزوں کی اصل حقیقت اور حیثیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے وہ کرپٹ سیاسی قائدین ، حکمران ، بیوروکریٹس ، جاگیردار ، سرمایہ دار، بلڈرز جو 80 سال یا اس سے زائد عمرکو پہنچ چکے ہیں ، ان سے کسی نہ کسی طرح ملاقات کر کے ان کے دل کا بھی حال احوال کرنے کی ضرورکوشش کیجیے گا تاکہ آپ کو بھی دولت ، عہدوں ، رتبوں ، مرتبوں کی اصل حقیقت اور حیثیت سے ذاتی آگاہی حاصل ہوسکے۔
دو مرتبہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاورکا پرکشش صدر رہنے والے بل کلنٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ '' اگر آج میرے ہاتھ میں ہوکہ میں30 سال کا ہوجاؤں اور بدلے میں مجھے امریکا کی صدارت کی قربانی دینی پڑے تو میں اس سودے کے لیے راضی ہوں۔ '' اس دنیا میں اور اس کی چیزوں کے بارے میں حضرت فضیل بن عیاض اور خلیفہ ہارون الرشید کے درمیان مکالمہ ہوا تھا۔
خلیفہ ہارو ن الرشید، حضرت فضیل کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے لے کر حاضر ہوا تو فضیل بن عیاض ؒ نے پو چھا ''خلیفۃ المومنین اگر آپ صحرا میں پیاسے ہوں اور دم نکلنے کو ہو تو پانی کے چند قطروں کے عوض کیا دے سکتے ہیں۔'' ہارون الرشید نے ترنت جواب دیا '' اپنی آدھی سلطنت۔'' حضرت فضیل ؒ نے دوبارہ پوچھا '' اگر پانی کے یہ قطرے اندر جا کر اودھم مچا دیں اور پیشاب باہر نہ نکلے تو اس تکلیف سے بچنے کے لیے کیا کر گزریں گے ۔''
ہارون الرشید نے فوراً جواب دیا '' اپنی باقی ماندہ سلطنت ۔'' حضرت فضیل ؒ نے مسکراتے ہوئے کہا '' خلیفۃ المسلمین ! آپ مجھے بھی اپنی اس سلطنت میں سے کیا دے سکتے ہیں جس کی قیمت پانی کے چند قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔''
سکندر اعظم نے ساری معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا تھا '' میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر مو ت نے مجھ کو فتح کرلیا ، افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔'' ہابز کہتا ہے کہ '' انسان میں طاقت و اقتدار کی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے اقتدار دراقتدار کی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جبتک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی '' وہ آگے کہتا ہے کہ ہم ایسے سماجوں میں زندگی بسر کرتے ہیں جو جنگل سے زیادہ مختلف نہیں اور اس بظاہر انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے نیچے چوروں اور قاتلوں کا ایک جہان آباد ہے جو نظام میں ذرا سا خلل واقع ہونے پر جھٹ سے باہر آجاتا ہے۔
سقراط نے عدالت میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا '' میرے لیے مشکل کا موت سے بچنا نہیں بلکہ بے ایمانی اور غیر حق سے بچنا ہے یہ بات کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ بے ایمانی موت سے زیادہ خطرناک ہے اور موت سے زیادہ تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔ میں بوڑھا اور سست ہوں لہٰذا مجھے آہستہ یعنی موت نے آ لیا ہے جب کہ میرے مدعی زیادہ چالا ک اور سبک رفتار ہیں اس لیے انھیں تیز رو یعنی شر نے پکڑلیا ہے۔ ''
روم کی عظمت کا ترجمان مشہور خطیب ، فلسفی ، محقق ، سیاست دان اور وکیل سسرو کے بارے میں فرانس کے مشہور مصنف والیٹر نے لکھا تھا '' اس سے زیاد ہ حق پرستانہ ، عقل مندانہ اور نافعانہ تحریر کسی نے نہیں لکھی ۔ تعلیم و تربیت اور اخلاق و تہذیب کا سبق دینے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ سسرو کے پیش کیے ہوئے اعلیٰ کردار کے نمونے اپنے تلامذہ کے سامنے رکھیں ورنہ وہ محض نیم حکیم کہلائیں گے۔ '' سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے یوں تو اخلاقی فلسفے کا ہر لفظ با معنیٰ اور ثمر آور ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ بار آور حصہ وہ ہے جو اخلاقی ذمے داروں اور فرائض سے متعلق ہے جو آدمی زندگی میں عزت و آبرو اور مقام و منصب حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس کے لیے اخلاقی فلسفے کی تعلیم نا گزیر ہے۔ سسرو نے تین سوالوں کے ذریعے اخلاقی فرائض کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ (1) کیا ہمارا عمل اخلاقی طور پر حق ہے یا باطل ؟ (2) کیا یہ فائدے مند ہے یا نقصان دہ ؟ (3) جب حق اور ذاتی مفاد میں بظاہر تصادم ہو رہا ہے تو ان میں سے کسے ترک اور کسے اختیارکیاجائے ؟ وہ کہتا ہے کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت ، مفلسی ، اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے۔
ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف برداشت کرکے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے۔ اعلیٰ و عظیم کردار کے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کردیتے ہیں اور ذاتی مفاد اور آرا م کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔ اخلاقی کوتاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے ۔
یاد رکھیں جب ذہنوں اور روحوں میں ناسور پیدا ہوجاتے ہیں تو سماج جنگل بن جاتے ہیں آج پاکستانی سماج ایسا جنگل بن چکا ہے جہاں غلاظت سے بھر ے طاقتور اور با اختیار جانوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں باقی بچا ہے وہ جانور جو صرف اپنے ناسور چاٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نو چ رہے ہیں ایک دوسرے کو چیر اور پھاڑ رہے ہیں جہاں تہذیب وتمدن ، تعلیم ، قانون ، انصاف ، اخلاق ، شرافت ، ایمان داری کی ننگی لاشیں درختوں پر پر لٹکی ہوئی ہیں۔
عزت وقار ، عقل و دانش کی لاشوں کو گدھ کھارہے ہیں جہاں طاقتور جانور نوٹوں کے ڈھیروں پر رقص کررہے ہیں اور باقی سب اور بھوکے ہورہے ہیں اور ننگے ہورہے ہیں اور زیادہ تڑپ رہے ہیں اور زیادہ بلک و سسک رہے ہیں۔