ایسی بھر پور تیاری تو کبھی نہ تھی
انسانی شبیہ میں دو فرشتے خاندان کے سربراہ کے پاس آئے اور مدعا بیان کیا کہ حکم ہے تمہیں آزمایا جائے
حکایت کچھ یوں سنی تھی؛ ایک خاندان کو اللہ تعالیٰ نے مال و اسباب ، اولاد اور طاقت سے نواز رکھا تھا مگر پھر چاہا کہ انھیں آزمائے۔
انسانی شبیہ میں دو فرشتے خاندان کے سربراہ کے پاس آئے اور مدعا بیان کیا کہ حکم ہے تمہیں آزمایا جائے۔ بزرگ نے پہلے تو اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اپنی نعمتوں سے اسے نوازا ۔ پھر کچھ تفصیل جاننے کی کوشش کی کہ کب اور کیسے؟ جواب ملا ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں نا اتفاقی، بیماری، بھوک اور افلاس سے آزمائیں۔
بزرگ کچھ سوچ کر دوبارہ بولے۔ کچھ گنجائش یا رعایت؟ جواب ملا؛ ہاں یہ کر سکتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک آزمائش کو روکا جا سکتا ہے۔ بزرگ نے کچھ وقت مانگا کہ خاندان سے مشورہ کرلوں۔ کچھ دیر بعد بزرگ دوبارہ آئے اور بولے؛ ہم نے مشورہ کیا ہے۔ ہمارے پاس اتفاق رہنے دیں، باقی امور میں جیسے آپ چاہیں، انشاء اللہ آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے۔ آنے والوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، شفقت سے قدرے مسکرائے اور جواب دیا؛ اگر اتفاق تم نے رکھ لیا تو پھر آزمائش کاہے کی!
یہ حکایت ہمیں والد مرحوم اکثر سنایا کرتے۔ جب کبھی ہم بھائی آپس میں الجھتے تو وہ ہمیں ایسی حکایات سنایا کرتے ، مقصود یہ تھا کہ زندگی کے معمولات اور اپنے خاندان کی وحدت کا ہمیں اس وقت احساس ہوتا ہے جب یہ معمول درہم برہم ہو جائے۔ آپس میں اتفاق نہ رہے، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں، حسد سکون برباد کر دے اور رزق کی بے برکتی سے زندگی بے مزہ ہو جائے۔
صدیوں سے پروان چڑھے ہمارے کلچر میں ایسی حکایتیں اور روایتیں اپنے اندر زمانے کے تجربات اور عمومی فہم کا نچوڑ ہیں۔ اردو اور فارسی کے شاہکار ادب میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم و فاضل نے حکایتوں کے پیرائے میں زندگی کے انفرادی اور قومی رموز اس قدر آسانی سے سمجھائے کہ نسل در نسل ان سے استفادہ ہوتا رہا ، بلکہ آج بھی وہ ادب ترو تازہ اور بر محل لگتا ہے۔
یہ حکایت ہمیں یوں یاد آئی کہ ایک نامور تجزیہ کار نے سوال کیا کہ اب جب کہ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحال ہو گیا ہے، روپے کی قدر کیوں بحال نہیں ہو رہی۔ کیوں؟عرض کیا کہ سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں روپے کی قدر مستحکم ہوگی اور نہ ہی کوئی اور استحکام یہاں قدم جما سکے گا۔
اپوزیشن حکومت کو طعنہ دیتی ہے کہ بارہ کلومیٹر کے علاقے کی وفاقی حکومت ہے، حکومتی اتحاد کی سنیں تو انھیں ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ یہی اپوزیشن پارٹی دکھائی دیتی ہے۔ سیلاب قدرتی آفات میں سے ایک ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں پہلے ہی سے غربت نے جا بجا پاؤں پسار رکھے ہیں،وہاں سیلاب عوام کے لیے دوہرا وبال لے کر آیا ہے لیکن کیا کیجیے کہ سیلابِ بلا بھی سیاسی اشرافیہ کے دل پگھلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔
بیان بازی کی حد تک صبح شام یہی راگ سننے کو ملتا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں سیلاب زدگان کی داد رسی کا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں وزیر اعظم جہاںبھی گئے صوبائی حکومت کے ساتھ کوئی تال میل دکھائی نہیں دیا۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ سیلاب زدگان کی داد رسی میں بھی سیاسی اشرافیہ اکٹھا ہونے کو تیار نہیں۔
وزیر ِ اعظم سندھ میں ہوں تو ان کی اتحادی جماعت کے وزیر اعلیٰ اور بلاول زرداری بھٹو ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب میں وزیر اعظم کی ہمراہی ان کے سیاسی حلیفوں نے کی مگر صوبائی حکومت نے پہلوتہی برقرار رکھی۔ اسی طرح عمران خان سکھر گئے تو ان کے ساتھ ان کی پارٹی کے سندھ کے لیڈرز موجود تھے مگر سندھ حکومت کی نمایندگی غائب۔ پی ٹی آئی پی ڈی ایم سے بات کی روادار ہے اور نہ پی ڈی ایم کو پی ٹی آئی کا وجود گوارا ہے۔ سیاسی کھلواڑ اب عدالتوں کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔
ٹیکنیکل ناک آوٹ اور نااہلی پی ڈی ایم کی حیات کے مترادف ہے جب کہ جلسیاتی عوامی جوش و خروش اور سوشل میڈیا پر یلغار پی ٹی آئی کی حیات ہے۔ ایسے میں ڈیفالٹ سے بچنے کی کوشش میں قرضوں کا پہاڑ مزید بلند ہوگیا ہے، روپے کی گرتی ہوئی شرح مبادلہ ، مہنگائی اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کا نباہ اب دم نکالنے کے در پئے ہے ۔ تباہ حال معیشت، بے یقینی کے راج اور نا اتفاقی کے سیلاب میں سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کیوں کر آئے گا! بلکہ تین کروڑ سے زائد سیلاب زدگان کی بحالی کے دشوار مرحلے کے دوران جاری سیاسی کھلواڑ ملک کی معیشت اور عوامی زندگی کے لیے ایک مکمل نیا سیلابِ ہے یعنی A perfect Storm ۔ خدا خیر کرے مگر ہم خود پر خیر کے موڈ میں نہیں ہیں۔