ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
نیرہ نور گزریں تو کیسے کیسے نام ہیں جو آنکھوں سے گزرتے ہیں۔ ٹیلی وژن سنتے ہوئے سماعت کو چھو جاتے ہیں
اردو پڑھنی آئی تو ناشتے کے بعد اماں اخبار سنتیں، اس لیے کہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں بلکہ اس لیے کہ میرا شین قاف درست کرسکیں، میں کوئی لفظ غلط پڑھتی اور ان کے پنکھے کی ڈنڈی میری پسلیوں سے اٹکھیلیاں کرتی۔ کتنے بہت سے نام ہیں جو اخبار پڑھتے ہوئے آنکھوں سے گزرتے ہیں۔ کتنے بہت سے نام ہیں جو کانوں میں پڑتے ہیں۔
نیرہ نور گزریں تو کیسے کیسے نام ہیں جو آنکھوں سے گزرتے ہیں۔ ٹیلی وژن سنتے ہوئے سماعت کو چھو جاتے ہیں۔ آسام، گوہاٹی، شیلانگ۔ آسام کی وادی میں چاولوں کی فصل لہلہاتی ہے، لکڑی کے جنگلوں میں سے آس پاس کے پہاڑوں کو پیارکرنے والی ہوائیں گزرتی ہیں اور چائے کی پتیاں ہوا کے ہلکوروں پر پینگیں لیتی ہیں۔ برہم پترا کی لہروں پر سے گزرتی ہوئی نوکائیں پانی کے ساتھ گنگناتی چلی جاتی ہیں۔ ان ہی سروں اور سازوں کے ساتھ نیرہ نور نے آنکھیں کھولیں اور پھر خون کا دریا پار کیے بغیر مغربی پاکستان چلی آئیں۔ گاتی گنگاتی ہوئی نیرہ اپنے کالج میں اتفاق سے دریافت ہوئیں اور سہج سہج قدم رکھتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئیں۔ میں نے پہلی مرتبہ انھیں سنا تو وہ گا رہی تھیں۔
برکھا برسے چھت پر میں ترے سپنے دیکھوں
ایک سادہ سی لڑکی کے سادہ سے جذبات۔ پھر ان کی آواز کا جھرنا ریڈیو اور ٹیلی وژن سے پھوٹا اور ان تمام دلوں کو درد کا دوشالہ اوڑھا گیا جو کسی حسن ، کسی دوری، کسی مہجوری کا شکار تھے۔
ہمارے ایک دانشور اور لکھاری آصف درانی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نیرہ کا خاندان امرتسر میں رہتا تھا لیکن جناح صاحب نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ آسام چلے جائیں اور وہاں مسلم لیگ کی شاخ قائم کریں۔ نیرہ کے والد اس فرمائش پر آسام چلے گئے اور انھوں نے اپنا کاروبار وہیں منتقل کر لیا۔ کاروبار اور جائیداد وہ چیز ہوتی ہے جو آپ کے پیر پکڑ لیتی ہے۔ نیرہ نے 1950 میں آسام کے شہر گوہاٹی میں جنم لیا اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ شاید1960 کی دہائی میں لاہور چلی گئیں۔ والد 1990 میں اس قابل ہو سکے کہ وہ اپنے گھر والوں سے مل سکیں اور اپنی اس بیٹی کو دیکھ سکیں، اسے گلے لگا سکیں جو برصغیر میں اپنی گائیکی کے جھنڈے گاڑھ رہی تھی اور پھر 1985 میں اپنے دوست شہر یار زیدی سے شادی کی۔
نیرہ نور نے منیزہ ہاشمی کو ایک طویل انٹرویو دیا جس میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے لتا منگیشکر، کانن بالا، کملا جھریا اور بیگم اختر سے گانا سیکھا ہے، وہ مادام نور جہاں اور اقبال بانو کی بھی شیدائی تھیں۔ ان کی کئی تصویریں نظر سے گزریں جن میں وہ کچھ پڑھ رہی ہیں۔ ہمارے یہاں سر سنگیت سے تعلق رکھنے والی خواتین کا عموماً کتابوں سے کوئی خاص علاقہ نہیں ہوتا۔ انھوں نے ہمارے کلاسیکی شعرا میں مومن خان مومن کی غزل جو اب سے برسوں پہلے بیگم اختر نے گائی تھی، وہ پھر سے گائی:
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اسی طرح بہزاد صاحب کی مشہور غزل:
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کی طرف دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
نیرہ کی آواز نے ان دونوں کی گائی ہوئی غزلوں کو نئے زمانے میں زندہ کردیا۔ یہ بھی ایک بڑی بات ہوتی ہے کہ بھولے بسرے گیت اور پرانے دور کی غزلیں کسی نئی آواز میں زندہ ہو جائیں اور وہ آگے کا سفر کریں۔ نیرہ نے فیض صاحب کے کلام کو دردمندی اور سوز وگداز سے گایا۔ فیض صاحب نے اس زمانے کے حبس اور آزاری کے لیے بے قراری کو جس طرح ڈوب کر لکھا اسے اسی طرح نیرہ نے خون میں ڈوبی ہوئی آواز سے گایا۔ لوگ سنتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ ''آج بازار میں پابہ جولاں چلو'' یا فیض صاحب کا وہ کلام جو آمریت کے دور میں لکھا گیا اور اسے نیرہ نے اپنی آواز کا نور بخشا، یہ تمام چیزیں لوگوں کو یاد آئیں گی اور ان کے دل کو ایک خاص دور کا حزن و ملال یاد دلائیں گی۔
نیرہ کے بارے میں ایک اور بات۔ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ میں بستر پر لیٹی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی کہ اچانک میرے کانوں میں ایک گیت گونجا:
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو، کبھی ہم خوبصورت تھے
ضیاء الحق کے زمانے میں لفظ ''بوسہ'' کیسے نشر ہو سکتا تھا؟ لیکن وہ نشر ہوا اور ہوتا رہا۔ یہ ایک کشمیری شاعر اختر شمیم نے لکھا تھا جو اپنی ماں سے بچھڑ کر پاکستانی کشمیر آ رہے تھے۔ کیا خوبصورت گیت ہے اور نیرہ نے اسے کس دل سوز آواز میں گایا ہے کہ سننے والوں کا سینہ شق ہوتا ہے۔
نیرہ کے بارے میں ایک آخری بات جو شہریار زیدی نے کہی تھی کہ جن دنوں مجھے گھر آجانے میں دیر ہو جاتی تھی، اس وقت بھی نیرہ مجھے گرم چپاتی اتار کر کھلاتی تھیں۔